خوداپنی تلاش میں ناکام ونامرادآدمی۔۔حسن نثار

ماحول ایسا ہے کہ کراہت محسوس ہوتی ہے اس لئے حکومت، سیاست و دیگر ایسے معاملات پر سوچنے لکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آئیڈیل صورتحال یہی ہے کہ آدمی ناک پر رومال رکھ کر ذرا تیز تیز قدموں سے نکل لے لیکن کچھ نہ کچھ تو لکھنا ہی ہوگا تو کیا لکھیں؟

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ گورے سے آزادی حاصل کرنے والے برصغیر کے تمام ملکوں میں نظام آج بھی انہی کا چل رہا ہے۔

جمہوریت سے لے کر آبپاشی کے نظام تک، جدید عسکری نظام سے لے کر عدالتی نظام تک، اصطلاحیں بھی انہی کی عطا کردہ ہیں۔ یہ زرعی یونیورسٹیاں، انجینئرنگ یورنیورسٹیاں، میڈیکل کالجز، یہ بجلی، یہ ریلوے غرضیکہ جہاں ہاتھ رکھتے ہیں، ہاتھ ہوجاتا ہے۔

یہاں تک بھی سنا کہ ماچس سے لے کر ہینڈ پمپ تک بھی انہی کے دئیے ہوئے تحائف ہیں اور شاید یہی سب کچھ منطقی بھی ہے کیونکہ اگر صرف ایک کروڑ66لاکھ آبادی کا مختصر سا جزیرہ 20کروڑ سے بھی کہیں زیادہ آبادی والے’’برصغیر‘‘ پر قابض ہوجائے تو اسے صرف ’’سازش‘‘ قرار دے دینا خود اپنے خلاف سازش اور بدترین خود فریبی کے سوا کچھ نہیں لیکن یہاں سب چلتا ہے بلکہ چلتا ہی نہیں دندناتا پھرتا ہے اور اس دندناہٹ کی آہٹ نہیں گونج ہم ہر روز سنتے ہیں لیکن اک تازہ ترین جھٹکے نے تو میرا جوڑ جوڑ ہلا کے رکھ دیا۔

کیا یہ’’انکشاف‘‘ کسی جھٹکے بلکہ زلزلے سے کم ہے کہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا وغیرہ جیسے ’’آزاد‘‘ ملکوں میں کوئی ایک کھیل بھی ایسا نہیں جو ان کا اپنا ہو۔

ان سب ’’آزاد‘‘ ملکوں کا ہر کھیل دراصل ان کی غلامی کا انعام بھی ہے اور یادگار بھی۔ رہ گیا گلی ڈنڈا، لکن میٹی، باندر کلا، بنٹے،اخروٹ، آنڈا ایکسپریس، شٹاپو، چھو چھپائی، چور سپاہی، کوکلاچھپاکی وغیرہ تو اگر یہ بھی’’سپورٹس‘‘ ہیں تو آپ کی مرضی کہ’’ہم سب زندہ قومیں ہیں۔‘‘اب ایک نظر آج کے ان مقبول ترین کھیلوں پر جو سو فیصد گورے کے ساتھ آئے اور ہماری رگوں میں اتر گئے ……چشمِ ما روشن دلِ ماشاد۔

کھیلوں کی ماں……’’کرکٹ‘‘، ’’کرکٹ‘‘ ، ’’کرکٹ‘‘ جو گلیوں میں بھی گھس چکی ۔ہاکی، جسے ہم قومی کھیل سمجھتے ہیں۔فٹ بال، ٹیبل ٹینس، لان ٹینس ،بیڈ منٹن، اسکواش ،گالف ،برج ،سوئمنگ (بطور کھیل) لڈو، ڈرافٹس، کیرم بورڈ وغیرہ علیحدہ۔آج کل DAVID GILMOURکی اک ہوشربا تخلیق زیرِ مطالعہ ہے۔

عنوان ہے اس کا “BRITISH IN INDIA”اس کتاب کا اک معمولی سا باب ہے”CRICKET & OTHER GAMES”میرے نزدیک اس باب کا ’’عطر‘‘ ہے یہ جملہ کہ’’برصغیر کے لوگوں میں ’’ٹیم‘‘ ….. ’’ٹیم ورک‘‘ اور ’’ڈسپلن‘‘ کا کوئی تصور اور وجود ہی نہیں ہے جبکہ اپنے حوالہ سے وہ HARROW””کے سابق ہیڈ ماسٹر اور کلکتہ کے بشپJ.E.C WELLDON(1898) کی ایک تھیوری بیان کرتا ہے۔

غور فرمائیے اور کبھی نہ سوچیئے نہ شرمائیے۔SPORTING ENDEAVOURAND IMPERIAL ACHIEVEMENT WENT TOGETHER. IT WAS THE LESSON THAT BRITISH BOYS LEARNED ON THE CRICKET PITCH AND THE FOOTBALL FIELD. LESSONS WHICH INSTILLED PLUCK, PERSEVERANCE, ENERGY, FORTITUDE, TEAM SPIRIT AND DISCIPLINE, THAT WOULD LATER WIN THEM, THE DAY IN PEACE AND WAR. ʼʼIN A PAPER DELIVERED TO THE ROYAL COLONIAL INSTITUTE IN 1895, WELLDON DECLARED THAT IN HISTORY OF THE BRITISH EMPIRE IT IS WRITTEN THAT ENGLAND HAS OWED HER SOVEREIGNTY TO HER SPORTS.”قارئین!معافی چاہتا ہوں کہ بطور’’مترجم‘‘ میری سرے سے کوئی تربیت ہی نہیں کیونکہ یہ ایک اور طرح کی مہارت ہے۔‘‘

’’پاکستان ملٹری اکیڈیمی کا کول‘‘ سے لے کر کسی اور اکیڈیمی تک جہاں بھی انگریزی میں لیکچر دئیے اور سوال جواب سیشن بھگتائے، جب اپنے ہی لکھے کہے کا ا ردو ترجمہ کرنے بیٹھا تو ہوش ٹھکانے آگئے کیونکہ’’ترجمہ‘‘ اک اور قسم کی تربیت ،تجربہ کا متقاضی ہے۔

اس لئے ترجمہ سے بچتا ہوں کہ شاید انصاف نہ کرپائوں بہرحال ذرا آگے چلتے ہیں۔1933میں ’’آرمی سپورٹس کنٹرول بورڈ آف انڈیا‘‘ نے اپنی ہینڈ بک میں لکھا کہ’’اک عمدہ کھلاڑی اک ایسا عمدہ انسان ہوتا ہے جو اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ اپنی’’ٹیم‘‘ کی فتح، عزت اور آن کے لئے کھیلتا ہے۔

وہ صرف جیت ہی نہیں ہار میں بھی وقار(GRACE)کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ فتح میں عجز و انکسار کا مظاہرہ کرتا ہے اور شکست کی صورت میں بھی ’’روند‘‘ نہیں مارتا اور………”WHO NEVER INTERFERES WITH REFEREES OR JUDGES, NO MATTER WHAT THE DECISION.”یہی کلید کامیابی ہے اور قدرت نے کبھی کسی کے لئے بھی اپنے قوانین میں ترمیم نہیں کی تو ہم’’ایسے‘‘ اس لئے ہیں کہ ہم’’ایسے‘‘ ہی کرتے تھے، ’’ایسے ‘‘ ہی کررہے ہیں اور ’’ایسے ‘‘ ہی کرتے رہیں گے اور ’’ایسے‘‘ ہی رسوا اور پسپا بھی رہیں گے۔

ہمارے ہاں صدیوں پہلے بھی’’کھیل‘‘ اجتماعی نہیں ’’انفرادی‘‘ قسم کے ہی ہوتے تھے اور ہماری ڈھٹائی کی انتہا یہ کہ ہم نے کھیل تبدیل کرلینے کے باوجود ’’بنیادی رویے‘‘ تبدیل نہیں کئے۔

ہمارے ہاں آج بھی ’’ٹیم‘‘ کا کوئی تصور نہیںاور یہ حکایت بہت مقبول ہے کہ کسی نے بچھوئوں کی قطار سے پوچھا’’ تم میں سے سردار کون ہے؟‘‘ جس کی دم پر پائوں رکھو وہی سردار ہے‘‘بیک زبان اک آواز آئی۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارے جو للو پنجو ٹائپ نام نہاد لیڈر تھے…….آج بھی ہیں اور چشم بددور آئندہ بھی رہیں گے تو کیا یہ سارے گھامڑ مل کر بھی اس قابل نہیں کہ “HARROW”کے ایک سابق ہیڈ ماسٹر کی طرح ہی سوچ سکیں؟ کیا کبھی ہم پر بھی وہ وقت آئے گا کہ ہمارے یہ ’’کیدو‘‘ ٹائپ قائدین ’’نوٹ‘‘ اور ’’ووٹ‘‘ کے علاوہ بھی کچھ سوچ سکیں……..کچھ کرسکیں۔

قارئین!چور چوری سے جاتا ہے، ہیرا پھیری سے باز نہیں آتا اور ہم جیسے ’’کاکروچ‘‘ بار بار گٹر کی طرف جانے سے باز نہیں آتے تو آخر ہر دو باتیں آپ کے ساتھ شیئر کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔

پہلی یہ کہ میں بہت خوش ہوں کہ کبھی مجھ پر بھی نواز شریف جیسا کیس بن گیا یا اس سے ملتا جلتا کیس بن گیا تو اگر میں افورڈ کرنے کے قابل ہوا تو یہاں ایڑیاں رگڑتے نہیں مروں گا۔

دوسرا جانِ برادر بابر اعوان کا یہ جملہ جو ٹکر کی صورت دیکھا جس کا مفہوم یہ کہ جنہیں اعلیٰ ترین عدالت ’’غیر صادق، غیر امین‘‘ قرار دے چکی ہو……خیر مجھے تو اپنی تلاش میں ہی ناکامی و نامرادی کا مسلسل سامنا ہے، میں نے اور کیا کرنا ہے، کیا سوچنا اور لکھنا ہے؟’’ٹھیک ہوتے ہی واپس آئیں گے؟‘‘ لیکن یہ کون جانے کہ ’’ٹھیک‘‘ کب ہوں گے؟ کہ مریض جب تک خود کو ٹھیک ڈیکلیئر نہیں کرتا ٹھیک نہیں ہوتا۔

اللّٰہ ہی جانے کون بشر ہے۔اللّٰہ ہی جانے کیسا نگر ہے جس میں اک آدمی خود کو بھی تلاش نہیں کرسکتا اور ناکام و نامراد رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply