کیا پاکستانی قوم اپنے ہیروز کو فراموش کر دے گی ؟۔۔افراز اختر

پرواز کے بیس منٹ بعد درازقد جوان کاک پٹ کی جانب بڑھا، ایئر ہوسٹس نے بڑے ادب سے کہا تھا۔ ’’سر آپ تشریف رکھیں، کاک پٹ میں جانے کی اجازت نہیں۔‘‘ مگر خوبرو فضائی مہمان کو جواب دینے کے بجائے یہ نوجوان دھکا دیتے ہوئے کاک پٹ میں گھس گیا۔ ایئر ہوسٹس جو گرتے گرتے سنبھلی تھی، اسکی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔ اسے یہ سانسیں بھی آخری لگ رہی تھیں۔ ایک لمحے میں اس کا چہرہ خوف سے پسینے سے شرابور ہوا اور سرخ و سفید سے زرد پڑ گیا۔ نوجوان نے کاک پٹ میں داخل ہوتے ہی پسٹل نکال کر پائلٹ کی کن پٹی پر رکھ دیا۔ اسی دوران اس دہشتگرد کے دو ساتھی بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور پسٹل مسافروں پر تان لئے۔
یہ فلمی کہانی نہیں، یہ پی کے 554 پرواز تھی۔ یہ پاکستان میں 25 مئی 1998ء کو اغوا ہونیوالے مسافر جہاز کا ناقابل فراموش واقعہ ہے جس میں ہر لمحے ڈرامائی موڑ آتے رہے۔
پی آئی اے فوکر 27 تربت ایئرپورٹ سے اڑا، گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے مزید مسافروں کو لے کر کراچی روانہ ہوا۔ اس میں 33 مسافر اور عملہ کے پانچ افراد سوار تھے۔ اسے ساڑھے چھ بجے کراچی پہنچنا تھا مگر اب اسکی منزل کا فیصلہ ہائی جیکروں نے کرنا تھا۔
دہشتگرد کی انگلی ٹریگر پر تھی، اس نے کیپٹن عزیر کو حکم دیا۔ ’’جہاز کراچی نہیں انڈیا دہلی ائیرپورٹ لے  جائے‘‘۔ دہشتگرد نے کیپٹن کو انڈیا سول ایوی ایشن سے رابطہ کر کے اترنے کی اجازت مانگنے کو کہا۔ کیپٹن عزیر نے ایسا ہی کیا اور ساتھ ہی جہاز کی سمت بھی بدل دی۔ اسی لمحے ایئرہیڈ کوارٹرکو بھی خبر ہو گئی اور آناً فاناً دو فائٹر جیٹ ایف 16 فضا میں بلند ہو گئے۔ کیپٹن عزیر دہشتگردوں کے اناڑی پن کو بھانپ گئے تھے۔ دہشتگرد کے کہنے پر کیپٹن عزیر نے دہلی ایئر پورٹ سے رابطہ کیا۔ وہ دراصل اپنے ملک میں ہی ہیڈ کوارٹر کیساتھ رابطے میں تھے جبکہ دہشتگردوں کو باور کرایا جارہا تھا کہ دہلی ایئر پورٹ سے رابطہ ہے۔ ہیڈ کوارٹر میں حکام کی ارجنٹ میٹنگ میں ایکشن پلان بنایا گیا، ایکشن پلان میں فیصلہ یہ ہوا کہ فوکر کو حیدر آباد سندھ ایئرپورٹ پر اتارا جائے۔

کیپٹن عزیر نے دہشتگردوں کو بتایا کہ ہمارے پاس کافی ایندھن نہیں ہے جو ہمیں دہلی لے جا سکے، ہمیں قریبی ایئر پورٹ سے ایندھن اور خوراک لینا پڑے گی۔ ہائی جیکر ہر صورت جہاز دہلی لے جانا چاہتے تھے۔ ان کے پاس نقشہ تھا۔ وہ نقشہ دیکھتے ہوئے بھوج ایئرپورٹ کا ذکر کر رہے تھے۔ ان کی باتیں سن کر کیپٹن نے کہا کہ انڈیا کا بھوج ایئر پورٹ قریب پڑتا ہے۔ دہشتگردوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ اب اگلا مرحلہ تھا بھوج ایئرپورٹ رابطہ کر کے اترنے کی اجازت کا  ۔ کیپٹن عزیرنے وہاں رابطہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہائی جیکر بھوج ایئر پورٹ پر اترنا چاہتے ہیں۔ جواب میں ٹھیٹھ ہندی میں ایئر پورٹ آفیسر نے کال ہینڈل کرنا شروع کر دی۔ دہشتگردوں نے اسے بتایا کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں وہ حکومت پاکستان کے انڈیا کے مقابلہ میں نیوکلیئر تجربے کرنے کے کیخلاف ہیں اور اس ہائی جیک سے وہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ ایٹمی تجربہ نہ کرے۔ تھوڑے انتظار کے بعد دوسری طرف بتایا گیا کہ پردھان منتری نے ان کو بھوج ایئر پورٹ پر لینڈ کرنیکی اجازت دیدی ہے۔ جس پرخوشی سے دہشتگردوں نے جے ہند اور جے ماتا کی جے کے نعرے لگائے۔

یہ سب کچھ حیدر آباد ایئرپورٹ کے اردگرد فضا میں ہو رہا تھا۔ ہنگامی طور پر حیدر آباد ایئر پورٹ سے تمام جہاز ہٹا دیئے گئے۔ پولیس فورس نے ایئر پورٹ کی جانب جانیوالے تمام راستے بند کر دیئے۔ ایس ایس جی کمانڈوز، پولیس اور رینجرز مستعد کھڑے تھے، افسران کی نگاہیں سکرین پر تھیں، اب جہاز نے ٹائم پاس کرنا تھا اس لئے کہ وہ پہلے ہی حیدر آباد کی حدود میں ہی تھا۔ کیپٹن عزیر کمال ہوشیاری اور ذہانت سے جہاز مزید بلندی پر لے گئے اور وہیں ایک ہی زون میں گھماتے رہے اور ظاہر یہ کرتے رہے کے وہ انڈیا جا رہے ہیں جبکہ ایف 16 فائٹر جیٹ ان کے اردگرد تھے۔ رات کو اس وقت حیدر آباد ایئر پورٹ پر تمام لائٹس بند کر دی گئیں۔ ایئر پورٹ سے ہلالی پرچم اتار کر ترنگا لگا دیا گیا۔ ہیڈ کوارٹر سے ہدایات ہندی میں ہی دی جا رہی تھیں۔ کیپٹن صاحب جہاز کو جعلی بھوج ایئرپورٹ پر لینڈ کرانے والے تھے۔ سارا ایئرپورٹ خالی تھا۔ وہاں دہشتگردوں نے انڈیا کا پرچم لہراتے دیکھا تو جے ہند کے نعرے بلند کئے، ساتھ ہی کیپٹن عزیر کو گالیاں دیں۔ جہاز کو ایک سائیڈ پر پارک کر دیا گیا تو مذاکراتی ٹیم جہاز میں داخل ہوئی۔ یہ ٹیم ایس ایس پی حیدر آباد اختر گورچانی، اے ایس پی ڈاکٹر عثمان انور اور ڈپٹی کمشنر سہیل اکبر شاہ پر مشتمل تھی انہوں نے اپنا تعارف باالتریب اشوک بھوج ایئرپورٹ منیجر، رام اسسٹنٹ ایئرپورٹ منیجر کے طور پر کرایا سہیل اکبر شاہ نے خود کو ڈی سی راجستھان ظاہر کیا۔ انہوں نے ہندی میں دہشتگردوں سے بات چیت کی گویا یہ انڈیا تھا اور یہ بھوج ایئر پورٹ۔ دہشتگرد ایندھن اور خوراک چاہتے تھے لیکن بات چیت طویل ہوتی جارہی تھی، تینوں اہلکاروں کا ہدف تھا کہ وہ جہاز کے اندر کی صورتحال کا جائزہ لیں۔ خاص طور پر وہ شخص جس نے جسم پر پیکٹ باندھ رکھے تھے وہ انکے ہتھیاروں کو بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ اس ٹیم نے دہشتگردوں سے کہا کہ عورتوں بچوں کو یہیں اتار کر آپ دہلی چلے جائیں یہ چونکہ دہشتگردوں کے ہمدرد تھے اس لئے بات مان لی۔ رات گیارہ بجے جہاز سے عورتیں اور بچے اترنا شروع ہوئے ان مسافروں کے جہاز سے اترنے کی دیر تھی کہ جہاز کے چاروں طرف اندھیرے میں خاموشی سے رینگتے ہوئے کمانڈوز ایک ہی ہلے میں تیزی کے ساتھ پہلے اور دوسرے دروازے سے اللہ اکبر کے نعروں کیساتھ حملہ آور ہوگئے۔ اللہ اکبر کے نعرے نے دہشتگردوں کو حیرت زدہ کر دیا۔ بد حواسی میں ایک دہشتگرد نے ڈپٹی کمشنر پر فائر کردیا تاہم نشانہ خطا گیا۔ دو منٹ کے اندر تینوں دہشتگردوں کو قابو کر کے باندھ دیا گیا۔ وہ حیران پریشان تھے اور یہ بھوج ایئرپورٹ پر اللہ اکبر والے کہاں سے آگئے۔ چیف کمانڈو نے آگے بڑھ کر زمین پر بندھے ہوئے دہشت گردوں کیطرف جھکتے ہوئے ان کی حیرت زدہ آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہو ئے  کہا۔ ’’ویلکم ٹو پاکستان‘‘ کپیٹن عزیر بڑے سکون سے بیٹھے ساری صورتحال دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ ا پنا بیگ اٹھاتے ہوئے دہشتگردوں کے قریب سے مسکراتے ہوئے جہاز سے اتر گئے۔ حواس بحال رہیں تو کیپٹن عزیز جیسے کارنامے انجام دینا ناممکن نہیں۔

اس واقعہ کے ہیرو کپٹن عزیر کو اعزازی میڈل دیئے گئے۔ ان دنوں سندھ میں معین الدین حیدر گورنر تھے۔ انہوں نے پولیس کیلئے خصوصی اعزازات کی سفارش کی۔ سترہ سال بعد 2015  کو تینوں دہشتگردوں کو  28  مئی کو سزائے موت دے دی گئی۔ یہ وہی دن ہے جب ایٹمی دھماکوں کی یاد میں قوم پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی سالگرہ مناتی ہے

پوری دنیا اپنے ایسے ہیروز کی یاد میں فلمیں بنا کر ان کے کرداروں کو ایک اور زندگی بخشتی ہے اور اپنی نسلوں کو بتاتی ہے کہ زندہ قومیں اپنے ان ہیروز کو کیسے خراج تحسین پیش کرتی ہیں ۔

جوانوں میں وطن کی محبت جگائے جاتی ہے ، انڈیا نے اسُ پر بہت عرصے سے کام شروع کیا ہوا ہے اس سلسلے کی کڑی میں انہوں نے  ملکھا سنگھ ، ائیر لفٹ ، نیرجا جیسی  مووی بنا کر اپنے جوانوں کو بتانا شروع کر دیا ہے لیکن ہمارے ہاں سوائے شاہ مووی کے کچھ اور ایسی تخلیق نہ آ سکی ۔

ہمارے ہاں  ہیرو چھوٹا ہو یا بڑا ہم اس کی ذات کو اتنا زیادہ controversial  بنا دیتے ہیں کہ اگر اس پر کچھ اچھا آ بھی جائے تو نسل اس کو قبول نہیں کرتی ۔میڈیا وار بھی ایسی آ چکی ہے کہ اگر اے آر وائی کی پروڈکسشن میں کوئی مووی بنتی ہے تو باقی سب میڈیا میں ایک چھوٹی سی خبر بھی نہیں لگائی جاتی ایسے ہی اگر جیو مووی بنائے تو اے آر وائی اور  دیگر چینل اور اخبارات یہی کچھ کرتے ہیں ۔ حتی کہ وہ انڈیا کی مووی اور اس کے کرداروں پر تو بات کر لیں گے لیکن اپنوں سے نفرت اس حد تک بڑھا دی گئی کہ میڈیا چینل مالکان آپس کی نفرتیں قوم تک میں تقسیم کر رہے ہیں ۔

خدارا اس قوم پر رحم کریں کچھ مثبت تربیت کریں پیسہ بھی بنائیں لیکن ہماری نسلوں پر بھی احسان کر دیں ۔

پوری دنیا اپنے ہیروز کی ہر طرح سے عزت کرتی ہے اور ان کی ذاتی زندگی کے متعلق کوئی بات نہیں کرتی   چاہے ان کی ذاتی زندگی جیسی بھی ہو اور ایک ہم ہیں جو ہمیشہ اپنے ہیروز کو ذلیل کرنے کے لیے ان کی  ذاتی زندگی کا ہی سہارا لیتے ہیں ۔ شائد ہم بھی کبھی ان کی ذاتی زندگی سے ہٹ کر ان کی   تعریف کریں ۔ انُ کو ایک ایک انسان کی طرح سمجھیں اور اپنے ملک کے وقار کی علامت سمجھیں۔
اپنے اردگرد دیکھیں آپ کو دھونی ، ٹنڈو لکر اور ملکھا سنگھ سے بھی پاور فل ہیروز اپنے ملک میں مل جائیں گے ان کی قدر کریں یہ سب ہمارے اپنے  ہیں اور یہ سب پاکستان کا اہم حصہ ہیں ۔

خدارا قوم کو ایسے ہیروز کی زندگیوں سے روشناس کروائیں ہماری قوم کے انمول ہیروں کی ایک لسٹ تیار کی جائے اور ان پر شارٹ ڈاکیومنٹری ، موویز  جو بھی ہو سکے بنائیں ۔ورنہ ہمارے نونہالوں کے ہیرو انڈیا سے ہی بنتے رہیں گے ۔   ابھی  بھی بہت سے ایسے ہیروز ہیں جن کی زندگیوں سے  ہمارے جوانوں کو روشناس کروایا جا سکتا ہے ان کو رول ماڈل بنا کر معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے

بہت سے ایسے ہیروز جو مختلف شعبوں میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں ان کا تعارف کروایا جائے  ۔اور پاکستان سے باہر بھی جو پاکستانی  مقیم ہیں اور پاکستان سے ان کا تعلق ہے  اور کسی بھی شعبے میں اچھا کام کر رہے ہیں ان کے بارے میں بھی پاکستانی قوم کو بتایا جائے ۔

ہر وہ پاکستانی ہمارے لئے ہیرو کا درجہ رکھتا ہے جو ملک کا پرچم سر بلند رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہے ۔

اب ہمیں  پاکستانیت کو فروغ دینا چاہیے  اور ہمیں ہر وہ پاکستانی عزیز ہے جو پاکستان کا نام روشن کر رہا ہے ،

کیا پاکستانی قوم اپنے ہیروز کو بھول جائے گی ، ان کی خدمات کو فراموش کر دے گی ؟

کیا ہم اپنی نسلوں کو اپنے ہیروز سے متعارف نہیں کروائیں گے ؟

سوچیے گا ضرور۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

افراز اخترایڈوکیٹ
وکیل ، کالم نگار ، سوشل ایکٹویسٹ، گلوبل پیس ایمبیسڈر ،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply