ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب عقیدے یا سیاسی نظریات کی بات ہوتی ہے تو ہم ساری نزاکتیں، گفتگو کا سارا سلیقہ اور ساری وسیع النظری فراموش کرکے گالی گلوچ اور ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں؟ حالانکہ زندگی کے بہت سارے معاملات میں ہم وسیع القلبی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ زرا اپنے اطراف نظر دوڑائیں۔ آپ کو لوگوں کے لباس، ان کے رنگوں، بالوں کی تراش خراش، داڑھی مونچھوں کی بناوٹ، جوتوں کے سٹائل اور پرفیوم کی خوشبو، الغرض ہر معاملےمیں ایک تنوّع نظر آئے گا۔ انواع و اقسام اور رنگوں کی گاڑیاں، ان پر لگے آرایشی سٹکرز اور ان کے اندر سے ابھرنے والی مدھر موسیقی کی مختلف اصناف۔ کیا آپ نے کبھی کسی شخص کو کسی دوسرے سے محض اس بات پر لڑتے جھگڑتے یا ایک دوسرے کا خون بہاتے دیکھا ہے کہ اس نے فلاں رنگ کے کپڑے کیوں پہن رکھے ہیں؟ یا اس کے بالوں کا سٹایل ویسا کیوں ہے؟ یا پھر وہ محمدرفیع کے بجائے استاد سراہنگ کے گانے کیوں نہیں سنتا؟ ہرگزنہں۔ بلکہ ہر کوئی اسے دوسرے کے ذوق اور ذاتی مسٓلے سے تعبیر کرکے اپنی راہ لے لیتا ہے۔
چلیں ان باتوں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ کیا کھانے پینے کے معاملے میں سب کی پسند و ناپسند ایک ہوتی ہے؟ کاروبار اور زندگی کے دیگر شعبوں کا انتخاب کیا ہم اپنی سہولت اور مرضی کےمطابق نہیں کرتے؟ شادی بیاہ اور دیگر رسومات کے معاملے میں بہت ساری باتیں شاید ہمیں اچھی نہ لگے، ہم ناک بھوں تو چڑھا لیتے ہیں لیکن کیا ہم ڈنڈا اور اسلحہ لیکر ان پر دھاوا بول دیتے ہیں؟ یقیناَ نہیں، بلکہ یہاں بھی ہم سارے معاملے کو انکا ذاتی معاملہ قرار دے کر چپ سادھ لیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو ہم کسی مِشنری سکول میں داخل کروائیں یا ایسے سکول میں جہاں اسلامی تعلیمات پر زیادہ زور دیا جاتا ہو،؟ اس موضوع پر کسی کے ساتھ گفتگو تو کی جاتی ہے لیکن آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے پر چڑھائی نہیں کی جاتی۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ جب عقیدے یا سیاسی نظریات کی بات ہوتی ہے تو ہم ساری نزاکتیں، گفتگو کا سارا سلیقہ اور ساری وسیع النظری فراموش کرکے گالی گلوچ، ہاتھا پائی بلکہ اکثر اوقات تشدد پہ اتر آتے ہیں! تب ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ عقیدہ اور نظریہ بھی کسی انسان کا ذاتی فعل ہوتا ہے جس کے لئے اپنے معبود کے سامنے جوابدہ بھی وہ خود ہی ہوتا ہے اور ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ زندگی کے دیگر تمام معاملات کی طرح اپنے عقیدے اور نظریے پر بھی مکمل آزادی کے ساتھ اور کسی دباؤ کے بغیر عمل کرسکے۔
لیکن عقیدے اور نظریے کے معاملے میں ہم کسی اور کی سنتے کہاں ہیں۔ تب ہم اپنی آنکھیں اور کان دونوں بند کرلیتے ہیں۔ دراصل ہم سب اس زعم میں گرفتار ہیں کہ فقط ہم ہی حق پر ہیں جبکہ باقی سب غلط راستوں پر چل رہے ہیں۔ اور یہی سے ساری خرابی شروع ہوتی ہے۔ کوئی بات زرا بھی ہمارے مزاج اور عقیدے کے خلاف ہو ہم جھٹ سے کوئی فتو یٰ صادر کردیتے ہیں اور آستینیں چڑھا کر اور پاینچے اٹھا کر دوسروں کو بزور بازو صحیح راستے پر لانے کے لیے میدان میں کود پڑتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہمارے پڑوس میں کسی غریب کے بچّے بھوک سے تلملا رہے ہوں، پاس کوئی مریض دوائیں نہ ہونے کے باعث ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہو یا پڑوس کی بیوہ عورت اپنے بچوں کی کتابوں، جوتوں اور کپڑوں کے لئے پریشان ہو تو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی لیکن ہم انہیں صبرو شکر کی تلقین اور راہِ راست پر چلتے رہنے کی نصیحت کرنے کا اپنا دینی و مذہبی فریضہ ہرگز نہیں بھولتے۔ غریبوں کی مدد کرتے ہوئے ہمارے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں، لیکن ہم تواتر کے ساتھ صدقات و خیرات کرتے رہتے ہیں تاکہ سب پر ثابت کرسکیں کہ ہم خدا کے کتنے نیک بندے ہیں۔ جب ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو دیگر مذاہب کے لوگ ہمیں جہنمی نظر آتے ہیں اور جب بات فرقوں کی ہو تو دیگر فرقوں کے لوگ ہمیں کافر لگنے لگتے ہیں۔ حد تو یہ کہ ایک ہی فرقے کے کسی دوسرے گروہ کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پربیٹھنا اور ان کی مسجد میں نماز پڑھنا ہمیں گوارا نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے ہمارے عقیدے پہ آنچ آتی ہے۔
ایک دوسرے کو جنت کا صحیح راستہ دکھانے کی دوڑ میں ہم اتنے آگے نکل آئے ہیں کہ ہم نے دنیا کو ہی جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ مذہب چاہے کوئی بھی ہو بنیادی طور پر پیارومحبت اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ مذہب کی بات سامنے آتے ہی پیار و محبت تو کیا انسانیت تک بھول جاتے ہیں۔ ایسے میں ہم تمام قانونی اور اخلاقی حدیں پار کرلیتے ہیں اور معاملہ زور زبردستی سے حل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ساری دنیا میں یہ دستور ہے کہ ریاستیں اپنی حدود میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کی خاطر وقتاَ فوقتاَ نئے قوانین متعارف کراتی رہتی ہیں جبکہ ہر معاشرے کی اپنی بھی کچھ روایات اور اخلاقیات ہوتی ہیں جو ریاستی قوانین کے ساتھ مل کر معاشرےمیں نظم و ضبط قایم رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ یہ لوگوں کے حقوق و فرائض کی حدود کا بھی تعیّن کرتی ہیں۔اس بارے میں ایک مشہور مقولہ بھی ہے کہ آپ کی حد وہاں ختم ہوتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔ لیکن جب معاشرے سے برداشت اور تحمل اٹھ جائے اور ادارے، گروہ اور افراد خود ہی اپنی اور دوسروں کی حدود کا تعیّن کرنا شروع کردیں تو ہر طرف افراتفری اور انارکی پھیل جاتی ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں نہ صرف اداروں بلکہ گروہوں اور افراد نے بھی ازخود تمام حدود کا تعین کرنا شروع کر دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ صرف ملک کا حال خراب سے خراب تر ہوتا جا رہا ہے بلکہ اسکے مستقبل پر بھی مختلف قسم کے سوالات اُٹھنے لگے ہیں۔ یاد رہے کہ اگر ہم اپنے معاشرے کو ایک متمدن اور پر امن معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں کی خواہشات اور پسندو ناپسند کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد و نظریات کا بھی اُتنا ہی احترام کرنا ہوگا جتنا اپنے عقائد و نظریات کا کرتے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب عقیدے یا سیاسی نظریات کی بات ہوتی ہے تو ہم ساری نزاکتیں، گفتگو کا سارا سلیقہ، ساری وسیع النظری اور انسانیت فراموش کرکے گالی گلوچ، ہاتھا پائی، تشدد،دہشت گردی اور حیوانیت پر اتر آتے ہیں۔

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply