کچھ سست قدم رستے۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

پاکستان سے دور رہتے ہوئے تو میرا جیسا آدمی بھی نجم سیٹھی اور شاہزیب کا پروگرام دیکھ لیتا ہے۔ ناک بھوں چڑھا کے “خبرناک” بھی اور “مذاق رات” کے “باباجی” کو سن کر (دیکھ کر نہیں کہ وہ باباجی لگتا ہی نہیں) مسکرا بھی سکتا ہے۔ پاکستان میں ہوتا ہوں تو مجال ہے ٹی وی دیکھوں۔ مطلب یہ کہ “کان نمک” میں پہنچتے ہی انسان “نمک” ہو جاتا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے، چاہے گھر میں، معاشرے میں یا حکومت کی سطح پر، عموم ہی لگتا ہے۔ اس حد تک کہ دھماکہ ہونا، انسانی جانوں کا ضائع ہو جانا اور لوگوں کا زخمی ہونا بھی ایسے لگتا ہے کہ کوئی معمول کا واقعہ ہو۔ یقین جانیے اپنے ملک سے دور رہتے ہوئے چاہے کسی نے میری طرح اپنے وطن کی شہریت ترک کرکے اس ملک کی شہریت کیوں نہ لے لی ہو جہاں وہ رہ رہا ہے، پھر بھی وطن وطن لگتا ہے۔ وطن کے مسائل زیادہ عیاں اور وطن کی ناگوار سہولتیں بھلی لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ گندی نالیاں اور گلیاں محلے تک یاد آنے لگتے ہیں۔
ایک بات جو سب سے زیادہ چبھتی ہے وہ ہر پیشرفت کی رفتار کا سست ہونا ہے۔ درست کہ ہمارے ملک کی سیاسی اور مالیاتی و معاشی پیشرفت میں ان گنت رکاوٹیں آئی ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور تکلیف دہ فوج کے سربراہوں کے ہاتھوں منتخب حکومتوں کا تختہ الٹا جانا اور حکومت پر قبضہ کر لینا رہا ہے۔ جیسے دنیا کا دو تہائی حصہ پانی اور ایک تہائی خشکی پر مشتمل ہے اسی طرح پاکستان کی تاریخ کا دو تہائی حصہ عسکر کی جھیل میں غرق ہے۔
پر ماضی میں فوج کی قیادت کا نامناسب کردار ہی سارا دکھ نہیں ہے۔ یہ بھی دکھ ہے کہ ایسی روش کیوں چل نکلی کہ جو بھی اقتدار میں آیا، اس نے اپنے کھاتے بھرے، اپنے لوگوں کو نوازا۔ صاف ظاہر ہے کہ خود گڑ کھاتے ہوئے اوروں کو گڑ کھانے سے منع تو نہیں کیا جا سکتا چنانچہ بدعنوانی فزوں تر ہوتی چلی گئی۔ صرف اسی عمل کے بڑھنے کی رفتار تیز رہی ہے۔ صنعت سازی کی رفتار سست، سرمایہ پذیری کا عمل سست، اداروں کی کارکردگی روبہ زوال غرض اعمال و افعال کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں گنوانا بے سود ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ اس سست روی کے پس پشت دو بڑے عوامل ہیں۔ افسر شاہی اور سیاسی اداروں کا فقدان۔ یہ دو عوامل اس لیے بڑے ہیں کہ افسرشاہی حالات کو جوں کا توں یعنی Status quo کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اس عفریت کے اپنے اللّے تللّے البتہ کم نہیں ہونے چاہییں۔ سیاسی اداروں کا اس لیے فقدان ہے کہ سیاستدانوں یا فوج جو بھی برسراقتدار ہوں سبھی افسر شاہی کے بل بوتے پر ہی خود کو عملی اور مالی طور پر مستحکم کرتے ہیں چنانچہ یہ دونوں مقتدر حلقے کسی بھی سیاسی ادارے کو فروغ پذیر نہیں دیکھنا چاہتے۔ سیاسی جماعتوں میں پہلا ادارہ پارٹی کے اندر منصفانہ اور شفاف انتخاب کرانے کا ادارہ ہوتا ہے لیکن ایسا ادارہ اب تک دکھائی نہیں دیا۔ سیاسی میدان کا دوسرا اہم ادارہ پارٹیوں کے اندر تنقیدی یا نگہدار ادارہ ہوتا ہے، اس کے برعکس ہمارے ہیں چاپلوسی اور کاسہ لیسی نے ادارے کو پنپنے نہیں دیا۔ کارکنوں کی سیاسی تربیت کی ہی نہیں جاتی بلکہ انہیں نعرہ زن، شخصیت پرست اور تنگ نظر بنا دیا جاتا ہے۔ وہ جمہوریت آشنا ہو ہی نہیں سکتے۔ جمہوریت دوستی کا اہم ترین عنصر برداشت ہوا کرتا ہے جسے تنگ نظری کھا جاتی ہے۔
دوسرا اہم معاملہ جس نے ہمارے ہاں سیاسی کلچر کو پنپنے نہیں دیا، پروان چڑھنے کی تو بات ہی کیا کرنی وہ ہمارے معاشرے میں شہری رویے نہ ہونا ہے۔ رشتہ داری نبھانا تو ایک انسانی صفت ہے لیکن برادری بندی کا کلچر جتھے کا کلچر ہے جو انسانی ما قبل تاریخ کے ان ادوار کی دین ہے جب جتھے جتھوں پر حملہ آور ہوتے تھے، بعد میں یہی جتھے برادریاں بن گئے ہونگے۔ برادری بندی میں نمائندگی کے لیے کسی کی سیاسی پرداخت یا نظری استعداد نہیں دیکھی جاتی بلکہ نمائندے کی سماجی حیثیت، اس کی عملی فعالیت اور اس کا اثر ورسوخ پیش نگاہ ہوتا ہے۔ ایسے نمائندے کبھی نہیں چاہیں گے کہ لوگوں کا سیاسی شعور بلند ہو۔ خاندانی سیاست دان ہونا نہ تو بری بات ہے اور نہ ہی غیر معمولی یا ماورائے عموم عمل لیکن سیاست کو اقتدار کا منبع سمجھتے ہوئے اسے اپنے ہی کنبے تک محدود کر لینا درحقیقت سیاسی عمل کو سست کرنے کی سازش ہوتی ہے۔
تیسرا اور اہم معاملہ عام لوگوں کے مالی حالات اور معاشی دشواریاں ہیں جو پیشرفت کے بہت سے مراحل کو سست رفتار بنا دیتے ہیں۔ سیاست اگر اوپر سے ہوگی تو ویسے ہی ہوگا جیسے بیان کیا جا چکا ہے لیکن اگر سیاست نیچے سے یعنی “گراس روٹس” سے ہوگی تو سیاسی، سماجی اور معاشی پیشرفت کے تمام اعمال کی رفتار مناسب رہے گی۔ چونکہ عوام کی اکثریت کے مالی حالات دگرگوں ہیں اور معاشی مشکلات بہت زیادہ چنانچہ ان میں ہیجان تو پایا جاتا ہے منطقی سوچ جگہ نہیں پا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی طور پر انتہائی غیر متوازن معاشروں میں “پاپولسٹ” سیاست دان مقبول ہوتے ہیں۔ گاندھی، بھٹو، عمران خان، کیجریوال کچھ مثالیں ہیں۔ ایسے سیاستدانوں کا مقصد لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا کر اپنی شخصیت ابھارنا ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فوری طور پر مسائل کا حل ممکن نہیں ہوتا۔ مسائل جتنے مزمّن ہونگے ان کا علاج اتنا ہی پیچیدہ اور دیر طلب ہوگا۔ اس کے برعکس اگر مسائل کے حل کی رفتار معمول سے تیز کر دی جائے گی تو سیاست کے پہیوں پر چڑھا خام معیشت شناسی کا یہ پٹہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔
چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں منطقی سیاسی سوچ پروان چڑھائی جائے۔ سیاست دان چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہوں انتخابات میں ووٹ دینے کی حد تک ان کا ساتھ دیا جا سکتا ہے لیکن شخصیت پرستی سے گریز کرنا چاہیے۔ جیسے بھی سیاست دان کو منتخب کریں اس کے مثبت اوصاف کے ساتھ ساتھ اس کے منفی اعمال پر بھی نظر رکھی جائے اور کم آگاہ لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے لیکن کسی کی ذات پر کیچڑ نہ اچھالا جائے۔ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں ایک منظم بحث کو رواج دیا جائے۔ ایسے گروہوں میں برداشت کو رواج دینا چاہیے اور دلیل کو بنیاد بنانا چاہیے۔ رائے دہندگان کو چاہیے کہ انتخابات کے بعد اپنے نمائندہ سیاست دان سے محض سلام کرنے یا کام کروانے کی غرض سے نہ ملیں بلکہ چھوٹے چھوٹے گروہوں یعنی وفود کی شکل میں ان سے ملا جائے اور ان سے اسی ایجنڈے پر گفتگو کی جائے جو اس گروہ نے گذشتہ ایک ماہ کی بحثوں کے دوران طے کیا ہو۔ سب سے زیادہ اور مسلسل زور بدعنوانی کی نشاندہی پر اور بدعنوانی کئے خاتمے کے لیے اپنے نمائندے کو راغب اور قائل کرنے پر دیا جائے۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کی تعمیر، تعلیم اور صحت کے مسائل پر بھی اپنے نمائندے سے مسلسل اور مدلّل بات چیت جاری رکھنی چاہیے۔ جب تک سب مل کر سست پڑ چکی گاڑی کو دھکا نہیں لگائیں گے تب تک اس کا تیز رفتار ہونا مشکوک رہے گا۔ یاد رہے سست رفتاری کا اگلا مرحلہ رک جانا ہوتا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply