• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اٹھائی گیروں کا ہجوم ، پارلیمنٹ ہاؤس سے بلاول ہاؤس تک۔۔سیّد علی نقوی

اٹھائی گیروں کا ہجوم ، پارلیمنٹ ہاؤس سے بلاول ہاؤس تک۔۔سیّد علی نقوی

بات نہیں کہی گئی
بات نہیں سنی گئی
موجودہ صورتحال میں جون ایلیا بہت یاد آ رہے ہیں کل جب اسمبلی کا مشترکہ اجلاس ہو رہا تھا اور صدرِ مملکت جنابِ عارف علوی خطاب فرما رہے تھے تو ایک جانب اپوزیشن کے اراکین تھے کہ جن کی Creativity اپنے جوبن پر تھی اور وہ نت نئے نعرے ایجاد کر رہے تھے ۔ دوسری جانب صدرِ مملکت تھے کہ جو وزیراعظم عمران خان کی تعریفوں کے پُل باندھ باندھ کر اپنی نوکری بچا رہے تھے جبکہ تیسری جانب پارلیمنٹ کے اندر اور باہر صحافیوں کا ایک جمِ غفیر تھا کہ جو جون بھائی کے اس شعر کی عملی تصویر بنا ہوا تھا
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
غرض کوئی بھی کسی کی نہ تو سنُ رہا تھا نہ اس میں دلچسپی رکھتا تھا…
موجودہ حکومت کی حرکتیں صرف ایک بات کی نشاندہی کر رہی ہیں اور وہ ہے بوکھلاہٹ، یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بوکھلایا ہوا شخص یا گروہ اپنے اور اپنے مخالفین کے لیے ایک سطح کا خطرہ ہوتا ہے، وہ عمران خان کہ جو کل تک میڈیا کی آزادی، اداروں کی خودمختاری، آزادیِ اظہار، صحافیوں ،اقلیتوں، معاشرے کے کمزور طبقوں اور نہ جانے کس کس کے حقوق کی بات کرتے تھے آج ان کے کان پر جویں بھی نہیں رینگتیں کہ جب معاشرے کے اہم ترین اداروں اور شعبوں سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد نوکریوں اور بنیادی حقوق سے محروم کر دی گئی ہے 72 محکموں سے سولہ ہزار سے زائد افراد کو محض اس لیے نکالا گیا ہے کیونکہ ان کو نوکری بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں دی گئی تھی جس کو یہ اور اس جیسی (نواز شریف اور مشرف) حکومتیں سیاسی بھرتیاں سمجھتی ہیں، بات یہاں رک جاتی تو بھی غنیمت تھی لیکن بات آگے بڑھتی ہے اور حکومت ایک بل لے کر آنے کی تیاری مکمل کر چکی کہ جس کے تحت اب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی اگر کوئی حکومت پر تنقید کرے گا تو وہ سزا بھگتے گا یا جرمانہ ادا کرے گا جس کے خلاف ملک بھر کے صحافی سراپا احتجاج بن گئے ہیں، دوسری جانب وکلا نے ابھی دو دن پہلے حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج تو کیا ہی ساتھ کے ساتھ ہڑتال بھی کی سننے میں تو یہ بھی ہے کہ صدر مملکت ایک بار پھر جسٹس فائز عیسی کے خلاف آرڈیننس لانا چاہتے ہیں جو کہ ایک بڑے بھونچال کو دعوت دے گا کیونکہ اب پاکستان بھر کی بار کونسلر اور وکلاء تنظیمیں جسٹس فائز عیسی کے ساتھ ہیں…. ابھی کل پرسوں کوئی پوچھ رہا تھا کہ کیا انتخابات وقت سے پہلے بھی ہو سکتے ہیں تو میں نے اس پر کہا کہ ممکن اس لیے نظر آتا ہے کہ فائز عیسٰی اگر چیف جسٹس بن گئے تو یہ آر اوز کا الیکشن ممکن نہیں رہے گا نہ ہی RTS بیٹھنے دیا جائے گا اور Electronic voting machines کو تو شاید انکے چیف جسٹس بننے سے پہلے ہی اڑا دیا جائے، عوامی مینڈیٹ کی صورتحال تمام ضمنی اور کنٹونمنٹ کے حالیہ الیکشنز سے جانچی جا سکتی ہے عمران خان کی عوامی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اس کا اندازہ مجھے چند دن قبل اس وقت ہوا کہ جب شوکت خانم ہسپتال کے ایک افسر سے ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ سال 2021 میں شوکت خانم کے فنڈز میں سال 2020 کے مقابلے میں 42 فی صد گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے اور اس بات سے جب عمران خان کو آگاہ کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ شوکت خانم اور حکومت دو مختلف چیزیں ہیں جبکہ انہی افسر کے بقول اب عمران خان شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ کے لیے کسی بھی قسم کی ایکٹیوٹی کا حصہ بننے کو بھی تیار نہیں ہیں… رہ گئے وزرا تو وہ کون سے عمران خان کے وزیر ہیں ایک اٹھائی گیروں کا گروہ ہے کہ جو اپنی واردات پر ہے اور ہر وہ بات منوانے پر مصر ہے کہ جو سرے سے موجود ہی نہیں ہے شہباز گل ابھی کل ایک ٹی وی شو میں غریدہ فاروقی اور مہر بخاری کو فصاحت و بلاغت کے ہمالیہ پر چڑھ کر یہ بتا رہے تھے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق اور حفاظت کی صورتحال امریکہ، بھارت اور ترکی سمیت بیس سے زائد ملکوں سے بہتر ہے ، وزیر خزانہ بتا رہے ہیں کہ اقتصادی اعشاریے تاریخ کی بہتریں سطح پر ہیں،کرکٹ کہ جس کو عمران خان نے ٹھیک کرنا تھا اس کے نئے نویلے چئیرمین PCB رمیز راجہ بتا رہے ہیں کہ انکے نام کا قذافی سٹیڈیم میں ایک انکلوژر ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انکے سولہ سالہ کرکٹ کیرئیر میں نو سنچریاں ہیں اور انکی ایوریج کبھی بھی کسی بھی فارمیٹ میں تیس اکتیس سے اوپر نہیں رہی… یہ وہ تمام باتیں ہیں کہ جو عمران خان کو نہ تو سنائی جاتی ہیں اور نہ وہ یہ سب سننا پسند کرتے ہیں ….

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی بلاول بھٹو جنوبی پنجاب کے دورے پر تھے، صحافیوں اور دانشوروں سے انکی ملاقات کا اہتمام کیا گیا، ستمبر کی ایک حبس زدہ دوپہر میں صحافیوں کو شامیانوں کی چھاؤں اور پنکھوں کی گرم ہوا تو میسر رہی لیکن بات کرنے کی آزادی میسر نہیں تھی وہ بات جو وہ کرنا چاہتے تھے، وہ بات جو مفاد عامہ اور مفادِ پیپلز پارٹی کی بات تھی، وہ بات کہ جو جمہور اور جمہوریت کے مفاد کی بات تھی، وہ بات جو انہوں نے اپنے بچپن یا لڑکپن میں بلاول کے نانا اور انکی ماں سے سنی تھی، وہ کہ جو تاریخ کا سبق تھا، مکالمے کے لیے گھر بلا کر کہا گیا کہ ایک ہی سوال کی اجازت ہے، اس طرح سے کون ملاقات کرتا ہے صحافیوں سے؟؟ رہ گئے دانشور تو وہ بیچارے ستر ستر سال کی عمر میں بتیس سال کے چیئرمین کے ساتھ ایک تصویر بنوانے کے لیے کبھی فلیٹیس دی گرینڈ کے چکر لگاتے رہے تو کبھی بلاول ہاوس کے تو کبھی حیدر عباس گردیزی کے گھر کے کہ جہاں تعزیت کے لیے جانا بلاول کے لئے نا گزیر تھا …
یہ ہے ہماری اس وقت کی سیاسی قیادت کی صورتحال کوئی کسی نہیں سننے کو تیار، کسی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، کوئی کسی سے مخلص نہیں ہے اور جب ایسی صورتحال ہو کہ اپوزیشن اپوزیشن کی نہ سنے، حکومت حکومت کی نہ سنے، عوام ایک دوسرے کی نہ سنیں، عدالت درخواست نہ سنے اور سب سے اوپر ہے فوج جو کسی کی نہ سنے تو ایسی ہی صورتحال کو استادوں نے انارکی کہا ہے…. ایک طرف ایک گروہ ہے کہ جس کا خیال ہے کہ پاکستان کو صرف میاں نواز شریف بچا سکتے ہیں ایک گروہ ہے کہ جو کہتا ہے کہ عمران خان ہی ہے کہ جو اس ملک کو بحرانوں سے نکال سکتے ہیں ایک گروہ کو بھٹو اور اسکی پارٹی پر ایمان ہے، ایک ہجوم ہے کہ جو اسلامی طرزِ معاشرت کو مسائل کا واحد حل سمجھتا ہے، جبکہ ایک طرف ایک ریاست ہے، ایک جغرافیہ ہے جو لہو لہو ہے، ایک ایسا پہلوان کہ جس کا اوپر کا دھڑ تو شاید آرنلڈ شیوازنیگر یا ہرکولیس جیسا ہے لیکن وہ ٹانگوں سے معذ ور ہے، وہ ویل چیئر پر خالی پیٹ بیٹھا ہے اور خالی نظروں سے ہمیں دیکھ رہا ہے وہ ایک قوم کا منتظر ہے کہ جو اسکو اپنا سکے جو اس کی مخلص ہو نہ کہ اپنے اپنے سیاسی لیڈر اور اسکے ذاتی مفادات سے لبریز ایجنڈے کی….جب یہ بات کی تو یہاں پھر جون ایلیا یاد آ گئے اور بات مکمل ہوگئی کہ جب انہوں نے کہا تھا
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اسُ عمارت کو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply