کڑوے بادام اور کراچی حلوہ۔۔عاصم کلیار

کیمپ ڈیوڈ کے بعد مصر پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کر کے عرب لیگ کے اتحاد کو ضرب پہنچائی انور السادات کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، بدلتے ہوۓ حالات کے پس منظر میں اسرائیل اور بھارت کے تعلقات کی وجہ سے مصر میں ہندوستانی سفارتکار کافی سرگرم عمل تھے اس ساری مہم میں مصر میں بھارتی سفارتخانے کے رکن پرابھو دیال کی کوششوں اور محنت سے ہندوستانی وزارت خارجہ بھی آگاہ تھی پرابھو کو یقین کی حد تک گمان تھا کہ اس کامیاب سفارتی مہم کے بعد اس کی اگلی پوسٹنگ یورپ یا امریکہ میں ہو گی۔
کچھ روز بعد چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ اسے ایک دوست نے تبادلے کا حکم نامہ تھماتے ہوۓ کہا پرابھو تمھارے تبادلہ کراچی میں ہندوستانی  قونصل خانے کر دیا گیا ہے پرابھو نے فیٹز جیرلڈ کا عمر خیام کی رباعی
The moving finger writes,and having writ
Moves on; nor all thy piety nor wit
Can lure it back to cancel half a line
Or all thy tears wash out a word of it.
کا انگریزی ترجمہ گنگناتے ہوۓ حکم نامہ وصول کیا ۔عمر خیام نے تو شاید moving finger کاتبِ تقدیر کو کہا تھا مگر پرابھو کی مراد ایس۔کے سنگھ سے تھی جو ہندوستان میں بیٹھا وزارت خارجہ سے تبادلوں کے حکم نامے جاری کرتا ،کراچی چارج سنبھالنے سے پہلے پرابھو نے مسٹر سنگھ سے دہلی میں ملاقات کی جو یورپ یا امریکہ جانے کے خواہش مند پرابھو دیال کی کراچی کے حلوے کے ذائقے کی دل لبھانے والی داستانوں سے تشفی کرتے رہے۔

مکران اور بلوچی ماہی گیروں کی بحیرہ عرب کے کنارے مائی کولاچی کے نام سے بسائی ہوئی بستی اب کراچی جیسے بے ہنگم شہر کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود ہے 1980 کے ابتدائی تین برس پرابھو کراچی میں حلوے کی تلاش میں بھلا کہاں سرگرداں رہتا کہ اس وقت جنرل ضیا کے پکاۓ ہوۓ حلوے پر تھوک کے حساب سے کڑوے اسلامی باداموں کی مہک نے پورے ملک کی لذتِ کام و دہن کو مفلوج کر رکھا تھا۔

سفارتخانہ اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد 1994 تک کراچی میں بھارتی قونصل خانہ 70 کلفٹن کے سامنے قائم رہا، قونصل خانے کے گیٹ پر تعینات سکیورٹی گارڈ سفارتی عملے کی حفاظت کی بجاۓ 70 کلفٹن میں آنے والے لوگوں کے نام اور گاڑیوں کے نمبر لکھنے میں مگن رہتے، قائد کی ذاتی مالکیت فلیگ ہاؤس اور سندھ کلب کی عمارتیں بھی قونصل خانے کے قریب تھیں ،1952 میں میر جعفر کے خاندان سے تعلق رکھنے والا سکندر مرزا پہلا پاکستانی باشندہ تھا جسے سندھ کلب کی رکنیت سے نوازا گیا، اس کے علاوہ سکندر مرزا کو پاکستان کا آخری گورنر جنرل اورپہلا صدر ہونے کا  اعزاز بھی  حاصل ہے۔

دہلی کے مشہور سینٹ اسٹیفن کالج سے فارغ التحصیل ضیا نے بھٹو کی زندگی کا چراغ گل کرنے کے بعد مسند تخت سنبھالا تو بھارتی اخبار نویسوں نے اسٹیفن کالج کے بارے چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا مسٹر چوپڑہ سے ضیا کی بابت دریافت کیا چوپڑہ نے جواب دیتے ہوۓ کہا ہاں وہ میرا شاگرد ضرور تھا۔
“But ordinary sort of fellow۔۔۔۔ in a somewhat dismissive manner”
ضیا تک جب چوپڑہ صاحب کی راۓ پہنچی تو اس نے اپنے استاد سمیت سینٹ اسٹیفن کالج کے طالبعلموں کے وفد کو سرکاری دورے پر پاکستان آنے کی دعوت دی پورے دورے کے دوران استاد کے سامنے ضیا نے خوشامد کو عاجزی کا روپ دیتے ہوۓ استاد کو اپنی راۓ بدلنے پر مجبور کر دیا، ہندوستان واپسی پر جب اخبار نویسوں نے پھر سے ضیا کے زمانہ طالبعلمی کے بارے دریافت کیا تو مسٹر چوپڑہ کا جواب تھا۔
“Brightest boy in the class”
خوشامد کے جال میں ضیا نے بھٹو سے ذہین اور جہاں دیدہ راہنما کو ایسے جکڑا کہ خود اقتدار سنبھال کر صاحب اقتدار کو تختہ دار تک پہنچا دیا۔ بعد میں نواز و مشرف کے سانپ سیڑھی کے کھیل میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ،سو ثابت ہوا کہ تاریخ سے سبق سیکھنا نہ سہل ہے  اور نہ ہی ہر کسی کے بس کی بات ہے۔

اسلام کی اوٹ میں ضیا نے کالے قوانین کو دستور کا حصہ بنانے کے علاوہ فوج کو صنعت کا درجہ دیا، سو اب ہر شہر میں ایک شہر ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام سے ہے، سی۔ایس۔ڈی نام کی پرچون کی دوکان فوجی فانڈیشن کے نام سے ادارہ اپنے عروج پر ہے ۔اس ضمن میں پرابھو جی نے ساری صورتحال کو لطیفے کی صورت پیش کیا ہے مختلف ملکوں کے جنرل راکٹ پر بیٹھ کر خلا میں گۓ سب دوربین سے زمین کو دیکھتے ہوۓ اپنی ملکی سلامتی اور ترقی کے بارے  راۓ دیتے رہے ہندوستانی جرنیل نے کہا۔
“He was looking at the borders of China and Pakistan to see their deployments,”
پاکستانی جرنیل نے دوربین سے زمین کو دیکھتے ہوۓ فرمانے لگے۔
“I am trying to see which corner plots are available in Lahore’s defence housing society”
ضیا ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد نوے دن کے اندر انتخابات کے یقینی وعہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لۓ کئی سال تک جھوٹ در جھوٹ کے سہارے ٹالتا رہا مگر اس معاملے میں اس کے اندر پروان چڑھنے والے خوف اور ذہنی کشمکش کی کفیت کو بھی پرابھو دیال نے کمال خوبصورتی کے ساتھ ایک لطیفے کی صورت پیش کیا ہے۔
“Zia’s barber would come to shave him every morning. While shaving the barber would ask him, “Sir, when are you going to hold the elections?
Zia would just parry the question and reply’ after some time.
One day Zia got irritated with the barber for asking him the same question about every day. You are just a barber not a politician he said rudely. Why do you keep asking when I will hold the elections?
To this the barber replied coolly: Sir I am not
really concerned about this matter – but whenever I mention the word election your hair stands up and I find easier to give you a shave.”

عہدِ ضیا میں بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار صاحب بہادر امریکہ بھی پاکستان میں ہونے والی بنیادی خلاف ورزیوں پر روس افغان جنگ کی وجہ چشم پوشی کرتا رہا، پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر مجاہدین کو تیار کیا جو بعد میں خودکش حملہ آور ثابت ہوۓ، امریکہ پاک اتحاد کے تحت پاکستان ایٹمی پروگرام کو بھی آگے بڑھاتا رہا جب دیگر ممالک نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے تشویش کا اظہار کیا تو CID کا ڈپٹی سربراہ ضیا سے ملاقات کے لۓ پاکستان پہنچا ،اس کے دریافت کرنے پر کہ کیا پاکستان نے جوہری صلاحیت دوسرے ممالک کو بھی منتقل کی ہے ؟ضیا نے اس بارے اپنی مکمل لا علمی کا اظہار کیا مسٹر والٹر نے ضیا سے اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوۓ سفارتی کیبل میں لکھا۔
“Either he really does not know, or he is the most superb and patriotic liar I have ever met”

ریفرنڈم کے ہوشربا تماشے کے بعد غیر معروف سندھی سیاست دان محمد خان جونیجو وزیراعظم کے رتبے پر فائز ہوۓ، ملک میں مُلا راج قائم ہو چکا تھا سکولوں کی جگہ مدرسے تعمیر ہونے لگے گلی محلے سے ٹی-وی اسکرین تک مولانا حضرات داڑھیوں میں انگلیاں لہرانے لگے، فلم پر سنسر بورڈ نے اسلام کا پہرہ لگا رکھا تھا، پاکستانی فنکار ہندوستان جا کر فن کا  مظاہرہ کرتے، سلمی آغا ،محسن خان،ریشماں اور غلام علی کو انہی برسوں میں ہندوستان میں کام کرنے کی نسبت سے دوسرے ممالک میں رہنے والے ہندی فلموں کے شائقین تک رسائی ملی۔ ہندوستانی فلموں کی پاکستانی سینما ہالوں میں  نمائش پر مکمل پابندی لگا دی گئی، مگر براستہ دبئی بھارتی فلمیں ہندوستان میں ریلیز ہونے سے پہلے پاکستان پہنچ جاتیں، سو ملک میں زرمبادلہ کی بجاۓ بیرون ملک سے پاکستانی وطن واپسی پر وی۔سی۔آر ساتھ لاتے، افکار تازہ کو نمود بخشنے کی بجاۓ نصاب کی کتابوں میں ہندوستان کے خلاف نفرت اجاگر کی جانے لگی ،مسئلہ  کشمیر کے بارے اقوام متحدہ کی راۓ کو نظر انداز کرتے ہوۓ پاکستان میں اپنا موقف تشکیل دیا جانے لگا ،مجاہدین مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے دھماکوں میں کسی طور ملوث ہوتے ،سقوط ڈھاکہ سے کچھ سیکھنے کی بجاۓ ہندوستان میں انتشار پیدا کرنا دماغی سطح پر ملکی خارجہ پالیسی کا حصہ قرار پایا۔

اس دوران ضیا نے مرار جی ڈیسائی سے رابطہ کیا اور گاؤ ماتا کی  موت کے بارے ان سے فون پر گفتگو فرماتے اندرا گاندھی سے نفرت ،ضیا اور ڈیسائی کا مشترکہ وصف تھا ۔مرار جی نے ہی ضیا کو بتایا کہ کہوٹہ ایٹمی پروگرام کے بارے ہندوستان کے پاس سب معلومات ہیں ۔را کے پاکستان میں نیٹ ورک کو بھی اگر مرار جی کی فراہم کردہ معلومات کے بعد توڑا گیا ہو تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوۓ ضیا نے مرار جی ڈیسائی کو نشان ِِ پاکستان دینے کا فیصلہ کیا ،اس سے قبل کہ مرار جی پاکستان ایوارڈ لینے آتے ضیا طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوا ۔بے نظیر نے منصب اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ ایوراڈ دینے سے ہی انکار کر دیا ۔1990 میں نواز شریف کے عہد حکومت میں مرار جی کو یہ ایوارڈ ان کے گھر ایک تقریب میں دیا گیا اس وقت وہ ضیف ہونے کے سبب پاکستان کا سفر کرنے سے معذور تھے۔

ضیا الحق کی آم اور کرکٹ ڈپلومیسی خاصے کی شئے  تھی، 1965 کی جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کا میچ 14 سال بعد ہوا ،کراچی میں مقیم بھارتی سفارتی عملے کو بغیر اجازت کے شہر چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی، پرابھو جی کی پاکستان تعیناتی کے دوران انہوں نے 1984 میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی آمد پر ملتان اور کوئٹہ میں میچ ہونے کی وجہ سے یہ شہر دیکھے، پاکستان اور ہندوستان کے عوام نے کھیل کے میدان کو بھی کارزار میں بدل دیا۔ میچ کے دوران کھیل سے لطف لینے کی بجاۓ یہ ہار اور جیت کو اسلام و کفار کی جنگ میں بدل دیتے ہیں ،پرابھو جی کے بقول ہندوستانی ٹیم کی آمد پر پاکستان کے امپائر کبھی بھی نیوٹرل نہیں رہتے 1987 میں ہندوستان میں ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کے پہلے کپتان اور کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رہنے والے عبدالحفیظ کاردار بطور کمنٹیٹر ٹیم کے ساتھ گۓ بنگلور میچ میں پاکستانی فتح کے بعد وہ جوش جذبات میں فرمانے لگے۔
“We have beaten the Hindus in their own land, we have conquered the Hindus”
جبکہ اس میچ میں کھیلنے والی ہندوستانی ٹیم میں کئی مسلمان کھلاڑیوں کے علاوہ دیگر مذہب سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی بھی شامل تھے ہندوستان کی پہلی بار ورلڈ کپ میں کامیابی کے علاوہ پاکستان کے خلاف شارجہ اور چیمپین شپ میں جیت کو بنیاد بنا کر پرابھو دیال نے کچھ غیر سفارتی زبان استعمال کی ہے جبکہ سفارتکار تو ایک لفظ بھی ادا کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔
“To rub salt in the wounds of the Pakistanis, the winning team was adjudged by Wisden (the bible of cricket) as Indian’s team of the century”
جنرل ضیا کے انتقال کے حوالے سے بھی پرابھو جی نے دوسرے لوگوں کے چبھتے ہوۓ فقروں کا اپنی کتاب میں حوالہ دیا ہے۔
“President Zia—may be rat in pieces”
“The crowd was enormous but the coffin was almost empty”
کسی بھی مرنے والے کے لۓ ایسے جملوں کا حوالہ دینا سلجھے ہوۓ سفارتکار کو زیب نہیں دیتا۔

اندرا گاندھی کے قتل کی وجہ سے ہندوستانی کرکٹ ٹیم 1984 میں دورہ مکمل کیۓ بغیر ہی وطن روانہ ہوئی ضیا بھی اندرا گاندھی کی آخری رسومات میں شرکت کے لۓ ہندوستان پہنچا ۔پاکستانی وفد کے علاوہ بھی کئی ممالک کے وفود اشوکا ہوٹل میں قیام پذیر تھے لفٹ کا انتظار کرنے کی بجاۓ ضیا سڑھیوں کی طرف بڑھا، وفد کے ایک رکن نے کہا محترم صدر آپ کا کمرہ اوپر ہے، کچھ لمحے لفٹ کا انتظار کر لیتے ہیں، ضیا نے جواب دیا کہ آج تو ہم پانچ منزلیں بھی چڑھ لیں گے۔ آپریشن بلیو سٹار کے بعد نواۓ وقت نے سرخی لگائی کہ اندرا گاندھی 1985 کا سورج نہ دیکھ پاۓ گی ،اندرا کے قتل کے بعد اس خبر کو بنیاد بنا کر ہندوستان میں کئی چہ مگوئیاں کی گئیں۔

خالصتان تحریک کے دوران پاکستان نے کینیڈا میں مقیم سکھوں کے ذریعے اس تحریک کی ہر ممکنہ مدد کی ،پرابھو جی اس کتاب میں لکھتے ہیں اسی دوران سفارتکاروں پر حملوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ،دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی سرگرمیوں میں پاکستان نے ہمیشہ کئی پیچیدگیاں پیدا کیں،جبکہ واہگہ کے راستے افغانستان جانے والا ہندوستانی سامان آپ کو پورے پاکستان میں آسانی سے دستیاب ہو گا۔ مہاجرین کی تعداد چونکہ کراچی میں زیادہ ہے ہندوستان میں رہنے والے ان کے خاندان کے افراد کو براستہ واہگہ سے کراچی پہنچنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ،ہندوستان کی جانب سے طویل کوششوں کے بعد پاکستان نے کھوکھرا پار روٹ پر ٹرین چلائی۔

ایک بار پرابھو نے کسی سابق سفارتکار سے دریافت کیا کہ آپ ہندوستانی مسلمانوں کو بھی مشکل سے ویزے دیتے ہیں سفارتکار نے اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوۓ کہا وہ پاکستان آ نے کے بعد ہندوستان جاتے ہی نہیں، پاکستان کا عمل تو اس مقصد کے تحت تھا کہ یہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کا ملک ہو گا۔ پرابھو کے اس جواب پر سفارتکار نے خاموشی کے وقفے کے بعد کہا مسئلہ  کشمیر کے حل تک ہم آپ کی کوئی بات سننے کے لۓ تیار ہی نہیں۔

پرابھو جی کے بقول ہندوستان  میں پاکستانی سفارتی عملے کے بیشتر ارکان کا تعلق آئی۔ایس۔آئی سے ہوتا ہے سو پاکستان میں مقیم ہندوستانی  سفارتکاروں کے نہ صرف فون ٹیپ ہوتے ہیں بلکہ کچھ ساۓ بھی ہر وقت ان کے ساتھ چلتے رہتے ہیں سو بہت سے پاکستانی ذاتی سطح پر ہندوستانی سفارتخانے کے عملے سے دوستی کرنے سے گریزاں رہتے ہیں، ساتھ چلتے ہوۓ ساۓ بعض اوقات مدد کرنے کی جسارت بھی کر لیتے ہیں۔

پرابھو جی نے اس کتاب میں کراچی کے قیام کے دوران اپنی سرگرمیوں اور یاداشتوں کا کہیں بھی ذکر نہیں  کیا،بلکہ پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ کو طنز کے پیراۓ میں عمدہ انگریزی میں بیان کیا ہے اگر ہندوستان میں ملازمت کے دوران رہنے والے ہمارے کسی بھی سفارتکار نے ایسی کتاب کوئی لکھی ہے تو مجھے اس کی خبر نہیں۔ ہندوستان جس ڈگر پر اب اخلاقیات اور انسانیت کو روندتا ہوا تیزی سے چل رہا ہے یہ راستہ مہان بھارت کے تاریک مستقبل کی منزل تک کچھ ایسا طویل بھی نہیں، وقت سے بہت پہلے ہندوستان کے حالات کو بھانپتے ہوۓ میرے ملک کی شاعرہ نے کہا تھا۔

؀قائم ہندو راج کرو گے
سارے الٹے کاج کروگے
اپنا چمن تاراج کرو گے
۔۔۔۔۔
تم بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار توہارے
ارے بدھائی بہت بدھائی

پرابھو جی کراچی کا من پسند حلوہ کھاۓ بغیر بسلسلہ ملازمت 1985 میں پاکستان سے کہیں اور روانہ ہوۓ۔ اب تین دہائیوں کے بعد ستلیج سے پانی کے بہاؤ کے علاوہ سرحد کے دونوں اور کافی خون بھی بہہ چکا ہے ہمیں اچھے پڑوسیوں کی طرح ایک دوسرے کو کشادہ دلی کے ساتھ برداشت کرنے کی ضرورت ہے ۔حالیہ برسوں میں ہندوستان نے مہان بھارت کا خواب دیکھتے ہوۓ جس تیز رفتاری سے الٹا چلتے ہوۓ غیر ہندو شہریوں سے جو سلوک روا رکھا وہ خود ہندوستان کی سالمیت کے لۓ خطرہ ہے ۔مذہبی جنونی وہاں بھی خون کے پیاسے ہیں وہ روز جھوٹ کو بنیاد بنا کر جو تماشا برپا کرتے ہیں اس پر پوری دنیا سیکولر بھارت پر لعن طعن کرتی ہے۔ دونوں ملک کے پاس ایٹم بم بھی ہے اور دونوں طرف شدت پسندوں کی بھی کچھ ایسی کمی نہیں سو ہر سوچنے والا ایک خوف سے دلگیر رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انتظار حسین نے ایک جگہ لکھا ہے۔
“مجھے اپنی نانی اماں یاد آ رہی ہیں ۔۔۔کسی رات یوں ہوتا کہ کہانی موقوف چودھویں صدی کا قصہ چھیڑ دیتیں ،بتانے لگیں کہ اس کمبخت صدی میں کیا کچھ ہو گا آدمی آدمی کو کھاۓ گا،گاۓ گوبر کھاۓ گی،کنواری بر مانگے گی اور عجب بات ہے کہ میری نانی اماں نے چودھویں صدی کے بارے جو بتایا تھا وہی مہا بھارت میں کلجگ کے ذیل میں بتایا گیا ہے۔ پتہ نہیں یہ چودھویں صدی ہے یا کلجگ ہے زمانہ بہرحال کالا پڑتا جا رہا اور سر پر ایک تلوار لٹک رہی ہے بلکہ محاورے کو چھوڑو اور کہو کہ سروں پر ایٹم بم گرج رہا ہے، جانے کب کس مورکھ کی کل اینٹھ جاۓ اور یہ دھم سے ہم پہ پھٹ پڑے القارعتہ مالقارعتہ اور تمھیں کچھ خبر بھی ہے کہ یہ دھماکہ ہے کیسا تصور کرو اس دن کا جب آدمی ایسے ہو جائیں گے جیسے پتنگے بکھرے پڑے ہوں اور پہاڑوں کی یہ صورت ہو جاۓ گی جیسے دھنکی ہوئی روئی۔۔ کمبخت زمانہ تو کالا پڑتا ہی چلا جا رہا ہے سفیدی تو بس مرغی کے انڈے جتنی باقی رہ گئی ہے”
عبرت سراۓ دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اور اس عبرت سراۓ دہر میں
ہم سب مورکھ ہیں
اور مورکھ بھی وہ جن کے پاس ایٹم بم ہے
سو خوف کی انگلی تھامے ہر وقت دعا کرتے رہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply