• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • افغانستان میں حالیہ تبدیلیاں اور دین کی دعوت۔۔سلمان احمد شیخ

افغانستان میں حالیہ تبدیلیاں اور دین کی دعوت۔۔سلمان احمد شیخ

اقوام متحدہ نےافغانستان میں امداد کی اپیل کی ہے۔ یہ اچھی بات ہےکہ عبوری حکومت کے بارے میں تحفظات کے باوجود انہوں نے ایسا کیا۔ یہ امداد غیر مسلم ممالک سے ہی زیادہ آنے کی امید ہے۔  ہم لوگ اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ ہم   امداد کے لیے  کتنے تیار ہیں۔؟

ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نامی تنظیم سے وابستہ غیر ملکی عملہ امداد میں مصروف ہے۔ آخرت پر بظاہر یقین رکھنے والے تو اکثر لوگ سماجی ذمہ داریوں سے بھاگ رہے ہیں۔ یہ لوگ کس سوچ کے ساتھ پُر خطر علاقوں میں امداد  کرتے ہیں۔ ہمارا تو اپنے شہر سے باہر بھی ٹرانسفر ہوجاۓ تو ہم اس پر نوحہ کرتے ہیں۔ ہم سطحی طور پر سوچتے ہوۓ امریکہ کے انخلا ء پر جشن تو منارہے ہیں, مگر اپنے بارے میں حقائق نظر اندازکردیتے ہیں۔ امریکہ کے روا رکھے  گئےظلم سے ہمیں اپنی کمزوریوں پر بھی بغیر تدبر اور اصلاح کے پردہ نہیں ڈالنا چاہیے۔

مسلم افغان فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمان جو حکومت میں شامل تھے, بین الاقوامی امداد کولوٹتے رہے۔ ان کی کرپشن یہ بات تو ثابت کرتی ہے کہ نیٹو افواج نے انتخابات کراکر وسائل ان مسلمان افسران اورعہدیداروں کے تصرف میں دیے, تبھی تو انہوں نے کرپشن کی۔

ہوسکتا ہے کوئی یہ کہےکہ وہ دراصل مسلمان ہی ٹھیک نہیں تھے ،یا مسلمان ہی نہیں تھے۔ اصل مسلمان تو طالبان ہیں۔ طالبان اس دوران افیم کی تجارت کرتے رہے اور ملکی وسائل جس حدتک ان کے قبضہ میں آتے رہے اس سے اپنی بقاء جاری رکھی۔ انہوں نے اس ہدف میں کامیابی تو حاصل کی کہ افغان حکومت اور نیٹو افواج کے ناک میں دم کردیں, مگر اس کی قیمت اتنی ایڈ کے باوجود بھی ملک کا پسماندہ رہ جاناہمارے نزدیک المیہ کیا بلکہ باعث افسوس بھی نہیں۔

اسمگلنگ اور منشیات کی فروخت پر ہماری کوئی اخلاقی حس نہیں جاگتی۔ اپنے دشمنوں کو نہیں مارا, صرف حکومت پر قبضہ کیا, یہ ہی قابل ِ داد رویہ ٹھہرا۔ اگر امریکہ جیسی فوجی طاقت طالبان کے پاس ہوتی تو کیا وہ مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرتے یااپنے آپ کو روکے رکھتے۔ فدائی حملوں کی جو حالیہ تاریخ رہی ہے, اس کو دیکھتے ہوۓ ذہن میں اس کا سادہ جواب نہیں۔

کوئی شک نہیں کہ گوانتاناموبےجیل میں امریکی فوجیوں کی جانب سے زیادتی بھی ہوئی اور اس پر تحقیق اور تفتیش بھی۔ ہیومن رائٹس کمیشن, ایمنسٹی انٹرنیشنل اور کئی ممالک نے بھی باضابطہ طور پر اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ چنانچہ ملا ضعیف صاحب کی روداد سے اس جیل میں برتے گئے  ناجائز رویے امریکہ کی پوری قوم پر ثبت نہیں کیے جاسکتے۔ چالیس لاکھ مسلمان بھی وہاں رہتے ہیں۔ ہر شہر میں مساجد اور اسلامک سینٹرز ہیں۔ اسلامک اسکولز ہیں۔ ماضی اور حال کےکئی نامور علما  ہیں۔ وہیں علاج کرانے بھی جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں۔ مولانا مودودی صاحب بھی اپنے آخری دنوں وہیں مقیم تھے۔ یہاں تک کہ بغیر کسی روک ٹوک کے تبلیغی جماعتیں بھی جاتی ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کو براہ ِ راست سن کر پتہ چلا کہ بائیڈن پر تنقید اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ انہوں نےکیوں نہیں ڈرون اور ائیر فورس کو استعمال کرکے مزاحمت کوکچل دیا۔ ان کے میڈیا کی ساری توجہ اس پر تھی کہ اگر مسلمان افغان فوج ان لوگوں کا تحفظ نہیں کرسکی جو ایک پُر امن مستقبل چاہتے ہیں تو کیوں امریکہ نے بھی انہیں چھوڑدیا۔ اسی دباؤ میں امریکہ نے سوا لاکھ افغانیوں کومنتقل کیا۔ دوسری تنقید یہ تھی کہ جب یہ نہیں کہہ  سکتے کہ کوئی ایک بھی امریکی باشندہ افغانستان میں باقی نہیں بچا تو پھر رہ جانے والوں کو واپس لانے سے پہلے کیوں انخلا کیا۔ پینٹاگون والے بتاتے رہے کہ ایسے امریکی دو سو سے زیادہ نہیں ہوں گے اور ان کو واپس لانےکیلئے کوششیں جاری رہیں گی۔

دوڈھائی ہزار امریکی اگر بیس سال میں مرے تواتنے تومشقوں میں ہی مرجاتے ہیں یا طبعی موت مرجاتے ہیں۔ عیسائی اکثریتی ملک سے تو جان چھوٹی اور اس کا مستقل اور طویل قبضہ تھا بھی غلط, مگر اب امداد کے لیے لامذہبی روس و چین کی طرف دیکھنے میں بھی کوئی قابل ِ فخر بات نہیں۔

آنے والے دنوں میں زیادہ نظریں اس پر مرکوز رہیں گی کہ وسیع البنیاد حکومت اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ ان میں سے  پہلی بات پر سواۓ طالبان اور ان کے حامیوں کے کوئی بھی مطمئن نہیں ہوسکا۔ خاص اپنے فکر اور مذہبی فہم کو ہی اسلام کی واحد تعبیر سمجھ کرنافذکیاجاتا ہے یا نہیں, اس کے بارے میں بھی لوگوں کو تحفظات ہیں۔

غلامی کے خاتمہ, پُر امن انتقال اقتدار کے ذرائع و وسائل اور عورتوں کے حقوق سے لے کر سائنس کی ایجادات میں بھی ہم مسلمانوں نے حالیہ صدیوں میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا۔ اب اپنے آپ ہی کوصحیح ثابت کرنے میں ہم نے دین کے پیغام اوراصل بنیاد کوہی پس ِ پشت ڈال دیا ہے اور اسے دھندلانے لگے ہیں۔

دین کی بنیاد توحیداور آخرت میں جواب دہی ہے۔ پورا قرآن بار بار اسی کی منادی کرتا ہے۔ مگر ہم کتنا اسے پڑھتے ہیں۔ خدا کے احکام سے آگے بڑھ کر خود سے منشاء خدا طے کرکے دین نافذ کرنا اور خدا کے نام پرہی لوگوں کا حساب لینا دین کی اس بنیادہی سے تجاوز ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الحاد کے لیے علم, سائنس, کلامی مباحث اورسائنس میں کوئی جگہ نہیں بچی۔ اللہ نے آفاق و انفس میں جو نشانیاں دکھانے کاوعدہ کیا تھا وہ اس نے غیر مسلموں کی علمی کاوشوں سے ہی پورا کردیا۔ غیر ارادی طور پر غیر مسلم ہی توحید کے لیے موثر دلائل و آثار کا باعث بن گئے ۔ مگر افسوس کہ مسلمان ارادی یا غیر ارادی طور پر اپنے طرزِ  فکر و عمل سے لوگوں کے لیے دین سے دوری کا باعث بن رہے ہیں۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔ آمین!

Facebook Comments

سلمان احمد شیخ
سلمان احمد شیخ تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں- ملیشیا سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں- دینیات, سائنس اور سماجیات میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں- کئی مقالوں کے مصنف اور دوکتابیں لکھ چکے ہیں- ان کا تحقیقی کام ان کے ریسرچ گیٹ کی پروفائل پر دیکھا جاسکتا ہے۔- ایک ماہنامہ ریسرچ بلیٹن کے مدیر ہیں جو اسلامک اکنامکس پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply