جنت کا شارٹ کٹ

جنت کا شارٹ کٹ
ثاقب ملک
کبھی کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ جملہ دل میں کھب سا جاتا ہے کہ” کاش میں انسان پیدا ہی نہ ہوتا، میں کسی لکڑی کا تنا ہی ہوتا یہ امتحان تو نہ بھگتنا پڑتا. ” ( مفہوم).آخرت میں سرخرو ہونے کے اس امتحان میں کامیابی کے لئے ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں. مردان کے المناک واقعے کے بعد مجھے لگتا ہے ہم جنت حاصل کرنے کے لئے جہنمی بنتے جا رہے ہیں.

خدانخواستہ اگر میرے کسی دوست یا قریبی کے ساتھ ایسا سانحہ رونما ہوتا تو میں یقیناً ان سینکڑوں جنت کے متلاشیوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت کی اور سیرت کی توہین کرنے والوں کو چن چن کر قتل کرتا. میری نفرت شاید اتنی توانا ہوجاتی کہ میں مذہب بیزار ہوجاتا. مجھے اس ملک اس معاشرے سے گھن آتی اور میں پوری زندگی بمع اپنے خاندان کے ایک اذیت میں زندگی گزارتا.ان تمام ممکنہ باتوں کا پورے معاشرے پر اثر ہوتا. یہ رویہ شاید اکثریت کا ہو. جن جنونیوں نے یہ حرکت کی اور جو انکی فکری حمایت کرتے ہیں انھیں اگر عقل و فہم سے واسطہ ہے تو خدا سے توبہ کرتے ہوئے اپنی مکمل فکر سے رجوع کرنا چاہیے.

مشال خان نے توہین رسالت کی یا نہیں کی اسے قتل کرنے کا اور لاش کی بے حرمتی کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے. تمام ملوث افراد کو پھانسی کی سزا ہونی چاہئے. تمام وہ لوگ جو بزدل بکریوں کی طرح کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے رہے وہ یاد رکھیں کہ وہ ایک دن اللہ تعالٰی کو جواب دہ ہونگے. ممکن ہے اسی دنیا میں کبھی انکو اپنی ایمان کی کمزوری کا خمیازہ بھگتنا پڑے.

مردان کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہوگا.

توہین رسالت پر ہمارا رویہ یہ بن چکا ہے کہ ہم عشق رسول اللہ کے نام مرنے مارنے اور اس میں حصہ لینے کو جنت کے حصول کا شارٹ کٹ سمجھ کر پورے ایمانی جوش و جذبے کے ساتھ سچ جھوٹ کی پرواہ کئے بغیر کود پڑتے ہیں. شارٹ کٹ اور جلدی جلدی بہت کچھ حاصل کرنے کا مرض اس معاشرے میں دولت، اختیار اور مذہب غرض ہر اہم شعبے میں موجود ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے لوگ حقیقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عشق کرتے ہیں اور انکی والہانہ محبت پر انگلی اٹھانا مقصود نہیں لیکن پچھلے تیس برسوں کے حالات و واقعات گواہ ہیں کہ ہم اکثریت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صرف لفظی اور رونے دھونے والا عشق کرتے ہیں. یہ صرف ہماری نفسی تسکین پر مبنی رویہ ہے.

کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری زندگیوں میں اللہ کی راہ پر مستقل چلنے والی صلاحیت مفقود ہے تو ہم توہین رسالت کے نام پر کسی کو گالی دیکر کسی کو مار کر کسی کو مارنے کے عمل کا حصہ بن کر اپنے تئیں اپنے گناہ دھلوا کر بخشش کا راستہ بنا رہے ہوتے ہیں. یہ ہماری غالب مذہبی ذہنیت کا المیہ ہے. ہم پوری عمر حرام کھا کر مسجدوں میں چندہ دیکر، حج کرکے اور کروا کر بھی اپنی لاشعوری برائی کو چھپانا چاہتے ہیں. حالانکہ اللہ نے ایک ایک لفظ، ایک ایک حرکت، ایک ایک روپے، ایک ایک قدم کا حساب لینا ہے. وہ ہر چیز پر قادر ہے. اسکی رحمت کو اپنے مکروہ مکر و فریب سے بدنام نہ کریں. یہ ٹھیک ہے کہ ایک اچھا کام دوسرے گناہ کو دھو سکتا ہے مگر یہ چھوٹے چھوٹے ذاتی اعمال تک ہی محدود عمل ہے اسکو پوری زندگی میں کئے گئے حقوق العباد اور حقوق اللہ کی روگردانی پر مبنی اعمال پر لاگو نہیں کیا جاسکتا. آپ کسی ماں کے معصوم بے گناہ بچے کو مار کر چاہے پوری عمر حج کریں یا عشق رسول اللہ کے نام پر روئیں دھوئیں اس بے گناہ کے خون کے چھینٹے آخرت میں آپکے بدن سے ٹپک رہے ہونگے.

دوسری جانب جب ایسے واقعات میں ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے تو اسکی ایک الگ نفسیات ہے. ہمارے صدیوں سے محکوم لوگوں کے لئے یہ ایک طاقت کا ذریعہ بن جاتا ہے. لوگ اپنے غصے اور نفرت کا اظہار کھلم کھلا کر سکتے ہیں. وہ اپنی دانست میں مجرم کو فوری سزا دے سکتے ہیں. ہجوم میں کوئی ایک ذمہ دار نہیں محسوس ہوتا اس لئے وہ اجتماعی طاقت کا احساس کمزور لوگوں کو ہجوم کا ساتھی بنائے رکھتا ہے. ہمارے لعنتی حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ عین ممکن ہے کہ مشال جیسے بے گناہ کے بجائے کبھی انکی گناہ گار گردنیں سامنے لٹک رہی ہونگی. جو آج ہجوم کا حصہ بن کر سزا دے رہا ہے وہ کل قصور وار بن کر وہی لاش بن سکتا ہے جسے وہ کل ٹھڈے مار رہا تھا.

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر حضور اکرم کے گیسو و رخسار کی تعریفیں، چہرے مہرے پر لمبے لمبے خطاب انکی مصیبتوں پر رونا دھونا ہی عشق ہوتا اگر یہی نجات ہوتی تو اللہ کسی اور چیز کا حکم نہ دیتا. صحابہ کرام اور اہل بیت حق سچ اور انصاف کے لئے اپنی جانوں سے نہ جاتے. یہ جنت حاصل کرنا بچوں کا کھیل تو نہیں. اللہ کی قربت شیطان کی گود میں بیٹھ کر حاصل نہیں کی جا سکتی. شیطان کی تین اہم خصوصیات ہیں کہ وہ شک کرتا ہے اور وہم پیدا کرتا ہے، وہ مبالغہ اور اسراف کرتا ہے اور اس جانب مائل کرتا ہے، وہ دروغ گو اور جھوٹا ہے اور دوسروں کو اکساتا ہے. بس اپنے اردگرد اپنے سفید، سبز، کالے پیلے عماموں کے تعصب سے باہر نکل کر اپنے اپنے گریبان میں جھانک لیں. شیطان کی راہ پر نہ جنت یے نہ عشق نبی کریم بلکہ صرف دھوکہ ہے.

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply