• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اعجاز احمد: مارکسی نظریہ دان، سیاسی مبصر اور استاد۔۔ احمد سہیل

اعجاز احمد: مارکسی نظریہ دان، سیاسی مبصر اور استاد۔۔ احمد سہیل

اعجاز احمد بھارت میں مقیم ایک معروف مارکسی ادبی نظریہ ساز اور سیاسی مبصر ہیں۔اتر پردیش میں پیدا ہوئے، ان کا خاندان تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگیا۔ یہاں سے اپنی تعلیم کے بعد   امریکہ اور کینیڈا میں مختلف یونیورسٹیوں میں کام ،تربیت اور تحقیق میں مصروف رہے. اس وقت اعجاز احمد عصری مطالعوں کے مرکز، نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری، نئی دہلی میں پرادیاپکیی فیلو اور یارک یونیورسٹی ٹورنٹو میں سیاسیات کے وزٹنگ پروفیسر ہیں۔  وہ بھارتی نیوز میگزین” فرنٹ ” کے ساتھ ایک ادارتی مشیر کے طور پر اور بھارتی ویب سائٹ Newsclick  کے لئے ایک سینئر نیوز تجزیہ کار کے طور پر کام کرر ہے ہیں۔ ان کا زیادہ تر قیام بھارت میں رہتا  ہے۔

اپنی کتاب میں “نظریہ: طبقات، متحدہ، ادب، ” میں اعجاز احمد نے سامراج کے خلاف تحریک میں اصول اور نظریہ کے کردار   پر فکری بحث کی۔ مابعد جدیدیت اور مادی تاریخ، تصورات کو برقرار رکھنے والوں کے خلاف اعجاز احمد کا کہنا  ہے  کہ اس میں مابعد نوآبادیات دلیل پر بہت کم بات کی گئی  ہے یہ حقیقت ہے کہ یہ اسی کے ارد گرد گھومتی ہے. کتاب ہونا ظاہر ہوتا ہے جس میں تیسری دنیا بقول اعجاز احمد جیمسن کی دلیل ا ور اصطلاحات کے اس کے استعمال میں نظریہ ہے اس کی بنیاد پر جیمسن پر شدید تنقید کی۔جہاں “کثیر القومی سرمایہ دارانہ نظام کے دور میں تیسری عالمی ادب میں فریڈرک جیمسن کی دلیل جو ایک خاص طور  پر مناظراتی تنقید پر مشتمل ہے نو آبادیاتی نظام کے اس تجربے کے لحاظ سے اپنی خالصتاً  وضاحت اور تشریح پیش کردیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں تمام “تیسری  عالمی دینا   کا ادب جیمسن کے مطابق عالمی مابعدجدیدیت کے نظام کے خلاف مزاحمت کے طور پر کام کرتا ہے کہ ایک قومی نظریے  کے طور پر کام کرے گا ۔

ان کا خیال  ہے  کہ جلدبازی اور نا معقول روئیے کے سبب اس نظریے  کو پیچیدہ راہوں میں الجھا دیتے ہیں . ا عجاز احمد نے تیسری دنیا پر مضمون میں لکھا  ہے  کہ مارکسزم صرف جیمسن کا مسئلہ ہے یہ ہی اس کا سیاق ہے ۔جبکہ اپنی کتاب میں اعجاز احمد نے جیمسن کی اس مارکسزم کی انتقادات پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا  ہے کہ علماء کرام پس نو آبادیاتی نظریہ کیا ہے یہ اظہار کافی میںسخت کتاب  ہے۔اعجاز احمد جس کی یہ دلیل ایڈورڈ سعید کی استشراق کی ایک طویل تنقید اس مغربی ثقافت میں نمائندگی کر رہی ہے جس میں اس خیال کو برقرار رکھا گیا  ہے اور وہ ان استشراق کے لئے تنقید کر رہے ہیں کہ نئی بستیاں/ canonized کیا ہیں؟

دوسری جنگ عظیم کے بعد قوم پرستی لاطینی امریکہ اوقیانوسی دائرے {پیسیفک رم} برصغیر اور افریقہ میں مغربی قسم کی مغربی سامراج کے خلاف مزاحمت کی تحریکیں انہی  بونڈنگ کانفرس کے بعد ناوابستہ تحریک کی ابتد ہوئی جو یورپ کی سابقہ نو آبادیات کے ردعمل کے طور پر ابھری اور تین/۳ دیناوں کا  تصور پیش کیا گیا۔ جس میں پہلی دنیا سرمایہ درانہ ممالک، دوسری دنیا   سوشلسٹ ممالک، اور تیسری دنیا  افریقی ، ایشیا  اور لاطینی امریکہ کے ممالک  کے خیموں میں بٹ گئی۔

اعجاز احمد کا خیال ہے “تیسری دنیا” میں نو آبادیاتی مخاطبہ میڑوپولیٹن دانشوروں کی مباحث کا حصہ بنا۔ ان کا کہنا ہے ” اسٹالین کے عروج کے زمانے میں مارکسی نظریات اور اس کے طرز فکر عمل کو پاش پاش کیا۔ تو ادھر پچاس/۵۰ کی دہائی میں امریکہ میں میکارتی ازم نے مارکسزم شکن تحریک چلائی۔ جس میں امریکہ مارکسزم کےنظریات کی ایک توانا فکری روایت موجود ہے۔ ۔ اس انٹرپرائز کے تین/۳ اجزٰا ہوتے ہیں۔
۱۔ کلاسیکی مارکسزم سرمایہ دارنہ نظام کی ایک عرصے میں تکمیل ہوئی۔
۲۔ امریکہ کی معیشت اور طبقاتی ساخت میں محنت کشوں کا تجزیہ تھا۔
۳۔ نو آبادیاتی نظریات اصل میں  سامراجی جنگوں اور سامراج شکن مزاحمت اور محیط ارض کی یسیاریت پسند تعبیرات سے متعلق تھا۔

مغرب  کا یہ انتخاب ایک کمزور اشارہ ہے  ۔بہت لبرل انسانی روایت اعادہ مشتمل ان لوگوں کو بہت نصوص کے ذریعے اس کی تکمیل کرتے ہیں۔ مزید برآں اعجاز احمد نے یہ پتہ چلایا  ہے۔ مستشرق اس استشراق نوآبادیاتی نظام کی مصنوعات ہیں کہ جس کے سبب ایڈورڈسعید کے سارے فکری کاموں میں واضح ہو جاتا ہے، یا دوبارہ قدیم یونان کے لئے تمام طریقہ کار پر سوچنے پر زور دیا کہ حقیقت میں، نوآبادیاتی نظام استشراق کی ایک مصنوعہ  ہے۔ اعجاز احمد نے دور حاضر کے 1980 اور  1990کے یساریت پسند معاشروں کے پس منظر میں ایک دانشورانہ جائزہ لیا  ہے۔ جس کا اثر نصابی مطالعوں پر پڑا۔ جو اصل میں حال اور مستقبل کے متوقع بحرانوں اورتجربوں کا عندیہ دیتی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کا کہنا ھے کہ 1968 کی پیرس کی طالب علموں کی بغاوت نے دنیا کے کمیونسٹ نظریات پر گہرا اثر ڈالا۔ اعجاز احمد نے غالب کی شاعری کو انگریزی میں ترجمہ کیا  ہے۔ اردو میں “میراجی” پر انھوں نے بہترین مضمون بھی لکھا ہے ۔
ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
In Theory: Classes, Nations, Literatures – Verso
2.Lineages of the Present: Ideological and Political Genealogies of Contemporary South Asia
3.Iraq, Afghanistan and the Imperialism of Our Time – LeftWord Books, New Delhi
4.On Communalism and Globalization-Offensives of the Far Right – Three Essays Collective, New Delhi
5.A Singular Voice: Collected Writings of Michael Sprinker – Editor (with Fred Pfeil and Modhumita Roy)
6.In Our Time: Empire, Politics, Culture

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply