در محمد افریقی هم شت…

نئے سال کا آغاز ہونے چلا تھا۔ فائرنگ، پٹاخوں کا بے ہنگم شور اور سوشل میڈیا پر نئے سال کے پیغامات کا سلسلہ جاری تھا۔ گھڑی کی سوئی بارہ کے ہندسے کی جانب کھسکنے سے پہلے ہی تمام لو گوں کو نئے سال کی مبارکباد اور گڈنائٹ کا پیغام دے کر مو بائل فون سر ہانے رکھ کر سو جانے میں عافیت جانی تاکہ ان شور شرابوں سے جان چھوٹے۔
2017 کے پہلے دن پورے جو ش و خروش سے فلم میکنگ کی کلاس میں جانے کی تیاری کر تے ہوئے فیس بک پر اس خیال کے تحت نظر دوڑائی کہ حسب روایت آج بھی ہیپی نیو ایئر کے پیغامات چا ر سو چھائے ہونگے مگر جس خبر پر سب سے پہلے نظر پڑی وہ تهی “در محمد افر یقی هم شت” (در محمد افر یقی بھی چلے گئے)۔ اس خبر نے دل بو جھل کر دیا۔
بلو چی زبان کے پہلے مزاحیہ فنکار در محمد افریقی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے لو گوں کو اسٹیج پر اپنے مزاحیہ مکالموں سے ہنسانا شروع کیا۔ ان کے آئٹمز کبھی کتابی نہ ہو تے، زندگی کے بہت سے تلخ حالات و واقعات کا سامنا ہمیشہ چہرے پر ایک مسکراہٹ سجا کر کیا۔ اپنے ارد گرد رونما ہو نے والے واقعات کو ہی ایسے انداز میں پیش کرتے کہ لوگ بے ساختہ ہنسنے پر مجبور ہو جاتے وہ خود بھی محفل پسند تھے اور ان کے پاس بیٹھنے والے بھی ان کی مقنا طیسی شخصیت کے کچھ ایسے زیر اثر آجاتے کہ ان کا اٹھنے کو جی نہیں کر تا۔ اسٹیج پر کا میڈی کے ساتھ ساتھ میزبانی کے فرائض بھی سر انجام دیتے۔ انہوں نے مزاحیہ گانوں کی نہ صرف شاعری کی بلکہ گلو کاری بھی کی۔ اس کے علاوہ متعدد فلموں میں اداکاری کے جو ہر بھی دکھائے۔

1945 میں لیاری کے علاقے شاہ بیگ لاہن میں نور محمد کے گھر پیدا ہو نے والے در محمد افر یقی کے آباء و اجداد کا تعلق (صو مالیہ) افریقہ سے تھا جو پہلے ہجرت کر کے بغداد اور پھر وہاں سے بادبانی کشتیوں کے ذریعے کراچی پہنچے اور شہر کراچی کے دل لیاری کو اپنا مسکن بنا لیا۔ در محمد افریقی نے اسی علاقے لیاری میں آنکھ کھولی۔ مڈل تک تعلیم حاصل کر نے کے بعد گلیکسو کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ زندگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے قطر اور پھر مسقط روانہ ہو گئے، آٹھ سال دیار غیر میں بسر کر نے کے بعد دوبارہ وطن آگئے اور لیاری جنرل ہسپتال میں ملازمت اختیار کی جہاں عمر کے آخری حصے تک خدمات سر انجام دیتے رہے۔

در محمد افر یقی ایک ور اسٹائل فنکار تھے، انهیں ڈانس کا بھی بہت شوق تھا۔ وہ اپنے ہم عصر لعل محمد عرف لالو کے ساتھ شادی بیاہ کی تقریبات میں ڈانس کیا کر تے تھے۔ یہی شوق انهیں لیاری کے مشہور ڈانسر ملنگ چارلی تک لے آیا۔ ملنگ چارلی کراچی فلم انڈسٹری میں بطور ڈانس ڈائریکٹر خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے در محمد افریقی کو اپنے گروپ میں شامل کیا اور اپنے ساتھ فلم انڈسٹری لے گئے جہاں انہوں نے ملنگ چارلی گروپ کے ساتھ سید کمال کی فلم “روپ بہروپ” میں رونا لیلی کی آواز میں کورس گیت” او گاو گیت پیار کے ہو جمالو” میں بہترین پرفارمنس دی لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ ڈانس کے لیے بنے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی قابلیت کو ضائع کئے بغیر لو گوں کو ہنسانے کا فیصلہ کیا اور اس میں کامیاب بھی رہے۔ اس زمانے میں رمیش آرٹ اینڈ سرکل کے نام سے مشہور فنکشن آرگنائزر تهے جو لیڈیز اور جینٹس پروگرام آرگنائز کر تے تھے۔ در محمد افریقی اس سرکل کا حصہ بنے اور متعدد پروگرامز میں بطور میزبان اور کامیڈین اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مشہور بلوچی گلو کار عبداللہ اڈو، جاڑوک،کادک، آمنہ طوطی،شریفہ طوطی، بھورل قصر قندی کے ساتھ متعدد مزاحیہ خاکے پیش کیے۔ 1982 میں ان کی آڈیو کیسٹ “بلوچی گبھر” نے ریلیز ہوتے ہی انهیں خوب شہرت اور مقبولیت دی، 1984 میں ان کی کمرشل آڈیو کیسٹ “ڈسکو مرغ” کے گانے “نود نو روپیائے ککڑ “نے مقبولیت کے گویا تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔

در محمد افریقی بہت سوچ سمجھ کر کام کر تےتھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سال میں صرف ایک کیسٹ کر تے جو ہر سال بقر عید پر ریلیز ہوتی۔ڈسکو مرغ کے علاوہ ان کی آڈیو کیسٹ میں انکل مکر باز، انکل، دانمبری، سر گوازی گهوڑا، دزا پیر بجاں،دل ء مزن کاں گوادری، پٹھان قسط والا، قلفی اتکاء شامل ہیں جن کے میوزک کمپوزر بلو چی میڈیا کے نامور میوزک کمپوزر اور پروڈیوسر استاد سعید نذر ہیں۔

1985 میں پہلی بلو چی فلم “طنز گر” کے خالق نعیم نثار نے در محمد افریقی کے مزاحیہ گانے “نود نو روپیائے ککڑ ” کو کامیڈی انداز میں پیش کر نے کے لیے ان کی خدمات حاصل کیں۔ 1987 میں انور بلاچ کی فلم “وش ملے” 1988 میں شریف سر بازی کی “آدینک” 1989 میں ولی رئیس کی فلم “کندگ نہ لوٹی “1996 میں”کراچی مارا نہ ساچی”، نامور ڈائریکٹر، ایکٹر دانش بلوچ کی “وش کند” اور “رنگ ہی رنگ” میں در محمد افریقی نے لازوال اداکاری کر کے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا.
2008 میں پہلے بلو چی نیوز چینل وش نیوز میں در محمد افریقی نے تقریبا 14 پروگرام ریکارڈ کروائے یہاں ان کی جوڑی زبیر ٹھاکر کے ساتھ خوب جمی۔ 2010 سے 2016 تک دانش بلوچ کی ہدایتکاری میں لکھے گئے طنز و مزاح سے بھر پور پروگرام “وش کند” 2013 سے 2016 تک “وش ملے کلینک” میں ڈاکٹر چار شنبے کے کر دار کو عوام میں خوب پذیرائی ملی۔

2007 میں پہلی بار انہیں دل کا عارضہ لاحق ہوا۔ ڈاکٹر کے آرام کر نے کی تاکید کے باوجود وہ کام کر تے رہے۔ اپنے دل کا درد چھپا کر لو گوں کو ہنساتے رہے۔ دسمبر 2016 میں شکیل مراد کی فلم شیطان کا کام مکمل کر چکے تھے کہ 31 دسمبر کی سرد اور پر شور رات جب سب ہیپی نیو ائیر کے پیغامات اور پٹاخوں سے اپنے دل کو گر ما رہے تھے، ان پر دل کا شدید دورہ پڑا جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ ہسپتال لے جاتے ہوئے ہی وہ شب 3 بجے خالق حقیقی سے جا ملے۔۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب کو ہنسانے والا یہ منفرد فنکار اپنے پسماندگان میں بیوہ ، 4 بیٹیوں اور 5 بیٹوں کے علاوہ فن سے وابستہ اپنے ساتھیوں کو روتا چھوڑ گیا۔
بلوچی،عربی،سندهی،اردو زبان پر عبور رکهنے والے اس عظیم فنکار کی ناگہانی موت بلوچی فن و ثقافت کے لیے بہت بڑا دهچکا ہے۔ ان کے چلے جانے سے بلوچی کامیڈی کا ایک سنہری باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

Facebook Comments

زرمینہ زر
feminist, journalist, writer, student

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply