بچوں کو امن دو۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

بچے گھر کی رونق اور قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ گھر، گلی، محلے، شہر اور ملک انہی سے آباد ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں بچوں کے حوالے سے ایک خاص حساسیت پائی جاتی ہے۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں کی تصاویر سامنے آتے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، آنکھیں ساون کی طرح برسنے لگتی ہیں، قاتل سے نفرت جنم لینے لگتی ہے۔ مگر کیا کیا جائے؟ یہاں ماؤں کی گودیں اجڑنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ کہیں لسانیت کے نام پر اور کہیں مذہب کے نعرے پر بچوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ مختلف ذرائع سے کراچی میں  انسانیت دشمنوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے علی اصغر کی تصویر بار بار آ رہی ہے۔ میں ایسی تصاویر کو دیکھ بھی نہیں سکتا ہوں۔ ایک معصوم بچہ جو  اپنے باپ کی آغوش میں گھر سے نکلا تھا،وہ نا صرف اس پرامن آغوش سے محروم کر دیا گیا بلکہ اسے اتنی گولیاں ماری گئیں کہ کئی دنوں سے ہسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں ہے۔ اس کا نام ہی علی اصغر ہے، جو عزم، قربانی اور معصومیت کا استعارہ ہے۔

سیرتِ نبی اکرمﷺ کا مطالعہ کیا جائے تو آپؐ بچوں سے بہت پیار کیا کرتے تھے۔ اپنے نواسون کے لئے سواری بن جانا، انہیں گرتا دیکھ کر خطبہ دینا چھوڑ دینا، دوران نماز پشت پر سوار ہو جائیں تو سجدے کو طویل کر دینا، یہ سب اتفاقی باتیں نہیں ہیں۔ یہ اللہ کے نبی ﷺ بچوں سے محبت کا درس دے رہے ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب لوگ اسلام کے نام پر بچوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے تو جنگ میں اور کفار کے بچوں کو قتل کرنے منع کیا ہے، یہ جانے کیسے مسلمانوں کا قتل عام کر لیتے ہیں۔ حضرت علیؑ فرماتے ہیں جب آپؐ لشکر کو جنگ کے لئے روانہ فرماتے تھے تو یہ ہدایات دیا کرتے تھے:”کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، جنگ میں حائل درختوں کے سوا کسی دوسرے درخت کو نہ کاٹنا، کسی انسان کا مثلہ نہ کرنا، کسی جانور کا مُثلہ نہ کرنا، بدعہدی نہ کرنا اور چوری و خیانت نہ کرنا۔” حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اسلامی لشکروں کو جہاد پر روانہ کرتے تو انہیں واضح طور پر یہ ہدایات فرمایا کرتے تھے:”اﷲ کا نام لے کر روانہ ہو جاؤ، تم ا ﷲ کی راہ میں اس کے ساتھ کفر کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنے جا رہے ہو، اس دوران بدعہدی نہ کرنا، چوری و خیانت نہ کرنا، مُثلہ نہ کرنا، بچوں کو قتل نہ کرنا اور راہبوں کو قتل نہ کرنا۔”

یہ ہدایات کتنی واضح اور مکمل ہیں، تمام محروم اور کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے اور جب کسی جگہ پر جنگ میں بچے قتل ہوگئے تو آپؐ کا ردعمل کیا تھا، ایک صحابی بیان کرتے ہیں:”ہم ایک غزوہ مں شریک تھے (ہم لڑتے رہے یہاں تک) کہ ہمں غلبہ حاصل ہوگیا اور ہم نے مشرکوں سے قتال کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے بعض بچوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جن کے قتل کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے بچوں تک کو قتل کر ڈالا؟ خبردار! بچوں کو ہرگز قتل نہ کرو، خبردار! بچوں کو ہرگز قتل نہ کرو۔ عرض کیا گیا: یارسول اللہ! کیوں، کیا وہ مشرکوں کے بچے نہں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے بہترین لوگ بھی مشرکوں کے بچے نہیں تھے؟” میں نے اس حدیث مبارکہ کو بار بار پڑھا اور اس میں اللہ کے نبی کی اس تڑپ کو محسوس کیا، جس کا اظہار آپؐ بچوں کے قتل پر فرما رہے تھے۔

بچوں کا قتل خارجی سوچ کا نتیجہ ہے۔ یہ سوچ ہی ایسی ہے، اس میں نہ اتباع سنت ہے اور نہ آپؐ کی تعلیمات کی کوئی اہمیت ہے، اپنی پسند کا نام دین رکھ لیا گیا ہے۔ حضرت علیؑ کے زمانے میں خوارج نے ایک صحابی رسولﷺ  کو ان کی بیوی اور غیر مسلم غلام کے ساتھ روکا اور کہا حضرت علیؑ سے اظہار برات کرو، ان صحابی رسولﷺ نے اس سے انکار کر دیا تو انہوں نے انہیں شہید کر دیا، اس کے بعد ان کی بیوی سے یہی مطالبہ کیا، جب انہوں نے بھی انکار کیا تو ان کو ایسی حالت میں شہید کیا کہ ان کے پیٹ میں بچہ تھا۔ یہ خارجی اصحاب رسولﷺ اور ان کی اولاد کو اس طرح شہید کر دیتے ہیں اور اس پر کسی قسم کی ندامت کا اظہار بھی نہیں کرتے بلکہ فخر کرتے ہیں۔ یہ انسانیت دشمنی آج کے خوارج جو داعش کی صورت میں دنیا میں اسلام کا امیج تباہ کر رہے ہیں، ان میں بھی اسی طرح سے پائی جاتی ہے۔ آپ دیکھیں وہ قیدیوں کو آگ لگاتے ہیں، وہ قیدیوں کو پانی میں ڈبوتے ہیں اور اسی طرح نہتے قیدیوں کو ٹینک کے نیچے دے دیتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے۔؟ یہ سب اسی خارجی فکر کی وجہ سے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہو، ہم ایک پرامن دنیا میں زندگی بسر کریں تو ان خوارج کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ ان کے حمایتی چاہے مشرق میں ہوں یا مغرب میں، ان کا محاسبہ کرنا ہوگا، شام اور عراق میں ان قوتوں کے خلاف برسرپیکار لوگ دراصل انسانیت کے خادم ہیں۔ انہوں نے ان وحشیوں کے بڑھتے قدم اپنا خون دے کر روکے ہیں۔ وہ قوتیں جنہوں نے ان داعشیوں کو مشرق وسطٰی میں فرقہ واریت اور عدم استحکام پھیلانے کے لئے تیار کیا وہ انسانیت کی مجرم ہیں۔ ہمیں بیدار رہنا ہوگا کیونکہ داعشیوں کی ایک بڑی تعداد کو وطن عزیز کے بارڈر پر جمع کیا جا چکا ہے، افغانستان میں پچھلے چند ہفتوں میں جس طرح سے مظلوم ہزارہ کمیونٹی پر منظم حملے ہوئے، یہ اس بات کے غماز ہیں کہ یہ لوگ کافی منظم ہوچکے ہیں۔ ان کو فکری طور پر دلیل سے اور عملی طور پر طاقت سے روکنا ہوگا، تبھی ہمارے خطے اور دنیا میں امن قائم ہوسکے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply