اردلی روم اور تھانہ کلچر۔۔۔عزیز اللہ خان

پولیس کی نوکری میں سزا اور جزا ایک ساتھ چلتے ہیں یہ اور بات ہے  کہ سزا جزا پر حاوی ہے، انعام یا جزا ملتے مہینے لگ جاتے ہیں جبکہ سزا فوری اور تیز ۔۔۔پولیس کی نوکری میں جو دوست Asi بھرتی ہوئے یا کانسٹیبل بھرتی ہوئے Dspرینک تک اس لفظ اردلی روم سے بخوبی واقف ہوں گے۔
ہر پولیس والا کبھی نہ کبھی اس کرب سے گزرا ہے پولیس والا اس لیے بولا کہ پولیس آفیسر صرف لیڈنگ کلاس psp ہے جو سزا جزا دے سکتی ہے۔

سزا جزا صرف اورصرف افسر کےموڈ پہ depend کرتا ہے، اگر صاحب صبح گھر سے لڑ کر  نہیں آئے تو موڈ اچھا ہو گا بعض اوقات موسم کا  اثر اور  کبھی روم ٹمپریچر بھی موڈ کو خراب کر سکتا ہے جیسے گرمی میں لوڈ شیڈنگ وغیرہ۔

1996 میں بطور SHO رحیم یار خان تعنات تھا ۔ہمارے ایک ssp ضلع میں نئے پوسٹ ہوئے ،صاحب بہت سخت گیر مشہور تھے اور واقعی وہ سخت تھے اُن کے چہرہ پہ آج تک کسی نے مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی غرض پورا ضلع سہما  ہوا تھا، بڑے بڑے پھنے خان SHO سہمے ہوئے تھے۔

موصوف کے سامنے جو بھی گیا، خالی ہاتھ نہ آیا، تنزلی برخواستگی تو مذاق تھا اُن کے لیے۔۔۔ایک روز  شام کو مجھے OSI سے پروانہ موصول ہوا کہ صُبح جناب SSP صاحب کے اردل روم میں اگلے دن صُبح 7 بجے پیش ہونا ہے، میرا رنگ فق ہو گیا، دل ہی دل میں ساری دعائیں جو مجھے یاد تھیں مانگیں پر۔۔۔

ساری رات نیند نہیں آئی، صُبح نماز کےبعد اپنی یونیفارم کو دیکھا، بیلٹ بوٹ کی پالش چیک کی کہ کہیں صاحب کو میرا ٹرن آؤٹ پسند نہ آیا تو دُگنی سزا ۔۔

ٹھیک ساڑھے چھ بجے پولیس لائن پہنچ  گیا، وہاں تقریباً 40/45 پولیس ملازم پہلے سے  موجود تھے، پر سب کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے، جیسے قربانی کے بکرے قربانی سے پہلے ہوں ۔۔ پولیس لائن میں کوئی  بیٹھنے کی جگہ نہ تھی، انسپکٹر اندر سٹینو کے کمرے  میں موجود تھے جبکہ چھوٹے ملازمین باہر کھڑے تھے۔

تقریباً 11 بجے صاحب تشریف لائے اس دوران اردلی کئی بار روم میں گیا ،ائر فریشنر سپرے کیا ،ائر کنڈیشن کی کولنگ چیک کرتا رہا کہ کہیں صاحب کا موڈ خراب نہ  ہوجائے۔
اللّٰہ اللّٰہ کر کے گھنٹی بجی اور سٹینو اندر گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آیا ،فائلیں میز پر پٹخیں اور ماتھے سے پسینہ پونچھتے بولا۔۔ صاحب کا موڈ بہت خراب ہے، سارے ملازمین کے چہروں کا رنگ اور زرد ہو گیا اور سٹینو کی منت کرنے لگے کہ آج اُنہیں پیش نہ کیا جائے۔۔

اردل روم شروع ہوا تو ایک سب انسپکٹر اندر گیا واپس آیا تو سخت پریشان تھا، سب نے حال پوچھا تو اُس نے بتلایا کہ اُسے ڈسمس کر دیا ہے، وجہ بتائی ہے کہ ssp نے پوچھا وردی کیوں پرانی ہے وہ بولا سر اُس کے 12 بچے ہیں مُشکل ہوتی ہے، تنخواہ کم ہے تو بولے اتنے بچے کیوں پیدا کیے ،جاؤ اب گھر جا کر  اُن کو پالو اور ڈسمس کردیا۔

غرض اُس دن کوئی  بھی ایسا ملازم نہ تھا جن میں میں بھی شامل تھا جو اس مقتل گاہ (اردلی روم) میں سزا سے بچا ہو۔۔۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ  یہ سزا ہر پولیس ملازم کے سروس رول میں درج ہوتی ہے اور پروموشن کے وقت پروموشن میں آڑے آتی ہے اور جتنی سزائیں زیادہ ہوں گی،پروموشن میں اتنی ہی مشکل پیش آئے گی۔

سزا منظور ہوتی ہے، اگر جرم کیا ہو، پر اگر صرف اپنی دہشت بنانے کیلئے سزا دینا، اپنے ذاتی مسائل کو اور غصے  کو سزا کی صورت میں ملازمین پر نکالنا غلط ہے، اسی طرح ملازمین سے بد سلوکی گالیاں دینا بھی غلط ہے، ایک کانسٹیبل کی بھی وہی عزت نفس ہے، جو آئی جی صاحب کی ہے، ہر شخص اپنی فیملی میں اُتنا ہی قابل عزت ہے  جتنا کہ کوئی اعلیٰ افسر۔۔

اور انہی گالیوں اور ناجائز سختی کی وجہ سے ایک DIG صاحب بہاول پور میں قتل ہو گئے تھے پر کسی نے اس سے سبق حاصل نہیں کیا اور آج بھی اسی مقتل گاہ (اردلی روم ) کو Dpo سے لیکے IG تک ملازمین کو بے عزت کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

2019 آگیا پر ہم آج بھی 1861 کے پولیس رولز سے نہ نکل سکے ۔ملازمین کو ہتھکڑیاں لگوانا، ایک ہی آرڈر میں دو یا تین رینک تنزلی سستی شہرت کے لیے ملازمین کو حوالات میں بند کرنے سے ملازمین کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے ،اگر انہیں ٹھیک کرنا ہے تو مناسب تنخواہ، شفٹ وائز ڈیوٹی، بچوں کی تعلیم، علاج کی سہولت دیں ،ان کی پروموشن بر وقت ہو ،پسند نا پسند میں سزائیں نہ دیں، اگر آپ یہ سب نہیں دے سکتے تو آپ کو سزا کا بھی  حق نہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ psp کلاس کو ایک کانسٹیبل کی زندگی اور ضروریات کا پتہ ہی نہیں، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کہ ملازمین کی دھوپ میں کی گئی ڈیوٹی کا احساس نہیں ہوتا۔

آرمی میں کمیشنڈ  افسر جوانوں کے ساتھ رہتے ہیں، پر یہاں تو جوان کو اور ملازمین کو نفرت سے دیکھا جاتا ہے، کاش ہمارے psp افسران تک میری بات پہنچ جائے اور وہ اپنے دفتر گھر اور دیگر عیاشیوں سے کُچھ رقم بچا کر ان ملازمین کی بیرکس اور سہولت پر لگائیں اور اپنا قیمتی وقت نکال کر ان کے مسائل کو سنیں اور دیکھیں پر کہا ں ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

افسران سزا ضرور دیں پر اگر ملازم کی عزت نفس کو مجروع نہ کیا جائے، گالیاں نہ دی جائیں، کونسا ایسا قانون ہے جس میں سزا دیتے ہوئے جج گالیاں بھی لکھتا ہے یعنی دس سال قید اور بیس گالیاں سزا؟
ماتحت بھی افسران کے بچوں جیسے ہوتے ہیں
“مثال مشہور ہے کھلاؤ  سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی آنکھ سے ”
پر ایسا ہوتا نہیں اور پولیس والے تمام غصہ عوام پر نکالتے ہیں اور باقی وجوہات کے علاوہ تھانہ کلچر تبدیل نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے اگر اس محکمے  کو ٹھیک نہ کیا گیا تو تشدد کے واقعات کو کوئی نہیں روک سکتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply