پا ک بھارت آبی تنازعہ۔ذوالقرنین ہندل

دنیا میں شروع ہی سے یہی اصول چل رہا ہے کہ دریا چاہے کسی بھی ریاست سے نکلتا ہو مگر وہ جہاں سے بھی گزرے گا اس کے باسیوں کا دریا کے پانی پر پورا حق ہوگا،اور اگر کوئی قدرت کے اس گزرتے پانی کو کسی ریاست کے استعمال کے لیے روکے تو وہ جرم کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔
میرے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعہ کھڑا کرنے کا منصوبہ تقسیم ہند کے دور کا ہے،البتہ اس پر عمل درآمد تب سامنے آیا جب بھارت نے مسلمان اکثریت والی ریاست کشمیر پر اپنا تسلط جما لیا۔ یہ ہند وائسرائے اور ہندو لیڈروں کا باہمی منصوبہ تھا۔تقسیم کے وقت کی جانے والی ناانصافی آج پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔کشمیر کے قریبی چند مسلم علاقے جن کو تقسیم کے بعد پاکستان کا حصہ بننا تھا جان بوجھ کر بھارت کو دیے گئے تاکہ بھارت کشمیر پر اپنا قبضہ جما سکے۔درحقیقت بھارت کے کشمیر پر قبضے سے ہی آبی تنازعہ شروع ہوگیا تھا۔

قارئین پاکستان کو سیراب کرنے والے دریا بھارتی زیر اثر کشمیر سے ہی نکلتے ہیں۔کچھ برس گزرنے کے بعد جب بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو پاکستانی حکومت و ماہرین کو یہ ادراک ہوا کہ پاکستان تو ایک بڑے آبی مسئلے کا شکار ہے۔اس کے بعد بھارت کا پانی کو روکنا کا معمول بن گیا،جو اب تک جاری ہے صرف پانی کے روکنے کی مقدار میں کمی بیشی ہوتی ہے۔سندھ طاس معاہدے سے پہلے پاکستان میں لوگوں کے دلوں میں جنگ کے وسوسوں نے جنم لیا،

ہر با شعور پاکستانی یہی سوچتا تھا کہ اب پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے لیے ایک بڑی جنگ ہوگی،خدا نخواستہ اگر پاکستان پانی سے محروم ہوگیا تو ہمارے سرسبز میدان تو بنجر ہوجائیں گے قحط سالی ہمیں جکڑ لے گی،ہم سب چٹیل میدانوں میں افلاس کے مارے بادہ نشینوں کی طرح خوراک کی آس لگائے مارے مارے میلوں پیدل گھومتے نظر آئیں گے۔ایسے بے شمار وسوسے تھے جو پریشانی میں اضافہ کرتے تھے۔

چناچہ پاکستان کی کاوشوں اور واویلے کے بعد 1960میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا جو اس وقت کے موجودہ ہمارے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم نہرو کی زیر نگرانی طے ہوا ۔یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی بدولت طے ہوا جس کی ضمانت پر دونوں ملک معاہدے کے لیے رضا مند ہوئے۔اس معاہدے کا فائدہ بھی بھارت کو پہنچا،کیوں کہ معاہدے کے تحت دو پاکستانی دریا راوی اور ستلج بھارت کے حوالے کر دیے گئے۔باقی تین دریا سندھ چناب اور جہلم پاکستان کے حصہ میں آئے۔ورلڈ بینک نے معاہدے کے تحت پاکستان کو ڈیم بنانے کے لیے کچھ رقم فراہم کی جس کی بدولت پاکستان نے منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے۔

چند برس گزرے بھارت نے اپنے کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنا شروع کردی پاکستانی حصے کے دریاؤں کا پانی روکنے کے لیے ان پر ڈیم بنانا شروع کر دیے۔1984میں دریائے جہلم پر وولر بیراج اور1990میں چناب پر بگلیہار ڈیم اور اس کے علاوہ چھوٹے بڑے درجنوں منصوبے مکمل کر کے پاکستان کو پانی جیسی عظیم نعمت سے محروم کرنا چاہا۔ہمارے گزشتہ وقت کے منصوبہ سازوں نے غفلت برتی اور بھارتی ڈیم مکمل ہونے کے بعد ان کے ڈیزائنز کو عالمی عدالت میں چیلنج کیا۔پاکستان کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا گیا کہ اب تو ڈیم تعمیر ہوچکے ہیں۔

بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور خلاف ورزیوں سے باز نہ آیا اور پاکستانی حصے کے دریاؤں پر سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے کا منصوبہ تیار کرلیا۔بس اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ دریاؤں کا رخ تبدیل کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ایسے بے دھڑک منصوبوں کی بدولت ہی مودی سرکار پاکستان کو بنجر کرنے کی بڑھکیں مارتی ہے۔تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارے آبی ماہرین نے گزشتہ غلطیوں سے سیکھا اوربھارت کی  جانب سے کشن گنگا اور راتلے ڈیم کی تعمیر کی شروعات سے پہلے ہی ان ڈیزائنز پر عالمی بینک میں اعتراضات اٹھادیے۔جس کی بدولت گزشتہ دو روز عالمی بینک کے ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میں آبی کانفرنس ہوئی جو بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام ٹھہری۔

عالمی بینک نے حکم دیا تھا کو دونوں فریقین مل بیٹھ کر معاملات طے کریں،اگر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو ثالثی کورٹ کی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔اب عالمی بینک کا حق بنتا ہے کہ وہ ثالثی کورٹ تشکیل دے۔سوچنے کی بات ہے کہ بھارت مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل کیوں چاہے گا جو اس کے اپنے تخلیق کردہ ہیں۔پاکستانی قیادت کو بھارت سے کوئی امید وابستہ نہیں رکھنی چاہیے، بلکہ اپنی اعلی و تیز سفارتکاری کی بدولت دنیا کے سامنے بھارت کی پاکستان مخالف سازشوں اور تعصب پسندی کو بے نقاب کرنا چاہیے۔تاکہ عالمی طاقتیں بھارت پر دباؤ ڈال سکیں۔پاکستان کو عالمی بینک کو اپنے آبی مسئلے کی نوعیت بارے تمام تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہیے اور ثالثی کورٹ کی تشکیل کے لیے رضا مند کرنا چاہیے تاکہ پانی جیسی عظیم نعمت کے اس سنگین مسئلے کو حل کیا جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب اپنی حکومتوں کی ناکامی کا اندازہ لگائیں کہ کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی پر اربوں خرچ ہوگئے مگر آج تک اس پر کام شروع نہیں ہوسکا۔بھارت ہے کہ دھڑا دھڑ ڈیم بنائے جا رہا ہے۔ہماری حکومت اور ذمہ داران کو جلد از جلد پانی کے اس سنگین مسئلے کو بھانپنا ہوگا اور بھارت نواز سازشوں کو بے نقاب کرکے کالا باغ سمیت مزید ڈیموں کی تعمیر کو ممکن بنانا ہوگا۔ورنہ بھارت کی ہٹ دھرمی تو برسوں سے قائم ہے۔میرے نزدیک موئثر اور فوری حل یہ ہی ہے کہ پاکستان جلد از جلد زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کر کے اپنے دریائی پانی کو محفوظ بنائے تاکہ پاکستان آئندہ برسوں قحط سالی کا شکار نہ ہو اور زراعت سے حاصل ہونے والی بھاری معیشت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے ۔ذرا سوچیے!

Facebook Comments

ذوالقرنین ہندل
چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر، اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply