وجودِ انسان

میں کیوں اس دنیا میں موجود ہوں حالانکہ کہ یہ دنیا عجائبات کی دنیا ہے۔مجھے کامل ترین مخلوق کہا تو گیا ہے مگر میں ناقص ترین مخلوق میں سے ہوں۔ جسموں میں اتنا حبس بھر گیا ہے کہ کھلی فضا میں ایک بھی سانس لیں تو جل کر راکھ ہو جائیں۔کہیں پر ایسا بھی ہوا کہ مذہب نامی جوتی تلے انسانیت نام کا کھلتا مہکتا پھول کچل دیا گیا۔کئی بار تنہائی میں اکثر میں نے خود کو خدا سے باتیں کرتے سنا ہے مگر گفتگو کیا کی کچھ یاد نہی۔خدا نے اپنی حکمت سے انسان نامی مہذب حیوان کو ایک ایسی آنکھ بھی دی جس سے وہ نیکی اور بدی کو دیکھ سکے اس میں فرق کرسکے صراط مستقیم پر چل سکے مگر افسوس یہ ہے کہ یہی آنکھ محروم خدا کی تجلیات دیکھنے سے ہے۔
شاید ہر انسان ایک ایسے وسیلہ کی تلاش میں ہے جسے حاصل کرکے نفع کمایا جائے۔انسان اپنی شان و شوکت کی بڑی بڑی عمارتوں میں روپے پیسے کے ریل پیل میں،سونے چاندی کے ڈھیروں میں خدا کو تلاش کرتا ہے اور جب اسے ڈھونڈ لیتا ہے تو لالچ،ہوس،منافقت کے غار میں قید کر دیتا ہے۔ مگر اسے کیا معلوم خدا کیا ہے وہ تو اسکی ذات کی نفی کرکے خود خدا کے رتبے پہ براجمان ہوتے ہوئے عقل و دانش کو بلائے طاق رکھتے ہوئے خود کے مردود ہونے کی خوشی میں بے اختیار قہقے لگاتا ہے۔
انسانیت فرقوں،مذہبوں،قوموں،رسموں،رواجوں،عقائد و نظریات سے ہٹ کر ایک احساس ہے جو صرف کسی خاص نسل،امت،قوم اور سلطنت تک ہی محدود نہیں بلکہ کل کائنات کی اشرف المخلوقات سے لے کرحشرات تک کا مذہب ہے ۔انسانیت کا وجود ہی خدا کا وجود ہے۔ انسانیت کا وجود نہیں تو خدا کا وجود نہیں ورنہ خدا آج بھی زمانہ جہالت میں کعبہ میں پڑی مٹی اور پتھر کی مورتیوں میں بٹا ہوا ہے جسے انسان بیچ کر پوج کر اور خود کا تخلیق کیا شاہکار سمجھ کر فرعونیت اور یذیدیت کے نظام کو فروغ دے رے رہا ہے۔

Facebook Comments

شعبان احمد
تعارف بس یہی کہ مفت کا دانشور

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply