غصہ، کتنا ضروری کتنا نقصاندہ۔۔ابصار فاطمہ

آپ کو کیسا لگتا ہے جب آپ کا باس آپ کے انتہائی محنت سے کیئے گئے کام کی باقی تمام محنت نظر انداز کر کے ایک چھوٹی سے غلطی پہ ایک گھنٹہ ڈانٹے؟
اور آپ کو کیسا لگتا ہے جب آپ کا ماتحت ہر بار بچوں کی طرح الٹا سیدھا کام کر کے آپ کے سامنے لاکر رکھ دے؟
ظاہر ہے یہ ایک ہی واقعے کے دو پہلو ہیں جس میں دونوں ہی اپنی اپنی جگہ غصہ محسوس کرتے ہیں۔ مگر کیا دونوں کا ردعمل ایک ہوگا۔ بلکہ پہلے یہ دیکھیں کہ کیا دونوں کا مسئلے کے حوالے سے زاویئہ نگاہ ایک ہے؟ یقینا نہیں ہے۔ ایک کی توجہ کی گئی محنت پہ ہے اور دوسرے کی غلطی پہ۔ پھر اس کے بعد ایک کواپنی جاب جانے کا خوف ہے جبکہ دوسرے کو؟ دوسرے کو بھی خوف ہی ہے۔ردعمل نا دکھانے کی صورت میں اپنے اختیار اور طاقت چھن جانے کا خوف کہ میں نے اسے ابھی ٹوکا نہیں تو یہ دوبارہ میری بات نہیں مانے گا۔ مگر اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں جو “غصہ” پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
غصہ آنا فطری عمل ہے جسے آپ ختم نہیں کرسکتے۔ اگر آپ کو کسی ناخوشگوار بات پہ غصہ آتا ہے تو مبارک ہو آپ نارمل انسان ہیں غصے کا بالکل نا آنا بھی نقصان دہ ہے اور کسی شدید ذہنی مسئلے کی علامت بھی۔
آیئے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ غصہ کیوں آتا ہے۔ ہر انسانی جذبے کی طرح غصہ بھی کیمیکل ری ایکشن کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب ہم ایسے حالات سے دوچار ہوتے ہیں جو ہمارے لیئے کسی بھی حوالے سے ناخوشگوار ہوتے ہیں تو ہمارا جسم “لڑو یا بھاگو” یعنی fight or flight کی کیفیت میں آجاتا ہے اس کے لیئے ہمارا دماغ ایڈرنلائن adrenaline کیمیکل بناتا ہے جو ہمارا دوران خون بڑھا دیتا ہے پسینہ آنے لگتا ہے آنکھ کی پتلی پھیل جاتی ہے۔ اس کے جواب میں نون ایڈرنلائن کیمکل بنتا ہے جو ہمیں فیصلہ سازی میں مدد دیتا ہے۔
اس جسمانی ردعمل کے بعد باری آتی ہے ماحول کے اثر کی۔ ہمارا ردعمل اس پہ منحصر ہوتا ہے کہ ہم نے ماحول سے کیا سیکھا۔ مثال کے طور پہ ہمارے گھر کی نانیاں دادیاں چھوٹی بچی کے غصہ دکھانے پہ فورا ٹوکتی ہیں کہ یہ لڑکیوں کاشیوا نہیں جبکہ چھوٹے بچے کے غصہ دکھانے پہ عموما رائے ہوتی ہے کہ ابھی اتنا سا ہے مگر ابھی سے باپ دادا جیسا جلال ہے۔ یعنی دیکھا جائے تو کم عمری سے ہم اپنے رویوں سے بتانا شروع کردیتے ہیں کہ کسے اپنے غصے کے اظہار کی اجازت ہے اور کسے نہیں۔ ایک طرف غصے میں ناپسندیدگی کا اظہار یا ناراضگی کا اظہار بھی منع کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اظہار کے پرتشدد طریقے کو بھی اس کی شخصیت کا حصہ کہہ کر اجازت کا اعزاز بخشا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا غصے کا اظہار کرنا درست ہے بھی یا نہیں۔ جناب نفسیاتی صحت کے لیئے ہر جذبے کا مناسب طریقے سے اظہار ضروری ہے وہ خوشی ہو غم ہو درد ہو غصہ یا کچھ بھی۔ اور کسی بھی جذبے کے اظہار کے لیئے زبردستی، تذلیل یا تشدد کا راستہ اپنایا جائے تو یہ نا صرف نامناسب رویہ ہے بلکہ یہ کسی ذہنی مرض کی علامت بھی ہوسکتی ہے۔ اگر شروع میں پیش کئے گئے واقعے کو مثال کے طور پہ لیں تو دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی، ہوسکتا ہے ماتحت نے واقعی بہت محنت سے کام کیا ہو اور نادانستگی میں غلطی رہ گئی ہو اور ہوسکتا ہے کہ جلدی فارغ ہونے کی کوشش میں جیسا بن پڑا کام مکمل کر کے باس کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہو۔
باس کو کام دیکھ کر پہلے غصہ آئے گا اور ماتحت کو باس کے ردعمل پہ بعد میں غصہ آئے گا یعنی دیکھا جائے تو معاملہ فہمی کا بار اس وقت باس کے کندھوں پہ ہے۔ وہ چاہے تو اپنے غصہ کو مناسب طرح استعمال کر کے اسی ماتحت سے کام ٹھیک بھی کروا لے اور آپس کا ماحول بھی خراب نا ہو۔ حقیقت میں ایسا بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی نا کسی حوالے سے رتبہ میں برتر سمجھا جاتا ہے اسے ہمارا معاشرہ اپنی غصے کا کسی بھی طرح اظہار کرنے کی اجازت دیتا ہے جب کہ کم رتبے والے کو اپنی ناپسندیدگی کے اظہار کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہمارے یہاں جذبات کے حوالے سے یہ غیر منصفانہ اصول مزید مسائل کی وجہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ باس ماتحت پہ غصہ اتارتا ہے ماتحت اگر شادی شدہ ہے گھر آکر بیوی بچوں سے لڑتا ہے یا مارتا پیٹتا ہے یا غیر شادی شدہ ہے اور گھر کا خرچ اٹھاتا ہے تو ضعیف ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں پہ غصہ اتارتا ہے۔ بیوی اپنے بچوں سے ساس سے نند سے لڑ کر غصہ اتارتی ہے اور بچے چیزیں توڑ کر محلے کے خود سے کمزور بچوں کو مار کر یا گلی کے کتے بلیوں کو مار کر غصہ اتارتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس سے غم و غصہ کا اصل احساس ختم نہیں ہوتا۔ اس پورے چکر میں صرف پہلا ردعمل اسی جانب تھا جس پہ غصہ تھا مگر وہ بھی ضرورت سے زیادہ ردعمل کی وجہ سے بے فائدہ ہوجاتا ہے۔ جب کہ اس کے بعد والے سارے ردعمل بالکل غیر موثر ہیں کیونکہ ان افراد پہ غصہ اتارا گیا جن کی غلطی نہیں تھی نا صرف منفی رویہ آگے بڑھایا گیا بلکہ اپنے اندر مزید غصہ بڑھا بھی لیا گیا۔
یہ یاد رکھیں کہ غصہ کا اظہار جب تک اسی سمت نا ہو جس کی وجہ سے غصہ آیا ہے اپ کا غصہ ختم نہیں ہوگا وہ شکلیں بدل بدل کر پریشان کرتا رہے گا یا مستقل ذہنی دباو بن کر آپ کو ڈپریشن کا مریض بنا دے گا۔ اور اس سب کی بنیادی وجہ یہ کہ ہمیں ہمیشہ یہ سکھایا جاتا ہے کہ خود سے کسی بھی لحاظ سے بڑے سے بے ادبی نہیں کرنی۔ چاہے وہ عمر میں بڑا ہو، تعلیم میں، رشتے میں، عہدے میں یا سماجی حیثیت میں۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ سب بتانے کے بعد میں آپ کو مشورہ دوں گی کہ آپ کو اسی پہ غصہ اتارنا چاہیئے جس پہ آیا ہے تو جی ہاں میں یہی کہوں گی مگر اگر آپ کے خیال میں اس کا مطلب ہے کہ جس پہ غصہ آیا اس پہ چیخنا چلانا، اس کی بے عزتی کرنا اسے دو چار دل کو سکون پہنچانے والی گالیاں دینا یا دو چار تھپڑ لگا دینا تو سوری غصہ کے اظہار مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اوپر واضح کیا کہ جذبات کا اظہار کرنا اور جذبات کا اظہار کرنے کے بہانے کسی کو بے عزت کرنا یا اس کو جسمانی تکلیف پہنچانا یہ بالکل الگ باتیں ہیں۔ اگر آپ کو کسی پہ غصہ آرہا ہے آپ کے جذبات مجروح ہوئے ہیں یا آپ کو احساس ہے کہ سامنے والے کی غلطی بہت سنگین ہے تو خود کو پرسکون رکھتے ہوئے اسے مناسب الفاظ میں واضح کریں کہ آپ کو یہ بات یا یہ رویہ پسند نہیں آیا۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ ہے جس پہ گفتگو ضروری ہے مگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ گفتگو نہیں کرپائیں گے/ گی تو اس مسئلہ پہ بات چیت کو کچھ وقت کے لیئے ملتوی کردیں۔ جب تک غصہ کا احساس کم نا ہو۔
خود کو پرسکون رکھنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں مثلا سب سے پہلے اس شخص کے سامنے سے ہٹ جائیں جس پہ ناراض ہیں آپ جاتے ہوئے واضح کرسکتے/ سکتی ہیں کہ کیونکہ ابھی آپ بات نہیں کرنا چاہتے ورنہ مسئلہ جھگڑے میں بدل جائے گا لہذا موضوع کو یہیں چھوڑ دیا جائے۔ اس کے بعد پرسکون جگہ آکر گہری سانسیں لیجیئے یہ آپ کے فائٹ اور فلائٹ کی کیفیت کو کم کرتا ہے اور دوران خون کی رفتار معمول پہ لاتا ہے اور اعصاب پرسکون ہوجاتے ہیں۔ ٹھنڈا پانی پئیں۔ کوئی پسندیدہ گانا سنیں، اپنی مذہبی کتاب پڑھیں یا کوئی مذہبی ترانا سنیں۔
مراقبہ کرنا غصہ کنٹرول کرنے کا وقت طلب مگر ساتھ ہی ساتھ دیر پا حل ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ غصہ کنٹرول کرنے میں آپ کا یہ نظریہ کہ آپ کس پہ غصہ اتار سکتے ہیں اور کس پہ نہیں یہ ہمیشہ اثر انداز ہوگا۔ آپ کبھی کسی ایسے شخص کے لیئے غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کریں گے/ گی جسے آپ خود سے کمتر سمجھیں یا قابل عزت نا سمجھیں۔ بظاہر اس کا کوئی نقصان نہیں مگر ذہنی طور پہ یہ نظریہ دونوں کونقصان پہنچاتا ہے جس کی تذلیل کی گئی اسے بھی ذہنی کرب میں مبتلا کرتا ہے اور جس نے تذلیل کی وہ بھی ذہنی کرب میں مبتلا ہوتا ہے۔
یہاں تک تو بات تھی عمومی غصے کی مگر اگلا مرحلا ہوتا ہے کسی ذہنی مسئلے کی وجہ سے بار بار غصے کا آنا اور اس پہ قابو پانے میں مشکل پیش آنا۔ یہ عموما مستقل ذہنی دباو، اینگزائٹی یا ڈپریشن میں مبتلا افراد کے ساتھ ہوتا ہے جس کی وجہ ان کا پہلے سے حالات سے پریشان ہونا ہوتا ہے۔
شاید آپ کو یہ بات عجیب لگے مگر جلد غصہ آنے میں ایک عنصر کم ذہانت کا حامل ہونا بھی ہوسکتا ہے اس کی وجہ کے دو پہلو ہوسکتے ہیں ایک تو احساس کم تری دوسرا معاملے کی تہہ تک پہنچے بغیر نتیجہ اخذ کرنا۔ یعنی ایک ایسا شخص جسے ہمیشہ اس کی کند ذہنی پہ ٹوکا گیا ہو اس کے سامنے اس سے کم رتبے یا برابر رتبے کا حامل شخص اس سے بہتر کام کر کے دکھائے تو وہ پہلے سے موجود ذہنی دباو کی وجہ سے اور ساتھ ساتھ اس صلاحیت کی کمی کی وجہ سے کہ “اگر دوسرے نے اگر بہتر کیا ہے تو یہ بھی ذرا سی محنت سے اس سے بہتر کر سکتا ہے” وہ جلد غصے میں آجاتا ہے اور غصے کے اظہار کا نامناسب طریقہ اپناتا ہے۔
کسی بھی قسم کے ذہنی مسئلے حد یہ کہ ذہانت کی کمی اور اس کی وجہ سے ہونے والے معاشرتی دباو کی وجہ سے ہونے والے غصے کو وقتی طور پہ اوپر دیئے گئے طریقوں سے حل کیا جاسکتا ہے مگر اس کا مستقل حل تب ہی ممکن ہے جب ذہنی مسئلے کا علاج کروایا جائے
یہ یاد رکھیں کہ ہر جھگڑے میں جھگڑا ختم کرنے یا بڑھانے کی ذمہ داری ہمیشہ اس شخص پہ ہوتی ہے جو دونوں فریقوں میں سے نسبتا زیادہ رتبہ یا طاقت رکھتا ہو۔ یعنی والدین اور اولاد میں والدین پہ یہ ذمہ داری تب ہوتی ہے جب اولاد کم عمر ہے اور یہ ذمہ داری اولاد پہ تب آجاتی ہے جب وہ جوان ہوجاتی ہے اور والدین جسمانی طور پہ ان کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں۔ استاد شاگرد کے رشتے میں یہ ذمہ داری استاد پہ ہوتی ہے۔ افسر ماتحت کے رشتے میں افسر پہ اور عالم اور غیر عالم کے معاملے میں عالم پہ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے کم عمر بچوں کو غصے کے اظہار کی کس حد تک اجازت دیتے ہیں کیونکہ یہی وہ مرحلہ ہے جب ہم سب سیکھ رہے ہوتے ہیں کہ غصہ کیا ہے کب آتا ہے اور اسے کس طرح سے قابو کیا جائے۔ ایسے میں بچوں کو ڈانٹنے کی بجائے ان کے احساسات کو بیان کریں کہیں کہ “ہمیں معلوم ہے کہ یہ کام غلط ہوگیا اس وجہ سے آپ کو غصہ آرہا ہے۔ مگر آپ روئیں گے یا چیخیں گے تو مسئلہ حل نہیں ہوگا ہم مل کر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں”۔آپ نے غلطی کی ہے تو مانیں تاکہ بچہ سیکھے کہ غلطی کی جاتی ہے تو مانا جاتا ہے اور پھر اسے ٹھیک کیا جاتا ہے۔ ہمیں عموما ایک دوسرے پہ تبھی غصہ آتا ہے جب ہم دوسرے کی غلطی معاف نہیں کرپاتے۔ اور اسے غلطی سدھارنے کا موقع بھی نہیں دیتے اور بدقسمتی سی ایک معاشرے کہ طور پہ ہم کند ذہنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کبھی بھی کسی سے غلطی نا ہو لہٰذا اہمیت غلطی کو نا دیں بلکہ اس بات کو دیں کہ اسے سدھارا کس طرح سے جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply