تہتر زبانوں کا عالم۔۔محمد رضا

انسان کی قدرو قیمت کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہوجاتا ہے، کیونکہ ہر شخص کی تقریر اور تذکرہ اس کی ذہنی واخلاقی حالت کی آئینہ دار ہوتی ہے جس سے اس کے خیالات و جذبات کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جب تک وہ خامو ش ہے اس کا عیب و ہنر پوشیدہ ہے اور جب انسان کی زبان کھلتی ہے تو اس کا جوہر نمایا ں ہوجاتا ہے۔اس بات کے ثبو ت میں حضرت علی علیہ السلام کے قو ل کو دلیل بنا کر پیش کر تے ہیں ۔ آپ نے فرمایا’ ’انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے‘‘۔ کسی زبان کا جا ننا یا نہ جا ننا ایک بات ہے، لیکن کسی بھی زبان کا معقول اور منا سب استعمال یا گفتگو کا فن دوسری بات ہے۔ ’’زبان شریں ملک گیری ‘‘، ’’ زبان ٹیڑھی ملک بانکا ‘‘ جیسے مقولے کے علا وہ زبان تخت پر بٹھاتی ہے اورپھانسی کے پھندے تک بھی پہنچا دیتی ہے اس سے ہر خا ص عام بخو بی واقف ہے۔ ایک منچلے نوجوان نے کسی ضعیف العمر شخص سے پوچھا چچامیاں ! آپ کے دانتوں کو کیا ہوا؟ تمام کے تمام کیوں گر گئے ؟ چچا میاں نے جواب دیا بیٹا! عمر کا تقاضا ہے۔ تب برجستہ اس مسخرے نے پھر سوال کیا۔ چچا میاں ! آپ کی زبان کی بھی تواتنی ہی عمر کو پہنچ چکی ہے وہ کیوں نہیں ٹوٹ کر الگ ہوئی۔ اس معمر چچامیاں نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا بیٹا ! زبان اپنی نرمی و حلیمی کی وجہ سے قائم رہ گئی اور دانت اپنی سختی کے سبب ٹو ٹ گئے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کا بہت گہرا تعلق انسان کے ذہنی ارتقا سے ہے۔ اگرچہ زیادہ زبان جاننا بذات خود انسانی ارتقا کے لیے ضروری نہیں لیکن انسانی ارتقا کا تجربہ وہی لوگ کرتے ہیں جو ایک سے زیادہ زبانیں جانتے ہوں ۔ مصر کے مشہور ادیب ڈاکٹر احمد امین نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھاہے کہ پہلے میں صرف اپنی مادری زبان (عربی) جانتا تھا۔ اس کے بعد میں نے انگریزی سیکھنا شروع کیا۔ غیر معمولی محنت کے بعد میں نے یہ استعداد پیدا کرلی کہ میں انگریزی کتب پڑھ کر سمجھ سکوں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب میں انگریزی سیکھ چکا تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا پہلے میں صرف ایک آنکھ رکھتا تھا اور اب میں دو آنکھ والا ہو گیا۔ میں کم وبیش پانچ زبانیں جانتاہوں : اردو، عربی، فارسی،انگریزی، ہندی۔ اگر میں صرف اپنی مادری زبان ہی جانتا تو یقیناًمعرفت کے بہت سے دروازے مجھ پر بند رہتے۔

عر بوں نے اپنے نبی صلعم کی صحبت میں رہ کر اپنی قومی زبان میں جس سے انہیں بیحد شغف تھا، قرآنی علوم پر کا فی دسترس پا ئی تھی، پھر وہ شرق وغرب میں پھیل گئے اور روم و فارس پر چھا گئے۔ اس وقت قدرت نے عجمی اقوام میں ایسا زبر دست جوش اور داعیہ کلام الٰہی کی معرفت اور زبان عر بی میں مہارت حا صل کرلی کہ تھو ڑی مدت کے بعد وہ قرآنی علوم کی شرح و تبیین میں اپنے معا صر عر بوں سے گوئے سبقت لے گئے بلکہ عموماً علوم دینہ اور ادبیہ کا مدار ثریا تک پرواز کر نے والے عجمیوں پر رہ گیا۔ اس دور میں ہم جہاں کوئی مشکل در پیش آتی ہے یا ہم کسی دردناک مصائب میں شکا ر ہو جاتے ہیں تو اپنے اپنے عقیدے کی بنا پر اپنے نبی صلعم کو اپنا ہا دی، رہبر معظم قرار دیتے ہوئے انہیں امداد کے لیے بلا تے ہیں ہمارا مستحکم مسلم عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلعم ہماری مدد کرتے ہیں ۔ جب مسائل حل ہو جاتے ہیں تو کیا اپنے نبی صلعم کے فرامین بھول جائیں جو انہوں نے کہا ہے کہ’’ علم حا صل کر نا ہر مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے ‘‘۔ ’’ میں شہر علم ہوں علیؑ اس کے دروازہ ‘‘ پیارے نبی صلعم نے صرف لفظ’’ علم ‘‘کا استعمال کیا ہے۔ اب ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم علم کے ہر شعبے میں ، درس تدریس میں خوب محنت کر کے اپنے نبی صلعم کے امتی ہونے کا ثبوت دیں ورنہ زبانی دعوے کرنے سے کیا فائدہ ؟

اسلامی تواریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تر بیت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سر بلندی اور ترقی حا صل کی لیکن جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنا لیے گئے یا پھر جب جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقع سے خود کو محروم کیا تب تب وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو دیا۔ آج مسلمانوں میں تعلیم ادارے دہشت گردی کا نشانہ پر ہیں ۔ دشمن طاقتیں تعلیم کی طرف سے بد گمان کر کے مسلمانوں کو کمزور کر نے کے در پہ ہیں کچھ ایسے سماج دشمن عنا صر بھی ملک میں موجود ہیں جو اپنی سر داری، چوہدراہٹ، جاگیرداری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفاد کی وجہ سے اپنے اثر و رسوخ والے علا قوں میں بچوں کی تعلیم میں رکا وٹ بنے ہوئے ہیں یہ بھی ایک قسم کی تعلیم دشمنی ہے جس کا تصفیہ کرنا ضروری ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اہم اپنے تعلیمی نظام کے مقا صد کو واضح کریں اور جہالت جیسے مہلک مرض کی طرف سب سے زیا دہ توجہ دیں ۔ ہمیں ایسا تعلیمی ما حول ؍ نظام وضع کرنا ہو گا جو ہمارے اور معاشرے کے درمیان پل کا کام کرے اس کے بعد ہی ہم اس نتیجے پر پہنچ سکیں گے کہ ہم نے اس ملک اور قوم کی خدمت کی ہے اور اس کا واحد راستہ علم اور زبان کا سیکھنا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا’’ علم حا صل کر و گہوارے سے قبر تک‘‘، ’’یتیم وہ نہیں جس کے والد کا انتقال ہو جائے بلکہ یتیم وہ ہے جس کے پاس علم نہ ہو‘‘۔ ’’ہم اللہ کی تقسیم سے راضی ہیں کہ انہوں نے ہمارے لیے ہم رکھا اور جاہلوں کے لیے مال رکھا‘‘۔ اب ہم سب کو خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم سب ’’ ہمارے لیے ‘‘ والے زمرے میں ہیں یا ’’ جا ہلوں ‘‘ والے میں ہیں ۔ اگر ہم سب حقیقی عاشق علی علیہ السلام ہیں تو اس پر غور کریں۔

ابوہاشم بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت امام نقی علیہ السلام کی خدمت میں حا ضر ہوا تو آپ نے مجھ سے ہندی زبان میں گفتگو کی جس کامیں جواب نہ دے سکا تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ابھی تمام زبانوں کا عالم بنائے دیتا ہوں یہ کہہ کر آپ نے ایک سنگریز ہ اٹھا یا اور اسے اپنے منہ میں رکھ لیا اور اس کے بعد اس سنگریزہ کو مجھے دیتے ہوئے کہاکہ اسے چو سو، میں نے منہ میں رکھ کر اسے اچھی طرح چو سا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں تہتر زبانوں کا عالم بن گیا جن میں ہندی بھی شامل تھی۔ اس کے بعد سے پھر مجھے کسی زبان کی سمجھنے اور بولنے کی میں کسی بھی طرح کی کوئی مشکل در پیش نہیں آئی۔

اس واقعہ سے متعدد نکات نکل کرہمارے سامنے آتے ہیں اور یہ بات صا ف طور پر ظاہر ہو تی ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے محبوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر تمہیں اپنی پہنچان قائم رکھنا اور اپنے مقاصد کو ساری میں پھیلا نا ہے تو زیا دہ سے زیا دہ زبانوں کو سکھیں کیوں کہ جب تک ہم کسی سماجی و ملکی و بیرون ممالک زبان کا علم نہیں ہو گا ہم اپنی بات ان تک کیسے پہنچا سکیں گے یا ان کی بات ہم کیسے سمجھ سکیں گے۔ اگر انسان علم کے شہر اوراس کے دروازے پر اپنا عاجزانہ سر خم کر دے تو کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ جب اس کامحب اپنے آقا کے لعاب دہن سے اتنی صلاحیت کا مالک ہو سکتا ہے تو اس کے آقا کا کیا عالم ہو گا۔اہل علم کم سے کم اپنے آپ کو اس لائق تو بنا لیں کہ اس کا آقا اپنے لعاب دہن سے متعدد زبان کے دروازے کھول دیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ انکساری اور حسن اخلا ق دو ایسے انمول تحفے ہیں جس کے سبب ہم سب کچھ حا صل کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہوا کبھی ہم نے سو چا؟ یہ واقعہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے یہ واقعہ کیوں رو نما ہوا ؟ اگر ہم حقیقی عاشق امام ہیں تو ہمیں ان کی باردگا ہ میں استدعا کر نا چاہئے مولا ہمیں بھی ایسے سنگریزے کی سخت ضرورت ہے جس سے علوم کے تہتر دروازے کھلے۔ دور کر دو میری مشکل اے میرے مشکل کشا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ مضامین!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply