خداؤں کے نگر میں۔۔سید مجاہد علی

یونان کے دارالحکومت ایتھنز پر خداؤں کی حکومت ہے۔ آپ کسی طرف ہو لیجئے، کوئی نہ کوئی خدا آپ کا راستہ کاٹنے کے لئے ایستادہ ہوگا۔ ان سب خداؤں نے اپنی خدائیاں بھی بانٹ رکھی ہیں۔ کوئی ہواؤں کا نگران ہے، کوئی پانی کا ، کوئی موسم کی خبر رکھتا ہے تو کوئی محبت اور حسن کا دیوتا ہے۔ البتہ یہ جاننے کے لئے قدیم تاریخ کی عرق ریزی کرنا ہوگی کہ ان خداؤں کے عوام کے ساتھ تعلق اور رشتے کی کیا نوعیت تھی۔ خوبصورت موسم میں ایک خوشگوار شہر میں یہ کام کرنے سے بہتر تھا کہ ہم گھر پر ہی رہتے اور تحقیق و جستجو کا شوق پورا کرتے رہتے۔ لیکن یہ خدا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

ایتھنر کے قلب میں واقع ہوٹل سے باہر نکلنے لگے تو ٹھنڈی ہوا نے استقبال کیا۔ آسمان پر گھنگھور بادل چھائے ہوئے تھے۔ باہر جاتے قدم رک گئے۔ سوچا پتہ کر لیا جائے کہ کیا بارش کا امکان تو نہیں ہے۔ اس صورت میں ہوٹل سے چھتری ادھار لی جا سکتی تھی۔ ہم نے کاؤنٹر پر کھڑے مددگار سے دریافت کیا کہ کیا اسے موسمی پیش گوئی کی خبر ہے۔ اور کیا اب یا تھوڑی دیر میں بارش ہونے کا امکان تو نہیں ہے۔
طویل قامت مسکراتے شخص نے استقبالیہ نگاہوں سے ہمیں دیکھا اور بولا: نہیں موسمی حالات کی رپورٹ تو نہیں۔ لیکن ابھی میں خدا سے رابطہ کرکے بتاتا ہوں کہ بارش ہو گی یا نہیں۔
یہ کہہ کر مسکراتے ہوئے اس نے موبائل فون اٹھایا اور اپنے ”خدا“ سے رابطہ میں مصروف ہو گیا۔
” کیا آپ کا خدا اتنا مہربان ہے کہ آپ جب چاہیں اس سے رابطہ کر سکتے ہو؟“ بے ساختہ ہمارے منہ سے نکلا۔
” ہاں کیوں نہیں۔ آپ بے فکر شہر کی سیر کیجئے نصف شب تک بارش کا امکان نہیں ہے۔“

” مگر ہمارا خدا اتنا فراخ دل نہیں ہے۔ وہ تو سات پردوں میں رہتا ہے اور بغیر واسطے کے ملتا بھی نہیں ہے۔ نہ ہی اتنا مہربان ہے کہ خوشدلی سے ہر سوال کا جواب دے۔“ ہم نے چاہا کہ یہ بات اس ہنستے مسکراتے مددگار کو بتا دیں لیکن پھر اندازہ ہوا کہ اس طرح تو ہماری ہی سبکی ہوگی۔ آخر خدا تو ہمارا ہی ہے۔ وہ جیسا بھی ہے۔ دوسروں کے سامنے تو اس کا راز فاش نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن اس شخص کی بات اور انداز نے شام کے لطف کو جستجو اور تجسس میں بدل دیا۔
یہ درست ہے کہ رب ذوالجلال کی رحمت کا ذکر بھی کبھی بھولے سے ہمارے پیشواؤں کے منہ پر آ جاتا ہے لیکن اکثر و بیشتر ان کرخت زبان ، درشت چہرہ لوگوں کے منہ سے خدا کے صرف وہی اوصاف سننے کو ملتے رہے ہیں جو خوف سے رونگٹے کھڑے کر دیں۔

کبھی وہ نافرمانوں کو دوزخ کی بھٹی میں جلا کر انہیں مرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ بار بار زندہ کرکے جلاتا اور جلا کر زندہ کرتا ہے۔ کبھی وہ عذاب کی صورت میں اپنے بندوں کے گناہوں کو سزا دینے کے لئے زلزلے طوفان اور تباہیاں نازل کرتا ہے۔ جو لوگ پھر بھی اس کے قہر سے خوفزدہ نہیں ہوتے، انہیں یہ پیغام بھجوایا جاتا ہے کہ ابھی خوش یا مطمئن ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ زندگی تو فانی ہے۔ مرنے کے بعد تو تمہارا حساب میں نے ہی لینا ہے۔ دیکھ لینا کہ تمہارے کھاتے میں کتنی نیکیاں لکھی ہیں۔

یاد دہانی کروانے کے لئے اللہ کا کوئی نہ کوئی نیک بندہ طول طویل داڑھی اور ٹخنوں اور گھٹنوں کے بیچ پھنسی شلوار نما چیز پہنے اکثر دروازے پر دستک بھی دیتا رہتا ہے۔ پیغام سادہ اور آسان ہوتا ہے:
یاد رکھنا۔ یہ دنیا فانی اور زندگی محدود ہے۔ اصل زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہونی ہے۔ سوچ لو تم نے اس وقت کا کوئی سامان کیا ہے۔

سامان سے یاد آیا پانچ ہزار سال قبل مصر کے فراعین میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد جو زندگی شروع ہوگی، اس کا اسباب کر لینا چاہئے۔ اس لئے وہ ساری زندگی سونا چاندی اور ہیرے جواہرات جمع کرتے۔ اس کے علاوہ وارثین کو ہدایت کر جاتے کہ یہ اسباب ساتھ روانہ کرنے کے علاوہ کچھ غلہ اور کھانے پینے کی چیزیں بھی ہمرا کر دینا۔ انہیں قیاس ہوگا کہ شاید ابتدائی دنوں میں ان ٹھکانوں کا علم نہ ہو سکے جہاں سے سونا چاندی یا ہیرے جواہرات کے بدلے وہ چیزیں خریدی جا سکیں جو پیٹ بھرنے کے کام آ سکتی ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ ہر دور کے انسان نے اپنی زندگی کو محفوظ اور بہتر بنانے اور اس کے خاتمہ کے بعد اس کا لطف لینے کے لئے اپنے تئیں انتظامات تو ضرور کئے ہیں۔

مرنے والوں کو تو نہ جانے اس کا کیا فائدہ ہوا لیکن ہزاروں سال بعد پیدا ہونے والی نسلوں کو ان فراعین کی حنوط شدہ لاشوں کے ساتھ جو ساز و سامان دستیاب ہوا، اس سے عہد قدیم کے لوگوں کے رہن سہن ، پہناوے اور کسی حد تک رسم و رواج کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ساری چیزیں قاہرہ سے روم ، لندن ، پیرس ، ایتھنز اور دیگر بڑے شہروں کے عجائب گھروں میں سیاحوں کی تفریح طبع کا سبب بنتی ہیں۔ کوئی چاہے تو ان سے عبرت بھی پکڑ سکتا ہے۔ سبق بھی سیکھ سکتا ہے۔

ہوٹل کے معاون کے اپنے خدا سے رابطہ کی بات نے ہمیں اتنا متاثر کیا کہ سوچا کیوں نہ ان خداؤں سے ملا جائے۔ شاید یہ اس خدا کو بھی جانتے ہوں جس کے قہر ، جبر ، غصہ اور جلال کے قصے سنا کر نسل در نسل جدت ، لذت ، تفریح اور ترقی کا راستہ مسدود کیا گیا ہے۔ یوں تو ہمیں بھی اپنے خیال کی بے ہودگی پر غصہ آیا اور خود پر نفرین بھی بھیجی کہ یہ کس قسم کی واہیات باتیں سوچنے لگے ہو لیکن انہی خیالات میں ہم ایتھنز کے قدیمی علاقے پلاکا میں واقع قدیم اگورا یا پرانے بازار میں پہنچ چکے تھے۔

حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دن میں ہزاروں سال پرانا کھنڈر نظر آنے والا یہ بازار اِندر سبھا بنا ہوا تھا۔ دکانیں بقعہ نور تھیں اور ہر طرح کا اسباب بیچا اور خریدا جا سکتا تھا۔ کہیں جانوروں کے ریوڑ کھڑے ہیں اور کہیں زیورات کے سوداگر کے قریب اٹھکیلیاں کرتی دوشیزاؤں نے گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ چوراہے کے بیچ ایک جوان پٹکا باندھے چمڑے کے لمبے بوٹ پہنے ، ہاتھ میں چابک لئے چست و چالاک گھوڑے پر سوار ہانک لگاتا ہے کہ خریدنا ہے تو بولی لگاؤ۔ لوگ جمع ہو رہے ہیں اور اس قیمتی گھوڑے میں خریداروں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ بس یہ انتظار ہے کہ کوئی پہل کرے۔

لگا کہ سب دکانوں اور ٹھیلے والوں کی رونقیں اس گھڑ سوار گھوڑا فروش کی طرف امڈنے لگیں مگر ہمیں اس میں دلچسپی پیدا نہ ہوئی کہ خرید لیا تو باندھیں گے کہاں۔ پھر نہ جانے تین ہزار سال پرانے لوگ کون سی زبان سمجھتے ہوں اور کون سا سکہ رائج الوقت ہو۔ ہمیں تو ان خداؤں سے ملنا تھا جو مہربان تھے۔ جنہوں نے شعبے بانٹ رکھے تھے مگر آپس میں بھڑتے نہیں تھے۔

چند قدم آگے بڑھے ہوں گے کہ ایک نقرئی تخت پر سوار ایک سورما محفل جمائے بیٹھا تھا اور لوگ کورنش بجاتے اور سلام کرتے اس کے پاس سے گزرتے تھے۔ سوچا یہ کوئی امیر کبیر ہوگا۔ پوچھا میاں تم کون ہو:
” میں خوشیوں کا خدا ہوں“
” خوشیوں کا خدا۔ کیا سب خدا خوشی نہیں دیتے۔“
” یہ تم مجھ سے پوچھتے ہو“۔ وہ ہنسا اور اشارے سے ہمیں قریب بلایا۔
” ہاں ہم نے سنا ہے کہ قدیم یونان میں ہر قوت اور جذبہ کا الگ خدا تھا۔ آج آپ سے مل لئے“ ہم نے اس کی استہزائیہ بات کو پلٹنے کے لئے ٹکڑا لگایا۔
یہ بتائیے کہ آپ کا وقت تو بیت چکا پھر یہ آج یہاں کیوں براجمان ہیں۔
ہم تو یہیں رہتے ہیں۔ بس نظر نہیں آتے۔
لیکن وہ موسموں کا خدا تو اب بھی رہنمائی کرتا ہے اور موسم کا حال بتا دیتا ہے۔
” ہاں تو ہم بھی تو خوشیاں بانٹتے ہیں۔ جتنی چاہو لے لو۔“

وہ اتنی زور سے ہنسا کہ تخت ہلنے لگا اور ہم گھبرا گئے۔ سوچا کہ جس کا قہقہہ اتنا ڈراؤنا ہے، اس سے خوشی لے کر کسی مشکل میں ہی نہ پھنس جائیں۔ جلدی سے اس بولنے والے خدا سے اجازت چاہی تو اس نے کہا:
” کبھی میری ضرورت ہو تو یاد کر لینا “

اچانک احساس ہوا کہ ہم کسی بھوت نگر میں پھنس چکے ہیں۔ اچانک عجیب و غریب ہنسی اور غیر مانوس شور و ہنگام سے ہمارے کان کھڑے ہوئے اور تیز تیز قدم اٹھاتے وہاں سے باہر نکل آئے۔
کیا پتہ یہ لوگ کب تک خوشگوار موڈ میں باتیں کریں۔ غیر مہذب زمانے کے لوگ ہیں۔ ان کے رسم و رواج جانے کیا ہوں۔ اور کب خونخوار بن جائیں۔
باہر گلی میں پہنچ کر سکھ کا سانس لیا تو اندازہ ہوا کہ دل کی دھڑکن غیر معمولی طور سے تیز ہو چکی ہے۔
ٹیکسی والے سے پوچھا: ” میاں سنتاگما اسکوائر SYNTAGMA SQUARE چلو گے“۔
اس نے یوں گھورا جیسے ہم نے کوئی انہونی بات کہہ دی ہو۔ چند قدم آگے چل کر ایک بھلے مانس ڈرائیور سے وہی درخواست کی تو اس نے بتایا کہ وہاں کے تو سارے راستے بند ہیں۔ کسان اپنے مطالبات منوانے کے لئے ہڑتال کر رہے ہیں۔

یاد آیا کہ صبح ہوٹل کے کمرے کے باہر ایک معلوماتی پمفلٹ ملا تو تھا مگر ہم نے اسے پڑھنا مناسب نہیں سمجھا۔
ہانپتے کانپتے منزل مارتے بالآخر ہم منزل مقصود کے قریب پہنچ گئے۔ سنتاگما جانے والی سب سڑکیں پولیس نے بند کی ہوئی تھیں۔ پولیس کے دستے چوکس کھڑے تھے۔ فائر بریگیڈ اور ایمبولینس کا علیحدہ انتظام تھا۔
خوف تو طاری ہوا لیکن ہوٹل پہنچنے کا واحد راستہ جلوس اور مظاہرین کے بیچ سے ہو کر گزرتا تھا۔
مگر یہ تو احتجاج کر رہے ہیں۔ کسی پر بھی غصہ نکال سکتے ہیں۔ ذرا اور قریب ہوئے تو بڑے بڑے اسپیکروں پر نعرے لگائے جا رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد رزمیہ موسیقی نے فضا کو معمور کر دیا۔

”یہ کیسا احتجاج ہے“
”حکومت کو مجبور کرنا ہے کہ وہ یورپین یونین کی ناجائز شرائط مان کر اس ملک کے کسانوں اور محنت کشوں کی زندگی کو اجیرن نہ بنائے“
”مگر تمہارے پاس تو اتنے خدا ہیں۔ ان سے مانگ لو“

عجلت میں یہ جملہ منہ سے پھسل گیا۔ نعرے لگاتا کسان ہماری بات سنے بغیر جلوس میں شامل ہو چکا تھا۔
لیکن کسی نے ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔
گھوم کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ مگر ہاتھ کاندھے پر دھرا تھا۔ خوفزدہ ہو کر سوچا کہ کہیں کوئی آسیب تو پیچھ نہیں پڑ گیا۔ آخر ہم بھوت نگر سے ہو کر آئے ہیں۔
” نہیں۔ تم پر کسی کا اثر نہیں ہے۔ میں ہوں خوشیوں کا خدا “
” تم نظر کیوں نہیں آتے“
” میں نے کہا تھا کہ ہم دکھائی نہیں دیتے۔ وہ تو تم ہماری سبھا میں چلے آئے تھے تو مہمان نوازی کی خاطر تمہیں مل لئے“
” تو میرے پیچھے کیوں پڑے ہو۔ جاؤ خوشیاں بانٹو۔ یہ لوگ محروم اور بے چین ہیں۔ انہیں خوش کر دو“

وہ ہنسا۔ مگر اس بار اس کی ہنسی میں معصومیت تھی۔ جیسے وہ ہماری حماقت پر ہنس پڑا ہو۔
” خوشی دی نہیں جاتی۔ لی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حق لیا جاتا ہے۔ ترقی کے لئے محنت کی جاتی ہے۔ آگے بڑھنے کے لئے قدم اٹھایا جاتا ہے۔ خوشی اور اطمینان تو ہر آدمی کے اندر ہوتا ہے۔
دیکھو وہ سارے قدم ملائے چل رہے ہیں۔ ان کا راستہ کھوٹا نہیں ہو سکتا۔ انہیں میری کیا ضرورت ہے۔ خوشی تو ان کی دسترس میں ہے “۔

Advertisements
julia rana solicitors

” تو تم کیا دیتے ہو“ جھنجلا کر پوچھا
مگر ہمارے کندھے کا بوجھ ختم ہو چکا تھا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply