• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • راولپنڈی سازش کیس اور سید سجاد ظہیر کی گرفتاری کا قصہ(حصّہ اوّل)۔۔احمد سہیل

راولپنڈی سازش کیس اور سید سجاد ظہیر کی گرفتاری کا قصہ(حصّہ اوّل)۔۔احمد سہیل

“ادبی اور نظریاتی کمالات اور کچھ دلچسپ واقعات اور حقائق “
مرقع ذات :
سید سجاد ظہیر (1904- 1973) پاکستان کے نامور اردو ادیب، انقلابی اور مارکسی دانشور تھے۔
نومبر 5، 1905 کو ریاست اودھ کے چیف جسٹس سر وزیر خاں کے گھر پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ادب پڑھنے کے بعد والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے برطانیہ جاکر آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور بیرسٹر بن کر لوٹے۔ یہاں انہوں نے قانون کے ساتھ ادب کا بھی مطالعہ کیا۔

سجاد ظہیر، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی ممبران میں سے تھے۔ بعد ازاں 1948ء میں انہوں نے فیض احمد فیض کے ساتھ مل کر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ دونوں رہنما بعد میں راولپنڈی سازش کیس کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ محمد حسین عطا اور ظفراللہ پشنی سمیت کئی افراد اس مقدمے میں گرفتار ہوئے۔ میجر جنرل اکبر خان اس سازش کے مبینہ سرغنہ تھے۔ 1954ء میں انہیں بھارت جلاوطن کر دیا گیا۔ وہاں انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین، انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن اور ایفرو ایشین رائٹرز ایسوسی ایشن کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔

سجاد ظہیر نا صرف ان تینوں تنظیموں کے روح رواں تھے بلکہ ان کے بانیوں میں سے تھے۔ انہوں نے اردو میں پہلا مارکسی ادبی جریدہ ’چنگاری ‘ سوہن سنگھ جوش کے ساتھ مل کر شروع کیا اور سن 1935 میں ’لندن ‘ کی ایک رات نام کی ناول اور ’نقوش زنداں‘ ( جیل سے اپنی اہلیہ کو لکھے خطوط) مجموعہ سن 1940 میں شائع کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’روشنائی( 1956 )‘ ، ’ذکر حافظ (1958)‘، شاعری کا مجموعہ ’پگھلتے نیلم (1964)‘ جیسی کتابوں کے مصنف ہیں۔

1940 کا سال ہندوستان میں سیاسی سطح پر یہ سال برصغیر کے لیے خاصا ہنگامہ خیز رہا۔ مسلم لیگ، جو مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت بن چُکی تھی، ’’قراردادِ لاہور‘‘ کے ذریعے ایک واضح نصب العین پر گامزن ہو چلی تھی۔ اُس کے سالارِ کارواں، قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ سجّاد ظہیر سیاسی، معاشرتی اور ادبی محاذ پر بہت متحرّک تھے۔ انگریزوں کے خلاف اُنہوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں اُنہیں دو برس کے لیے قید و بند کی صعوبتوں کا شکار رہنا پڑا۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کرتے رہے۔

ترقی پسند کانفرنس کے تحت ’’تیسری کُل ہند کانفرنس‘‘ کا انعقاد 1942 ء کی ہنگامہ خیز فضا میں ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے باعث بین الاقوامی سیاسی حالات بہت نازک تھے۔ ترقی پسند شعراء اور ادیب تو پہلے ہی ظلم و بربریت اور جبر و ناانصافی کے خلاف صف آراء تھے، اس کانفرنس کا خاص پہلو مگر یہ تھا کہ اس میں وہ شعراء اور ادیب بھی شریک ہوئے، جو ’’ حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ سے منسلک تھے، جیسا کہ ن۔ م راشد، میرا جی، قیوم نظر وغیرہ۔

ان ہی کے پہلو بہ پہلو ترقی پسند ادب اور ادیبوں پر تنقید بھی کی جاتی رہی۔ جعفر علی خاں، اثرؔ لکھنوی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اس ضمن میں بہت سے مضامین تحریر کیے۔1947ء برّصغیر کی گزشتہ ہزار سالہ تاریخ کا شاید سب سے ہنگامہ خیز سال تھا۔ ہندوستان تقسیم ہوا۔

پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور تاریخ کی چند عظیم ترین ہجرتوں میں سے ایک ہجرت عمل میں آئی۔ آگ اور خون کے دریا عبور کیے گئے۔اسی سال سجّاد ظہیر کی کتاب ’’اُردو، ہندی، ہندوستانی (لسانی مسئلہ)‘‘بھی شایع ہوئی۔تو متنازعہ تو تھی مگر اس کتاب نے کچھ سوالات سامنے رکھے جو آج بھی تازہ لگتے ہیں۔ جن پر کم توجو دی جاتی ہے۔

1948 میں سجاد ظہیر { بنّے بھائی} نے فیض احمد فیض کے ساتھ ملکر لاہور میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کو تشکیل دیا اور اس کے معتمدی عمومی { جنرل سکریٹری} چنے گئے۔ مگر اس پارٹی پر حکومت پاکستان نے پابندی لگادی۔ گرفتاری کے خوف سے سجاد ظہیر روپوش ہوگئے۔ 1951 میں راولپنڈی سازش کیس ہوا جس میں، بہت سے فوجی افسران میجر جزل اکبر علی خان، میجر محمد یوسف سیٹھی، کپٹن پوسنی، برگیڈئر ایم اے لطیف خان، کرنل محمد صدیق راجہ، کیپٹن  نیاز احمد ارباب، کرنل ضیا الدین، کپٹن حسن علی، لیفٹنٹ کرنل نذیر احمد، گروپ کپٹن محمد خان جنجوعہ اورمیجر خواجہ شریف اور سویلین لوگوں میں سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، زعیم ،نقیب، محمد حسن عطا، غیور احمد ، بیگم نسیم شاہنوا زخان { میجر جزل اکبر علی خان کی اہلیہ}زیر زمین چلے گئے۔بعد میں زعیمِ نقیب صدیق راجہ اور میجر محمد یوسف سیٹھی کو معاونتِ سازش كے الزام پر ریاست کی طرف سے معافی بھی مل گئی۔ پاکستان کے خفیہ اداروں اداروں نے ان کو گرفتار کرنے کے لیے بڑی جان ماری مگر یہ اس کوششوں میں ناکام رہے۔

جب راولپنڈی سازش کیس کا مقدمہ چلنا شروع ہوا۔ تو حکومت پاکستان نے ان لوگوں کی گرفتاری کے لیے اس وقت کے کے پنجاب کے انسپکٹر جزل خان قربان علی خان قربان کو خصوصی ذمہ داریاں سونپی۔ اور انھیں ان ملک دشمن اور کمیونسٹوں کو جلد از جلد ہر قیمت پر گرفتاری کرنے کا حکم کردیا گیا۔ تو قربان علی نے انسپکٹر چوہدری محد اصغر کو سجاد ظہیر کو ایک ہفتے کے اندر گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان سے کہا کہ اگر سجاد ظہیر کو نہیں پکڑا تو تم کو ملازمت سے برخاست کردیا جائے گا ” ۔ پھر انسپکٹر چوہدری محمد اصغر نے فورا ً کاروائی شروع کردی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply