نامِ علی

ہماراا میر دلائل سے بالا ہے۔ دلائل اس کے حق میں ہیں، لیکن یہ ان دلائل کی سعادت ہے کہ وہ ان سے منسوب ہیں۔ کعبہ کا آپ کی ولادت سے منسوب شکستہ کونہ ، باقی مکمل کونوں سے زیادہ سوہناہے۔ یہ سعادت شیر کی ہے کہ وہ آپ کے نام سے منسوب ہے۔ آدمِِ خاکی نازاں ہے آپ کی بو ترابی پر۔ نفس مطمنہ کے نصیب جاگے جب وہ ہجرت کی شب اطمینان سے سو گیا۔ وہ جب اپنے چہرے پر تھوکنے والے دشمن کو بخش کر اُس کے سینے سے اترا تو شجاعت سے بربریت کی تہمت بھی اتر گئی۔ اس کے فیصلوں پر نبوتﷺ کا فیصلہ آیا ، اقضا کُم علی! داؤد اور جالوت کے مقابلے کو خیبر کی دوسری دھار مل گئی۔

ہمارے نصاب سے فکری نشوو نما پانے والے زورِ حیدر سے پرے شاید نہیں دیکھ پاتے۔ فقر میں سخاوت، کلام میں بلاغت۔ فرمایا” اگر مسند بچھا دی جائے تو اہل توریت کے فیصلے توریت سے، انجیل کے ماننے والوں کے تصفیے انجیل سے اور مسلمانوں کے مسائل قرآن سے حل کروں”۔ Jurisprudence آپ کے آگے خجل ہے۔ حضرتِ عمرؓ نے آپ سے ایک ملزمہ کی بابت پوچھا جسے بیاہ کے چھ ماہ بعد ہی تولد ہو گیا۔ امام نے قران کریم کی دو آیات سے فیصلہ نکال لیا، کہ جن میں ایک میں والدہ کو حکم ہوا کہ دو سال یعنی چو بیس ماہ دودھ پلائیں اور دوسری آیت جہاں اولاد کو والدہ کی تیس ماہ کی مشقت اور خدمت کی یاد دہانی کرائی گئی۔ تیس ماہ کی اس مشقت میں سے دودھ پلانے کے چوبیس ماہ نکالے جائیں تو چھ ماہ بچے۔۔ یعنی چھ ماہ میں تولد ممکن ہے اور اس بنا پر بد کاری کا الزام نہیں بنتا۔ فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا، علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسی شاید ان گنت مثالیں مل جائیں لیکن ہمیں نہیں درکار۔ افتخار عارف نےلکھتے ہیں ” نجانے ہم بے یقین لوگوں کو نامِِ حیدر سے قرار کیوں ہے”۔۔ سچ ہے۔!لیکن ہم اس نجانے کا جواب بھی نہیں چاہتے۔ ہماراا میر دلائل سے بالا ہے۔ اس سے منسوب ہر اچھائی نے خود اپنی معراج پائی۔سب دوستوں کو ۳۱ رجب مبارک۔

Facebook Comments

کاشف محمود
طالب علم ہونا باعث افتخار ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply