موسیقی کے اسرار و رموز/محمد حسنین اشرف

خیال ہوتا ہے جیسے موسیقی، زندگی کے چل چلاؤ میں ایک بیک گروانڈ میوزک کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ میرا ہندی سنیما کا مطالعہ صفر ہے لیکن شاید موسیقی کی اس پائمالی میں ہندی سنیما نے جو کردار ادا کیا اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ دو گھنٹے کی فلم میں چھ گانے، چلتی کہانی کے بیچ کا ربط برقرار رکھنے، طوالت سے بچانے اور مابین السطور معاملات نمٹانے کے لیے استعمال ہونے لگے۔ جنہیں بعد ازاں کاٹ پیٹ کر ریڈیو کی نذر بھی کردیا جاتا۔ حالانکہ موسیقی، کہانی اور قصے کے بیان کرنے کا ایک مسقتل ذریعہ ہے یہ کہانی کا ربط برقرار رکھنے  کا محض آلہ نہیں ہے۔ یہاں موسیقی سے مراد ساز و آواز دونوں ہیں، مجرد ساز بھی کہانی کے مکمل بیان پر پوری دسترس رکھتے ہیں لیکن سردست صرف ساز و آواز کے سنگم سے پیدا ہونے والے سنگیت تک محدود رہیے۔

کسی بھی کہانی کے بیان اور منظر کشی کے لیے قریب قریب تمام واسطے موزوں ہیں۔ نثر طوالت کا لطف دیتی ہے، قاری کو مصنف کے ہمراہ ان گلیوں میں پھراتی ہے جہاں وہ کبھی نہیں گیا (آپ روس میں قدم رکھے بغیر ماسکو کے پب میں رسکونکوف کے ہمراہ اس بیوڑے چچا سے باتیں کرسکتے ہیں جس کی بیوی کو پیٹا گیا)۔ شعر تصویر مکمل کرکے بھی اتنی گنجائش چھوڑ دیتا ہے کہ پڑھنے والا خود خالی جگہیں بنا سکے اور پھر سے انہیں پُر کرے۔ پینٹنگ کا معاملہ اس سے آگے بڑھ کر ہے۔ پینٹنگ پر منظر موجود ہوتا ہے، رنگ اور جذبے دیکھنے والے کی آنکھ دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔ آپ ایک گیلری میں گھنٹوں ایک تصویر کے سامنے کھڑے اپنی خالی جگہیں پُر کرسکتے ہیں، اس مکمل تصویر سے ایک اور (آدھی ادھوری یا مکمل) تصویر اپنے ذہن میں بنا سکتے ہیں۔ اس سب میں موسیقی کی جو شکل ابھر کر سامنے آتی ہے وہ ایک آلے کی ہے جو بس اشعار کو ساز کے سنجوگ سے مزید قابل قبول بنا دے یا قاری کو یہ سہولت دے کہ دیگر کام نمٹاتے اگر بوریت محسوس کر رہا ہے تو وہ کچھ لگا لے یا اگر وہ کسی سفر میں ہے تو قدرت کے مناظر سے لطف اندوز ہورہا ہے تو کچھ سن بھی لے۔ یہی معاملہ ان محافل کا بھی ہے جو موسیقی کے لیے سجائی جاتی ہیں۔ وہاں بھی موسیقی ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہے اصلا ًمقصود دیگر کام نمٹانا ہے۔ یوں (خیال ہوتا ہے، میں ہرگز یہ جرات نہیں کروں گا ورنہ لوگ میرا منہ نوچ لیں) موسیقی جیسے آرٹ سے بے دخل ہوتی جا رہی ہے اور اب اس کی حیثیت ایک خادمہ کی سی ہے۔ جو قصہ گوئی کی بجائے دیگر کاموں میں زیادہ مصروف ہے (جن میں سے چند کا ذکر اوپر موجود ہے)۔

اس بے دخلی میں غالباً سب سے زیادہ کردار اسی سنیما نے ادا کیا ہے۔ وقت کی تیز رفتاری  نے بیچاری موسیقی کو ایسا کچلا کہ اب اس کے پاس مستقل کہانی سنانے کا وقت نہیں، بس پہلے سے چلتی کہانی میں موجود جذبات کو ابھارنے کے کام آسکتی ہے۔ اسی لیے موسیقی کو محفل سے اٹھا کر اسٹوڈیو میں بٹھا دیا گیا ہے۔ کیونکہ شاید ہمیں یہ غلط فہمی ہے کہ مشاعرہ، شاعر اس لیے کراتے ہیں تاکہ ان کی غزلیں سبز ہوں اور عوام گدھوں کے مانند واہ واہ کرنے لگے۔ یہی مشاعرہ لوٹ لینا بھی ہوا۔ حالانکہ ان دونوں کا مقصد سامع کو اتنا وقت دینا تھا کہ وہ شعر سنے، اس کی بیان کردہ کہانی کو سنے اور پھر ‘مکرر’ کہے اور واہ کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیسے ایک پینٹنگ، یہ فرصت مانگتی ہے کہ اسے سراہنے کو تم دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر، برش کے ہر اسٹروک پر نظر کرو۔ اسی طرح موسیقی ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ کہانی کے ہر موڑ پر، اس احساس کو محسوس کرو جو شعر اور ساز منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ موسیقار کو یہ وقت دیا جائے۔ یہ سب بھی فرصت اور وقت مانگتا ہے۔ موسیقی کی اس شکل کو بھی باقی رہنا چاہیے تاکہ فرصت میں، کچھ کہانیاں ساز کے سنگ سننے کے مواقع رہیں۔ اگر آپ وقت کی رکاب تھام کر اسے کچھ دیر روک لیں اور کوئی کسی آہنگ کو یہ موقع دیں کہ وہ نثر نگار کی طرح آپ کو گلی گلی گھمائے اور مصور کے  مانند ایک تصویر میں کئی منظر دکھائے تو کبھی یہ موقع کسی سنگیت کار کو دیجیے۔ پھر دیکھیے کہ کیا آپ موسیقی سے ویسے ہی واقف رہتے ہیں جیسے اس سے قبل واقف تھے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply