انسانی المیوں میں سب سے بڑا المیہ کیا ہے. انسان کی وجہ اشرفیت عقل کو گروی رکھ دینا. ایمان, مال اور جان کا گروی ہو جانا اس کا منطقی نتیجہ کہ انسان کو اس کی عقل ہی قابو کرتی ہے. یہ گروی فلسفہ مذہب میں ہو تو تصوف و الحاد, توحید میں ہو تو شرک, فقہ میں ہو تو ملائیت و جمود, عبادت میں ہو تو بدعت, قرآن میں ہو تو نظم سے انکار, حدیث میں ہو تو سند پرستی, محبت میں ہو تو عشق, سیاست میں ہو تو گروہی تعصب, سماج میں ہو تو ظالمانہ رسوم اور تاریخ میں ہو تو شیعیت کا روپ دھارتی ہے.
یہ اتنا آہم وصف ہے کہ خدا نے اپنے آخری الہامی کلام میں اس کو حق و باطل کی کسوٹی قرار دیا. انسانی نفس و آفاق پر اس کی گواہی دی. فطرت کا شعور اس کو بخشا. جبلت, خواہش اور جذبات پر حکمراں بنایا. احکامات کا مکلف ٹھہرایا. اتنی اہمیت کے بعد اس کو مفلوج کرنے کا عمل سب سے بڑا جرم ہے. چاہے اس کی صورت کچھ بھی ہو. وہ مذہب کے نام پر ہو یا فلسفے کے نام پر. روایت کے نام پر ہو یا جدت کے نام سے. اصول کے نام پر ہو یا فرع کے نام سے. جامعہ میں ہو یا مدرسہ میں. مسجد میں ہو یا خانقاہ میں. منبر پر ہو یا عدالت میں. مولوی ہو یا پیر. استاد ہو یا مصلح. رہنما ہو یا پیروکار. ہر ذریعہ کے سدباب کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہے.
خانقاہی نظام میں اس کی صورت یوں زیادہ خطرناک ہے کہ یہاں بارگاہ میں قبولیت کی بنیاد و شرط اول ہی اپنی عقل کو پیر کے سامنے ختم کرنا ہے. جب تک آپ اپنے مرشد کے فہم میں اپنا شعور مدغم نہ کر لیں آپ سلوک ( تصوف کے مقامات کا سفر ) کی منزل پر پہلا قدم نہیں اٹھا سکتے. اس شرط کے بعد آپ کو بلاامتیاز مذہب اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ آپ نے بہت کم کسی سلسلہ تصوف کے خلیفہ کو اپنے مرشد کے طریقے سے انحراف کرتے دیکھا ہوگا. نیز مشہور اولیا کے مریدین میں ہندو بھی اسی جوش و خروش سے موجود رہے ہیں اور آج بھی ان کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں۔ اس دنیا میں خوبی و خامی کا تمام تر انحصار فرد واحد پر آجاتا ہے. یہ ایمانیات میں بادشاہت ہے جس کے بعد آپ کا شعور خیر و شر کلی طور پر دوسرے انسان کے اختیار میں آجاتا ہے۔ ایسا تو اللہ نے بنیادی عقائد و معاملات کو چھوڑ کر اپنے رسول کے لیے پسند نہیں کیا چہ جائیکہ کسی اور کے ہاتھ میں باگ تھما دی جائے۔ انسانی اجتماعی شعور نے سیاست میں جمہوریت کو اسی لیے متعارف کروایا کہ انسانی شعور جبر کے نظام میں نہیں پنپ سکتا. اسلام نے صدیوں پہلے مذہب میں بھی اسی اصول کو اپنایا کہ یہ انسان کی دنیوی زندگی اور فلسفے کا ناگزیر تقاضا ہے.
یہ دلیل کہ ایسے چند واقعات کی بنا پر پورے نظام کی مخالفت دانشمندی نہیں انتہائی کمزور ہے کہ روزمرہ مشاہدات اس بات کے گواہ ہیں کہ ہر لحظہ جاہل عوام درباروں پر اپنا ایمان و مال دونوں بیچتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت اس بربریت کے بعد مقامی افراد کا اس شہادت سے محروم ہونے پر دکھ کا اظہار کرنا ہے۔ خانقاہی روایت کو ختم کرنا مقصود نہیں بلکہ اس میں اصلاح کی ناگزیریت مراد ہے۔ ذرا سی تبدیلی لا کراس کوعوام الناس کی بہترین تربیت گاہ میں بدلہ جا سکتا ہے. مگرریاست کی عدم دلچسپی اور اس نظم سے جڑے ذاتی مفادات بنیادی رکاوٹ ہیں. نیت سچی ہو تو ایسا نظام وضع کیا جانا ممکن ہے جس میں انتشار کے بجائے بتدریج بہتری لائی جائے. خانقاہوں کا کنٹرول براہ راست ریاست کے اختیار میں ہے محکمہ اوقاف کے وساطت سے لیکن اس کو محض مال بٹورنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے. جب خود ارباب حل و عقد عوام کے استحصال و شعوری نمو سے بے پروا ہوں تو پھر تباہی کو کون روک سکتا ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ خانقاہ نظم میں اہل علم کو بھی شریک کیا جائے اور شرکیہ عقائد و عقیدت کے مظاہر کی حوصلہ شکنی خود خانقاہ کے منبر سے ہو. تعلیمی نظام میں شروع سے ہی بچوں کو ایسی خرافات کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ نذرانوں پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں موجود گدی نشینوں کو اس سلسلے میں متحرک کریں۔ بہشتی دروازے جیسی بدعات و خرافات کا فی الفور خاتمہ کیا جائے۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الہٰ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں، لا الہٰ الا اللہ!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں