فلیٹ ارتھ حقیقت یا افسانہ ۔۔محمد شاہزیب صدیقی/قسط11

فلیٹ ارتھرز کے 200 اعتراضات کے جوابات پرمبنی سیریز
اعتراض 171: ناسا یہ حقیقت تسلیم کرتا ہےکہ زمین کے گرد تقریباً 20 ہزار سیٹلائیٹس چکر لگانے میں مصروف ہیں، اور سیٹلائیٹس سے زمین کی لی گئی تصاویر دراصل ہماری ایڈٹ شدہ تصاویر ہیں۔اُن کا دعویٰ ہے کہ تصاویر ایک ربن کی شکل میں آتی ہیں جنہیں کمپوزٹ تصویر بنانے کےلئے ایڈٹ کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ناسا ہمیں دھوکہ دے رہا ہے۔
جواب: یہ الزام دھر دینا انتہائی بچگانہ اور مضحکہ خیز ہے کہ سیٹلائٹس کی بنائی ہوئی تصاویر CGI ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت ہوتی ہیں اور عوام الناس کو دھوکا دیا جاتاہے۔ اگر یہ سچ ہے تو انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے live broadcasting کو فلیٹ ارتھرز کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ وہ تو براہ راست گلوب زمین کو خلاء سے دِکھا رہا ہوتاہے۔
اعتراض172: ناسا کی جانب سے جاری کردہ آفیشل ویڈیوز میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ بادل اپنی شکل بدلتے دِکھائی نہیں دیتے،مثلاً گیلیو کی ٹائم لیپس ویڈیو میں 24 گھنٹے تک بادل نے اپنی شکل نہ بدلی، جو کہ ناممکن ہے۔
جواب: Weather Patterns کو اگر آپ لوکل سطح پر دیکھیں گے تو ان میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے جبکہ اگر گلوبل سطح پر دیکھیں گے تو ان میں تبدیلی بہت تیزی سے نہیں آتی۔عموماً زمین کی لائیو کوریج انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے دی جاتی ہے جہاں ایک وقت میں زمین کے مخصوص حصوں کو دیکھا جاسکتا ہے ،پوری زمین کو نہیں، اس کے علاوہ ISS انتہائی تیزی سے زمین کے اوپر محو سفر ہے سو گلوبل سطح پر بادل بہت واضح طور پر بدلتے دِکھائی نہیں دیتے۔ جبکہ اگر بات گیلیو والی ویڈیو کی کی جائے تو  اس میں بھی غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ بادل انتہائی آہستگی سے اپنا pattern بدل رہے ہیں  سو فلیٹ ارتھرز کا یہ اعتراض بھی دیگر اعتراضات کی طرح لاعملی پر مبنی ہے۔
اعتراض173: ناسا کے پاس زمین کی مبینہ طور پر کئی ایسی تصاویر موجود ہیں جن میں بادلوں کا pattern بار بار repeat ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام تصاویر کمپیوٹر کے ذریعے تخلیق کی گئی ہیں۔
جواب: ناسا کی ویب سائٹ سے کسی بھی علاقے کی سیٹلائیٹ سے کھینچی گئی تصاویر کو download کرلیں اور ان کو میچ کرکے دیکھ لیں۔ آپ کو بادلوں کے مابین فرق دِکھائی دے گا۔
اعتراض 174: ناسا کے کئی گرافکس آرٹسٹس عموماً چہرے یا دیگر الفاظ بادلوں کی ترتیب میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کی واضح مثال ہے کہ 2015ء میں پلوٹو سیارے کو جس تصویر میں دِکھایا گیا اُس کے پس منظر میں ڈزنی کارٹون کا کریکٹر پالتو کتا بھی نظر آتا ہے۔
جواب: عموماً بادلوں پر کئی لوگوں کو تصاویر یا الفاظ لکھے دِکھائی دیتے ہیں اس phenomena کو سائنس میں Pereidolia کہا جاتاہے ۔ کئی لوگوں کو تو جائے نماز اور پردے پر بھی تصاویر دِکھائی دیتی ہیں۔ سو مذکورہ اعتراض سے کسی طور یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ناسا اور دیگر خلائی ایجنسیز ہمیں دھوکا دے رہی ہیں۔پلوٹو سیارے کی تصویر میں ڈزنی کا کریکٹر کا سایہ نظر آنا بھی Pereidolia کی ہی کارستانی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ فلیٹ ارتھرز تصاویر میں سر کھپانے کے ساتھ ساتھ تھوڑا تحقیق میں بھی دھیان لگا لیتے۔
اعتراض175: ناسا کی جاری کردہ گلوب زمین کی تصاویر کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ یہ سب ایڈیٹنگ کی کارستانی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ چاند سے زمین کی جو تصاویر کھینچی گئیں ان کا contrast لیول یا brightness کم زیادہ کی جائے تو واضح معلوم ہوتا ہےکہ اِن تصاویر میں زمین کو کاپی پیسٹ کیا گیاہے۔
جواب: یہاں دوبارہ فلیٹ ارتھرز بنا کسی مستند حوالے کے من گھڑت الزامات لگانا چاہ رہے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہےکہ وہ کون سے پروفیشنلز ہیں جنہوں نے ناسا کی تصاویر کو پرکھا ہے اور اس کے بعد ان کو جھوٹا قرار دیا ہے؟یا یہ پروفیشنلز بھی دیگرسروئیرز کی طرح خیالی ہیں؟
اعتراض176: ناسا کی تصاویر کا اگر پوسٹمارٹم کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں خشکی اور آبی علاقوں کے سائز میں فرق آتا رہتا ہے جو ان کے جھوٹا ہونے کی واضح نشانی ہیں۔
جواب: زمین چونکہ اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے جس کے باعث ایسا دھوکا دیکھنے کو ملتا ہے۔مثلاًناسا کے پاس سیٹلائیٹ سے کھینچی گئیں براعظم امریکا کی مختلف تصاویر موجود ہیں اور تقریباً ہر تصویر مختلف زاویے سے کھینچی گئی ہےجس کے باعث ایسا دھوکا دیکھنے کو ملتاہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ بادشاہی مسجد کی مختلف زاویوں سے تصاویر لیں سو بادشاہی مسجد کا سائز مختلف نظر آئے گا ،اس کے بعد اگر آپ فلیٹ ارتھر ہوئے تو آپ مان لیجئے گا کہ بادشاہی مسجد بھی اس دنیا میں موجود نہیں بلکہ جھوٹ اور دھوکا ہے ۔
اعتراض177: ایک ڈاکومینٹری میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے ناسا کے ماہرین نے دھوکا دینے کے لئے محض چند میل کی اونچائی پر جہاز میں بند کھڑکی سے کیمرہ ایفیکٹ کے ذریعے زمین کو گول دِکھایا اُس دوران نیل آرمسٹرانگ کو مسلسل کیمرہ کے مطلوبہ ایفیکٹس استعمال کرنے کے لئے ہدایات دی جارہی تھیں۔
جواب: حیرانگی ہوتی ہے جب فلیٹ ارتھرز پختہ سائنسی ثبوتوں کو چھوڑ کر اپنے جیسوں کی بنائی ہوئی ڈب شدہ ڈاکومینٹریز کو بطور حوالہ پیش کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ ناسا کے چاند پر پہنچنے کے شواہد امریکا کے علاوہ دیگر ممالک روس، چین، جاپان، انڈیاتک نے دیکھنے ہیں اب اس کے جواب میں یہ کہہ دینا کہ یہ تمام ممالک بھی ناسا سے ملے ہوئے ہیں انتہائی بیوقوفانہ دلیل ہے۔
اعتراض178: گوگل ارتھ کو گول زمین کے لئے بطور دلیل استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو محض جہازوں اور گاڑیوں سے لی گئی تصاویر کو CGI ٹیکنالوجی کے ذریعے گول زمین پر فکس کرکے دِکھا یا گیا ہے جو کہ چپٹی زمین پر بھی دِکھایا جاسکتا ہے۔
جواب: گوگل ارتھ کی تمام خصوصیات گلوب زمین پر فٹ آتی ہیں چونکہ فلیٹ ارتھرز “میں نہ مانوں” والی ضد پر قائم رہتے ہیں لہٰذا جہاں اتنے مضبوط سائنسی دلائل کو ماننے سے انکار کردیا ہے وہاں گوگل ارتھ کا انکار کچھ بھی نہیں ہے۔
اعتراض179: اگر زمین واقعی گھومتا ہوا گلوب ہوتی تو ہوائی جہازوں کی مشرقی اور مغربی سمتوں میں پرواز کے دورانیے میں فرق پایا جاتا مگر ایسا نہیں ہوتا۔
اعتراض180:درمیانی عرض بلدوں پر نیویارک اور لاس اینجلس کی پروازیں اڑتی ہیں، اگر زمین واقعی گھومتا گلوب ہوتی تو جہازکے مشرق کی جانب پرواز کرتے ہوئے اگر فلائٹ 5.5 گھنٹے کی ہے تو مغرب کی جانب پرواز کرتے ہوئے فلائٹ 2.75 گھنٹے کی ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوتا۔
اعتراض181: اسی طرح ٹوکیو سے لاس اینجلس کی فلائٹ کو 10.5گھنٹے ہونے چاہیے، وہاں سے واپسی پر 5.25 گھنٹے لگنے چاہیے مگر فلائٹ کا دورانیہ 11.5 گھنٹے ہوتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین نہیں گھوم رہی۔
اعتراض182: نیویارک سے لندن کی فلائٹ کا دورانیہ 7 گھنٹے ہونا چاہیے اور وہاں سے واپسی 3.5 گھنٹے ہونی چاہیےمگر اصل میں فلائٹ کا دورانیہ 7.5گھنٹے ہوتا ہے۔
اعتراض183: شکاگو سے بوسٹن کی جانب آتے ہوئے فلائٹ کا دورانیہ 2.25 گھنٹے ہونا چاہیے، واپسی پر دورانیہ 1 گھنٹے ہونا چاہیے، لیکن فلائٹس عموماً 2.75 گھنٹے  کی ہوتی ہیں۔
اعتراض184: پیرس سے روم کی فلائٹ کا دورانیہ 2 گھنٹے ہونا چاہیے اور واپسی پر دورانیہ 1 گھنٹے ہونا چاہیے۔ مگر فلائٹس عموماً 2 گھنٹے 10 منٹ کی ہوتی ہیں۔
جواب179تا184: ہم شروعاتی اقساط میں اس متعلق انتہائی تفصیل سے سمجھ چکے ہیں کہ جہاز، بادل، ہوائیں الغرض سب کچھ زمین کے فریم آف ریفرنس میں زمین کے ساتھ گھوم رہا ہےسو فلیٹ ارتھرز نے یہاں پر انہی اعتراضات کو نئی پیکنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اعتراض185:سڑک پر 75 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی گاڑی ہو یا 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی گاڑی، اس میں بیٹھ کر اس کے چلنے کو بند آنکھوں سے بھی محسوس کیا جاسکتا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ زمین ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے ، سورج کے گرد بھی چکر لگارہی ہے، نہ آواز آتی ہے، نہ محسوس ہوتا ہے۔
جواب: گاڑی ہمیں چلتی ہوئی اسی خاطر محسوس ہوتی ہے کہ روڈ پر کھڈے  بھی ہوتے ہیں اور روڈ ناہموار بھی ہوتی ہے۔ خلاء کا موازنہ ایک روڈ سے کرنا انتہائی احمقانہ دلیل ہے۔
اعتراض186: ایسے افراد جن کو motion sicknessہوتی ہے وہ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں کسی بھی حرکت سے بے چین ہوجاتے ہیں چاہے لفٹ میں سوار ہو یا گاڑی میں بیٹھے ہو۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی تیز رفتاری سے گھومتی زمین کا ان پر اثر نہیں پڑتا ۔اس سے ثابت ہوتا ہےکہ زمین کی کوئی گردش نہیں ہے۔
جواب: موشن سیکنس سے متاثر لوگ عموماً اپنے آس پاس ماحول کی حرکت تبدیل ہونے سے بے چین ہوجاتے ہیں جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ زمین اپنی کشش ثقل اور فریم آف ریفرنس  کے باعث تمام چیزوں کو اپنے ساتھ لیے گھوم رہی ہے جس کی وجہ سے اس کی حرکت کا احساس نہیں ہوپاتا،اس کے علاوہ اتنی وسیع و عریض زمین کا لفٹ یا گاڑی سے موازنہ کروانا ہی فلیٹ ارتھرز کی ذہنی سطح سمجھنے کے لئے کافی ہے۔
اعتراض187: تھرموڈائنامکس کا دوسرا قانون  جوکہ Entropyہے اگر اس کو سمجھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زمین مسلسل گھومنے کی وجہ سے رگڑ کھائے گی اورآہستہ آہستہ رکنے لگے گی جس کے باعث دن لمبے ہوجائیں گے مگر آج تک ایسا محسوس نہیں کیا جاسکا جس سے معلوم ہوتا ہے زمین گھومتا گلوب نہیں بلکہ ساکن ہے۔
جواب: چونکہ خلاء میں کوئی ہوا نہیں اس خاطر کسی “رگڑ” کا تصور بھی پیدا نہیں ہوتا، بہرحال زمین ہمارے چاند کی کشش ثقل کے باعث آہستہ ہوتی جارہی ہے، جس کے باعث ہر سو سال بعد دن 1.7 ملی سیکنڈز لمبے ہورہے ہیں۔ سو ثابت ہوتا ہے کہ زمین آہستہ ہورہی ہے مگر رگڑ کے باعث نہیں بلکہ چاند کی کشش ثقل کے باعث، اگر چاند نہ ہوتا تو زمین کے گھومنے کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہےکہ ہمارا دن 24 گھنٹے کی بجائے 6 گھنٹے کا ہوتا۔
اعتراض188:پہلے ناسا نے کہا کہ زمین مکمل طور پر Sphere ہے، پھر کہا کہ Oblate Spheroid ہے ، پھر کہا کہ ناشپاتی جیسی ہے۔ یہ ناسا کی بدقسمتی ہے کہ ان کی کسی بھی آفیشل تصویر میں زمین نہ تو Oblate Spheroid ہے نہ ہی ناشپاتی جیسی۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ ناسا CGIٹیکنالوجی کے تحت زمین کو Sphere دِکھاتی ہے۔
جواب: فلیٹ ارتھرزکو تاریخ کا صحیح مطالعہ کرناچاہیے،زمین کو Oblate Spheroid ناسا نے نہیں بلکہ کئی سو سال پہلے نیوٹن نے کہا تھا، یہ سچ ہے کہ اگر زمین کا انتہائی باریک بینی سے معائنہ کیا جائے تو چونکہ شمالی کرہ جنوبی کرہ سے تھوڑا ساچھوٹا ہے جس وجہ سے اسے ناشپاتی کی شکل کا کہا گیا، مگر یہ فرق اتنا اتنا معمولی ہے کہ بظاہر دیکھنے میں sphere ہی نظر آتی ہے۔
اعتراض189:مذہبی کتابوں میں زمین کے ساکن ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔
جواب: قرآن مجید کے علاوہ دیگر آسمانی کتابوں میں تحریف کردی گئی ہے لہٰذا ان کا حوالہ بہت زیادہ مستند نہیں مانا جاسکتا۔مسلمانوں نے ساکن زمین کا نظریہ عیسائیوں سے ادھار لیا ہے بعدازاں اسے قرآن مجید سے بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ، لیکن جدید سائنس سے آشنا علماء کسی صورت زمین کو ساکن تصور نہیں کرتےاور نہ ہی اس کو قرآن مجید سے ثابت کرتے ہیں۔
اعتراض190: تاریخ میں موجود دنیا کی تمام تہذیبوں نے زمین کو مرکزِ کائنات ، فلیٹ اور ساکن مانا۔فیثا غورث نے جب زمین کے گلوب ہونے کا خیال پیش کیا تو اس کے 2 ہزار سال بعد تک بھی تمام تہذیب زمین کو فلیٹ ہی مانتی رہیں، بعد میں کاپرنیکس نے ہیلیو سنٹرک تھیوری (زمین کے سورج کے گرد گھومنے) کے نظریے کی بنیاد رکھی۔
جواب: چونکہ فلیٹ ارتھرز جدید سائنس کو فراڈ سمجھ کر 2 ہزار سال پرانے دور میں رہنا چاہتے ہیں اس خاطر ایسے اعتراضات کرتے ہیں۔ 2 ہزار سال پہلے انسان کچھ بھی نہیں جانتا تھا، آج انسان ترقی کے جس زینے پر پہنچا اس میں بہت محنتیں، بہت ریاضتیں کی گئی۔ ان سب محنتوں اور ریاضتوں کو ایک لمحے میں ٹھکرا کا اپنے فرسودہ اور بوسیدہ خیالات کو سچ کہتے رہنا کہاں کی عقلی دلیل ہے۔
جاری ہے!
قسط نمبر 10 میں موجود اعتراضات کے جوابات پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے شکریہ
https://www.mukaalma.com/24512

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فلیٹ ارتھ حقیقت یا افسانہ ۔۔محمد شاہزیب صدیقی/قسط11

Leave a Reply