فلیٹ ارتھ حقیقت یا افسانہ؟۔۔محمد شاہزیب صدیقی/آخری قسط

(فلیٹ ارتھرز کے 200 اعتراضات کے جوابات پرمبنی سیریز)
اعتراض191:تمام سائنسدان فری میسن تھے، ناسا کے ڈائریکٹرز تک سب فری میسنز ہیں دراصل زمین کےگول ہونے اور گردش کرنے کا نظریہ بھی فری میسنز کا تھا۔
جواب: فیثا غورث (جس نے 2 ہزار سال پہلے گول اور گردش کرتی ہوئی زمین کے متعلق بتایا اُس) سے لیکر آج تک تمام سائنسدانوں کو بنا کسی ثبوت کے ایک ہی سانس میں فری میسن کا آلہ کار قرار دے دینا فلیٹ ارتھرز کی ذہنی پستی اور بوکھلاہٹ کی کھُلی نشانی ہے۔ ان کے اِس موقف سے مجھے  کوئی خاص حیرانگی اس خاطر نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے اپنے سے اختلاف کرنے والے ہر شخص پر بلا رنگ و نسل و مذہب کی تفریق کے یہ الزام لگایا اور آج بھی لگاتے ہیں، جس سے  معلوم ہوتا ہے کہ فلیٹ ارتھرز کنویں کے مینڈک بننے میں خوش رہتے ہیں، انہیں حقیقت کا سامنا کرنا پڑے تو گٹھیا الزامات کی اوٹ میں چھپ جاتے ہیں ۔

اعتراض192: فیثا غورث اور نیوٹن جیسوں تک نے کہا کہ زمین کے گھومنے کو کبھی ثابت نہیں کیا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ رائل آف انگلینڈ کے ایک ماہر نے کہا :”یہ مسئلہ اب بہت پیچیدہ ناگہانی کی حالت میں پھنس گیا ہے اور میں اس کا بہت مشکور ہوں گا جو مجھے اس سے نکالے گا”

جواب: یہاں پر فلیٹ ارتھرز دوغلے پن کی انتہاء کررہے ہیں، یعنی ایک طرف ان تمام سائنسدانوں کو فری میسن کا آلہ کار بھی مانتے ہیں اور دوسری جانب ان کے اقوال کو مان کربطورِ ثبوت بھی نقل کررہے ہیں،نیوٹن کا ایسا کوئی قول نہیں ملا، بہرحال یہ ہوسکتا ہے کہ فیثا غورث اور نیوٹن کے دور میں وسائل کی کمی کے باعث ایسا سوچا جاتا ہو، مگر جدید دور میں تمام وسائل بآسانی میسر ہیں اور زمین ہر طرح سے گلوب ثابت ہوچکی ہے۔ رائل آف انگلینڈ کے جس “ماہر” کا یہاں ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے وہ خود ایک فلیٹ ارتھر تھا اور سائنس کا ناقد تھا، اگر آج وہ زندہ ہوتا تو یقیناً گلوب زمین کے ثبوت دیکھ کر وہ مزید جہالت میں نہ رہتا اور سائنسدانوں کا شکریہ ادا کرتا ۔

اعتراض193: کوئی بھی بچہ یا ایسا شخص جس نے پی ایچ ڈی نہیں کی ہوئی ، وہ اپنے آس پاس کے حالات اور مشاہدات کو دیکھ کر کبھی یقین نہیں کرے گا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہےیا  زمین گلوب ہے وغیرہ وغیرہ
جواب: اگر ایک بچے اور سائنسدان کے مقابلے میں آپ بچے کی عقل کو زیادہ ریٹنگ دے رہے ہیں تو آپ کو اپنا علاج کروانے کی ضرورت ہے۔یہ اعتراض بھی انتہائی بودا ہے کہ جدید سائنس جو کچھ کہتی ہے وہ ہمارے ذہنوں میں ایک پروپیگنڈے کے ذریعے فیڈ کیا گیا ہے۔ کیا 2 ہزار سال سے کی جانے والی تحقیق پروپیگنڈا ہے؟ یاد رہے ہزاروں سال پہلے انسان زمین کو فلیٹ اور ساکن مانتا تھا لیکن سائنسدانوں نے اسے کبھی پروپیگنڈے سے تعبیر نہیں کیا کیونکہ اس وقت کے وسائل اور علم کے مطابق یہی معلوم ہوتا تھا۔ اس کی مثال ایسے سمجھیے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے انسانوں میں جراثیم کا تصور موجود نہیں تھا، آج سائنس نے جراثیم کا تصور ہمیں دیا اور ثابت کیا کہ unicellular جاندار بھی موجود ہیں۔ اب اگر یہ سب پروپیگنڈا ہے تو مجھے یقین ہے کہ فلیٹ ارتھرز اس پروپیگنڈے پر ایمان لاتے ہوئے روزانہ اچھے اور مہنگے صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں تاکہ بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکے ، حالانکہ آنکھوں سے جراثیموں کو فلیٹ ارتھرز نے بھی نہیں دیکھا پھر یہاں پر سائنس کے کہے کو کیوں مانتے ہیں؟

اعتراض194: ایک ڈاکٹر ڈیوڈ وارڈلاء سکاٹ لکھتا ہے (جس کا لُبِ لباب یہ ہے) کہ مجھے یاد ہے جب میں بچہ تھا تب میں اپنے استاد سے پوچھتا تھا کہ زمین اتنا زیادہ پانی لے کر سورج کے گرد کیسے گھوم رہی ہے ،تو استاد مجھے بتاتا تھا کہ نیوٹن کی گریوٹی نے ہمیں بچا رکھا ہے، یہ ایسے ہے جیسے آپ سر پر بالٹی رکھ کر چلو تو اس میں سے پانی نہیں گرے گا، جب میں بڑا ہوا تو میرے ذہن میں آیا کہ بالٹی تو بند برتن ہوتا ہے جبکہ زمین تو کھلی ہے اور انتہائی تیزی سے گردش میں مصروف ہےجس میں پانی کا ایسے محفوظ رہنا ناممکن ہے۔
جواب: مذکورہ لکھاری کے ساتھ فلیٹ ارتھرز نے ڈاکٹر کا لفظ لگا کر اپنے اعتراض کو بھاری رکھنے کی ناکام کوشش کی ہے، یہ صاحب ڈاکٹر نہیں ہیں صرف ایک لکھاری ہیں،اس کے علاوہ  فلیٹ ارتھر ہیں اور ان کے دعوے پڑھ پر سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ صاحب فزکس سے مکمل طور پر لاعلم ہیں، سو یہ اعتراض بھی مکمل طور پر جھوٹ کا پلندہ ہے ۔

اعتراض195: اگر ہم ٹینس بال لیں اور اس پر پانی گرائیں تو آپ دیکھیں گے کہ بال کے اطراف سے پانی نیچے زمین کی جانب بہہ جائے گا سو اس تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین گول نہیں ورنہ اطراف سے پانی بہہ جاتاہے۔ سائنسدان یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ کون سی جادوئی کشش ثقل نامی فورس ہےجو زمین پر موجود ہے اور سمندروں کو جکڑے رکھے ہے۔
جواب: کشش ثقل کے متعلق انسان کو 400 سال پہلے علم ہوچکا ہے ، اور اب اس کے متعلق ٹھیک ٹھیک calculations بھی موجود ہیں، کشش ثقل ہر چیز میں موجود ہے آپ میں بھی ہے اور میرے میں بھی ہے، ایک ٹینس بال میں بھی موجود ہے اور اس کی طاقت کے متعلق ہم ریاضی کی مساوات کے ذریعے جان بھی سکتے ہیں، مگر آپ میں ،مجھ میں یا ٹینس بال میں اتنی زیادہ کشش ثقل موجود نہیں کہ اپنے آس پاس کی اشیاء کو جکڑ سکیں، ہمیں 200 سال پہلے کیا جانے والا Cavendishتجربہ یاد رکھنا چاہیے جس میں لیبارٹری کے اندر سائنسدانوں نے 2 چیزوں کے درمیان کشش ثقل کی شدت دریافت کی تھی سو ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہےکہ  مذکورہ اعتراض بھی انتہائی بودا ہے ،اتنی وسیع و عریض زمین کا  ایک ٹینس بال سے موازنہ کرواکر فلیٹ ارتھرز اپنی لاعملی کے ثبوت فراہم کررہے ہیں۔

اعتراض196:مارشل ہال لکھتا ہےکہ سورج چاند اور ستارے صدیوں سے وہی کرتے آئے ہیں جو ہم ان کو کرتا دیکھ رہے ہیں،کیوں نہ ہم اس پر یقین کریں جو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں بجائے اس کے کہ جو یہ جعلی نظام (سائنس) ہمیں بتاتی ہے۔اگر یہ سب سچ ہوتا تو ہمیں زمین کے اپنے مدار اور سورج کے گرد گھومنے، سورج کے بلیک ہول کے گرد گھومنے کے متعلق محسوس کیوں نہیں ہوپاتا۔
جواب: ایسے اعتراضات کا پچھلی اقساط میں کئی بار جواب دیا جاچکاہے۔ فلیٹ ارتھرز اپنے سابقہ اعتراضات کو ہی دہرا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :  فلیٹ ارتھ حقیقت یا افسانہ ۔۔محمد شاہزیب صدیقی/قسط11

اعتراض197:اگر زمین کو کائنات کا مرکز مان لیا جاتا تو اس سے مذہب کو تقویت ملتی ہے،اسی خاطر فری میسنز نے ایک جال بنا اور مکمل پلاننگ کے تحت گلوب زمین اور دیگر نظریات کو عام کیا۔
جواب: زمین کے گول اور گھومنے کا نظریہ 2 ہزار سال سے موجود ہے، اس سے نہ تو مذہب کو کوئی فرق پڑا اور نہ ہی یہ کسی قسم کی کوئی سازش ہے، فلیٹ ارتھرز بنا کسی ثبوت کے خیالی پلاؤ بنانے اور خود ہی کھانے میں مصروف ہیں، عوام الناس کو ان کے نظریات سن کر ہنسنے کے سوا کوئی خیال نہیں آتا۔

اعتراض198:کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خیال ہے کہ کوئی ایسی سازش ہے کہ جو عالمی پیمانے اور نسلوں پر محیط ہے، یہ حقیقت ہے فری میسنز اور ایلومیناتی اپنے نظریات کا پرچار اسی طرح کرتے ہیں۔
جواب: دیگر تمام اعتراضات کی طرح ایک اور انتہائی غیر سائنسی اعتراض ، محض اپنے نظریات کا پرچار کرنے کے لئے پوری سائنس پر فری میسنز اور ایلومیناتی ہونے کا الزام پاگل پن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر اسی ڈگر پر سب چل پڑے تو فلیٹ ارتھ کے حامیوں پر بھی فری میسن اور ایلومیناتی ہونے کا الزام لگایا جاسکتا ہے۔بہت سے مسلمان سائنسدان اور علماء زمین کو گلوب اور حرکت کرتا مانتے ہیں کیا سب کے سب فری میسنز اور ایلومیناتی ایجنٹ ہیں؟

اعتراض199:E.Eschini اپنی کتاب “Foundations of Many Generations” میں بتاتا ہے کہ کیسے فری میسنز نے زمین کے گلوب ہونے کے نظریات کا پرچار کیا ہے۔
جواب: پھر وہی اعتراض۔۔۔ بس یہی عرض ہے کہ فری میسنز نامی مخلوق کے سحر سے باہر نکل کر تھوڑا سا عقل کو ہاتھ مار لیں او رتحقیق ضرور کرلیں۔

اعتراض200:نیوٹن نےکے اپنے نظریات تضادات سے بھرپور ہیں۔ نیوٹن نے جو جھوٹا نظریہ دل میں آیا کہہ دیا ۔
جواب: نیوٹن کی بتائی گئی مساوات کو آج تک سائنسدان استعمال کرتے ہیں صرف زمین کے متعلق ہی نہیں نیوٹن کی مساوات دیگر سیاروں اور ان کے مدار کے متعلق بھی ٹھیک ٹھیک ڈیٹا فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ نیوٹن کی باتوں میں کہیں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔  بہرحال نیوٹن کو بھی ہم پچھلی اقساط میں بہت تفصیل کے ساتھ ڈسکس کرچکے ہیں۔

الحمدللہ! ہم 200 اعتراضات مکمل کرچکے ہیں، یاد رکھیے جنہوں نے ضد لگا رکھی ہو کہ زمین کو فلیٹ ہی ماننا ہے تو یہ جوابات پڑھ کر بھی ان کے نظریات میں فرق  نہیں آئے گا،فلیٹ ارتھرز کو ان کے بچگانہ اور سطحی طرز کے اعتراضات کے باعث عموماً دنیا بھر میں نظر انداز کیا جاتا ہے مگر یہاں پر ان کے 200 اعتراضات کے جوابات صرف اور صرف اس لئے دیئے گئے ہیں تاکہ ان کے حامی کبھی یہ دعویٰ نہ کرپائیں کہ ان اعتراضات کے جوابات چونکہ سائنس کے پاس نہیں اس خاطر کوئی جواب نہیں دےپاتا۔سو ان 200 جوابات کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ زمین گلوب ہے، حرکت میں مصروف ہے۔

اس کے علاوہ وہ قارئین جنہوں نے تمام اقساط کو پڑھا ہے وہ سمجھ چکے ہوں گے کہ فلیٹ ارتھرز کے تمام اعتراضات میں ایک ہی ادارے کا ذکر ملتا ہے جس کا نام ناسا ہے، گمان یوں ہوتا ہے کہ تمام سیٹلائیٹس ناسا کی ملکیت ہیں اور فلکیات پر تمام تحقیق صرف ناسا کی ہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلکیات پر تحقیق کے لئے تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں مختلف ادارے موجود ہیں اور ہر ترقی یافتہ ملک (یہاں تک کہ پاکستان کی بھی) سیٹلائیٹ زمین کے مدار میں گھوم رہی ہے۔ اگر یہ سب سازش ہے تو پھر کوئی ایک ملک بھی اب تک اس سازش کا بھانڈا کیوں نہیں پھوڑ پایا؟

کیا تمام دنیا صرف جاہلوں سے بھری پڑی ہے اور ان میں یہی چند فلیٹ ارتھرز نامی”ہیرے” موجود ہیں جو سچ بول رہے ہیں، اور ایسا سچ بول رہے ہیں جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پاؤں۔ یہ 200 اعتراضات فلیٹ ارتھرز کی بہت مشہور کتاب “Earth is not a spinning ball by Eric Dubay ” میں موجود ہیں۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ترقی کے ہر زینے پر چڑھنے کے لئے انسان نے جانی و مالی ہرطرح کی قربانیاں دی ہیں، اور ہمیں ان قربانیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے ۔ ہماری کائنات بے انتہاء وسیع ہے اور یہی سچائی ہے، فلیٹ ارتھر کو ہر اس چیز سے اعتراض ہے جس میں ناسا یا سائنس کا ذکر موجود ہو جس سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ ٹولہ اپنی الگ جادوئی دنیا تخلیق کرنے میں مصروف ہیں۔گلوب زمین کی خلاء سے کھینچی جانے والی تصاویر صرف ناسا نےنہیں بلکہ دیگر ممالک کی سیٹلائیٹس نے بھی بھیجی ہیں۔ کیا یہ سب CGI ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام الناس کو دھوکا دے رہے ہیں؟

لاکھوں کروڑوں لوگ عام آنکھ سے International Space Station کو آسمان میں اڑتا دیکھ چکے ہیں آپ بھی بآسانی دیکھ سکتے ہیں، اگر آپ صرف تحقیق کرنے کی تکلیف نہیں کرسکتے تو اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ کائنات کے متعلق صحیح سمجھنا چاہتے ہیں تو کمرے سے نکل کر آسمان میں جھانکنا پڑے گا ، سورج گرہن، چاند گرہن، کشش ثقل الغرض ہر چیز کا انکار کرکے  آپ کنویں کے مینڈک  بننا چاہتے ہیں تو بنے رہیے مگر دنیا کے آگے بڑھنے کا گلہ بھی مت کریں، اگر ہر شخص آپ کی طرح ایسے خیالات رکھتا تو آج ہم سب پتھروں کے دور میں جی رہے ہوتے،ابھی بھی وقت ہے باہر نکل کر کچھ کیجئے انسانیت کی خدمت کیجئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اقساط لکھنے کے دوران کافی قارئین نے رابطہ کیا اور مشورہ دیا کہ ان اقساط کو کتابی شکل میں بھی پبلش کیجئے ۔ انشاء اللہ! اگلے کچھ دنوں میں تمام اقساط کو یکجا کرکےاور ان میں مزید معلومات شامل کرکےکتابی شکل (pdf)میں مختلف سائنسی گروپس میں شئیر کروں گا۔ ان تمام معلومات کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ثابت ہوچکا فلیٹ ارتھ حقیقت نہیں محض افسانہ ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply