چائے والا

مختصر افسانہ
چائے والا
دیکھو….!
بڑے نواب صاحب آئے ہیں کچھ مہمان بھی ساتھ ہیں چائے کا انتظام کرو…!
بہو رانی ملازمین کو حکم صادر کرتے ہوئے پردے کی اوٹ سے مردوں کی ٹو لینے لگیں.
کیوں میاں عظمت علی کیا سوچا پھر آپ نے؟
بڑے میاں جی جیسے آپ کہیں پر ہمارا جی نہیں مانتا جانے کو
گھر جائیداد کوٹھیاں یہ ٹھاٹ باٹھ اور اس پر یہ پُرکھوں کی قبریں ایسے ہی چھوڑ کر کیسے چلے جائیں.؟
کہتے تو آپ بھی درست ہیں پر حالات دیکھیئے اور فیصلہ کیجیئے.
چلیں جی جو اللہ کو منظور
پردے کی دوسری جانب کھڑی بہو رانی کی بھیگی آنکھیں حویلی کے در و دیوار کا آخری بار جی بھر کر دیدار کر رہیں تھیں.
ٹرین رکی…..
زور دار دھکا لگا
چل نیچے اتر جلدی
میاں اتر رہے ہیں بزرگ ہیں تھوڑا صبر کیجیئے..
چل بڈھے نیچے اتر..
ایک اور دھکا لگا اور ضعیف بدن لڑکھڑاتا ہوا پلیٹ فارم پر جا گرا
نم آنکھیں لیئے لاٹھی ٹیکتے ہوئے کھڑے ہوئے.
نواب صاحب نے اپنے لیے بنائے گئے اس ملک کی سر زمین پر پہلا قدم رکھا تھا اور لقب ” چل بڈھے “کا حاصل کیا.
لاہور کے اسٹیشن پر مارے بھوک کے بچوں کی حالت غیر تھی.
کلیمٹ آفس کے چکر کاٹ کاٹ کر جوتیاں ٹوٹ چکی تھیں.
سونا زیور سب تو راستے میں ہی لوٹ لیا گیا تھا.
چائے والا چائے والا…..!!
ارے چھوٹے نواب صاحب یہ آپ ہی ہیں نا…!
کون میاں کاہے کے نواب..؟
ارے نواب صاحب میں ہوں میں مشتاق خان کا چھوٹا بیٹا..
کون مشتاق خاں بھائی صاحب؟
ہم نہیں جانتے کسی مشتاق خاں کو.
ارے نواب صاحب، مشتاق خان جو آپ کے اکھاڑے کے پہلوان تھے میں انکا چھوٹا بیٹا ہوں یہاں اس کلیمٹ آفس میں دفتری ہوں.
نواب عظمت علی خان نم آنکھوں کیساتھ نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہنے لگے…
نوجوان…!
آپ بھول بیٹھے ہو۔۔ کون سے نواب ۔۔کہاں کے نواب ۔۔۔میاں ہم تو چائے والے ہیں چائے والے ۔۔۔اور عظمت چائے والا نام ہے ہمارا.
ارے او عظو کہاں مر گیا بڈھے
کمبخت دو چائے لانے کو کہا تھا
کہاں مر گیا جلدی آ……
پورا خاندان ہی کاہلوں کا ہے صاحب ایک اس کی بہو ہے نا کھانا ڈھنگ کا پکانا آتا ہے نا جھاڑ پونچھ، کل ہی میری بیوی بتا رہی تھی کے نری کام چورنی ہے کام چورنی.

کلیمٹ آفس کے بابو صاحب اپنے دوسرے ہم پلہ افسر کو شکایت کرتے ہوئے ایک بار پھر چلائے

Advertisements
julia rana solicitors london

ابے کہاں مر گیا عظو…..!
آیا صاحب آیا…
کلیمٹ آفس کا دفتری گیلی آنکھیں لیئے نواب عظمت علی خان کو اس نئے وطن میں اس نئے روپ کیساتھ چائے کے جھوٹے برتن سمیٹتا ہوا دیکھتا رہا……

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply