کیا انسانی ذہن کو ارتقاء کی ضرورت ہے؟۔۔۔۔۔۔مبصّر: حبیب شیخ

میں نے اصلاحِ ذات کے بارے میں کچھ کتابیں پڑھی ہیں لیکن میرے نزدیک “A New Earth – Awakening to Your Life’s Purpose” اب تک کی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ مصنف Eckhart Tolle ایکھرٹ ٹولے کو دکھوں سے بھری انسانی تاریخ کی بنیاد پر یقین ہے کہ ہمیں ایک غیر معتدل ذہن وراثت میں ملا ہے اور اس کو شعور کی منزل کے ارتقاء کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ذہن اپنے لئے اور دوسروں کے لئے بھی دکھ پیدا کرتا ہے۔ ایک عام انسان کی سوچ ہی اس کی اور دوسرے انسانوں کی دشمن بنی رہتی ہے۔

میں اپنے فارغ اوقات میں اکثر صوفی شاعری کو سنتا اور پڑھتا ہوں۔ صوفی اور سادھو انا Ego ( علمِ نفسیات میں اس کی قدرتی شکل کو Id اور اس کے ابتدائی ارتقاء کو Ego کہا جاتا ہے ) کو اپنا دشمن مانتے ہیں اور اس کی تسخیر کے بعد خدا کو پاتے ہیں۔ ایکھرٹ ٹولے کی اس کتاب میں تین مکمل ابواب انا کے بارے میں وقف ہیں ۔ وہ انا کے مواد اور ساخت کی تفصیلاً وضاحت کرتے ہیں، مختلف قسم کی انفرادی اور اجتماعی انا کو بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح انسانی انا نا  صرف اپنی بقا کے لئے حیلے بہانے ڈھونڈتی ہے بلکہ اپنی پذیرائی کے راستے بناتی ہے۔ انا ماضی یا مستقبل کی سوچ میں ہی پنپ پاتی ہے اور اپنی سوچ کو موجودہ لمحے میں رکھنے سے ختم ہو جاتی ہے۔ میرے لئے یہ پہلی کتاب ہے جو بتاتی ہے کہ کس طرح سے ایک انسان خود کو اپنی انا سے بچا سکتا ہے۔
ایکھرٹ ٹولے نے اس کتاب میں ایک نئی اصطلاح Pain-Body وضع کی ہے جس کا مطلب ہے ماضی کے تجربات اور مشاہدات سے اخذ کئے گئے منفی خیالات۔ اس کتاب میں Pain-Body اور اس سے نجات پانے کی اہمیت اور طریقوں پر دو ابواب ہیں۔

مصنف موجودہ لمحے میں رہنے پر بہت زور دیتے ہیں۔ انسان لمحہِ حاضر میں رہ کر ماضی کے تصورات اور مستقبل کی افکار سے صرف آزاد ہی نہیں ہو جاتا ہے بلکہ اس طرح وہ کائنات/روح/خدا سے بھی رابطہ قائم کر سکتا ہے۔ ایکھرٹ ٹولے اس کتاب میں موجودہ لمحے میں رہنے کے لئے تراکیب بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اپنی سوچ پر نظر رکھنا اصلاحِ ذات کی طرف پہلا قدم ہے۔ لمحہِ حاضر میں رہنے والا شخص نہ صرف اپنی زندگی میں امن اور ہم آہنگی لاتا ہے بلکہ اس کی توجّہ مکمل طور پر اس کام پر مرکوز رہتی ہے جو وہ اس لمحے میں کر رہا ہوتا ہے۔
ایکھرٹ ٹولے موجودہ لمحے کو اتنی اہمیت دینے والے پہلے شخص نہیں ہیں۔ رومی کا مندرجہ ذیل شعر اس کی مثال فراہم کرتا ہے۔ : (ترجمہ)
“تیری محبت کی وجہ سے میں نے اپنے ماضی سے تعلق توڑاہے۔۔
تیرے لئے میرا عشق مجھے اس لمحےمیں رکھتا ہے۔”

لکھاری ٹولے تمام وجودات (جسم ، توانائی ، خیالات ، روح ، کائنات ، خدا) کو دو مدوں میں تقسیم کرتے ہیں: مادّہ اور غیر مادّہ ، اور اصرار کرتے ہیں کہ انسان خود کو غیر مادہ سمجھے۔ اس کتاب میں انسان کو ایک چھوٹی کائنات mini-cosmos سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ انسانی جسم کے اندر کا خلا (99۔99% سے زیادہ) کا کائنات کے خلا سے موازنہ کرتی ہے۔ اس موضوع کے پڑھنے کے بعد واقعی ایسا احساس پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک الگ تھلگ ہستی نہیں ہے بلکہ کائنات کا مکمل طور پر مربوط جزو ہے اور اس کا اپنا وجود کائنات کی ساخت کی نمائندگی کرتا ہے۔
کتب خانے ایسی کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں جو کسی فرد کے منفی خیالات اور تشویش بھرے ذہن کو مثبت زندگی کی طرف لے جانے میں رہنمائی کرتی ہیں۔ میں نے حال ہی میں اسی مضمون پر اپنے دوست خالد سہیل (ایک ماہرِ نفسیات) کی تحریر کردہ کتاب پڑھی۔The Art Of Living In Your Green Zone ایک قابل ذکر کتاب ہے جو قارئین پر زور دیتی ہے کہ وہ اپنے اندر شدید رغبت والا شوق Passion دریافت کریں، اس کو اپنائیں اور اسی شوق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ رابطے قائم کر کے ‘دل کا حلقہ’ بنائیں۔ ہندوستان کے عظیم شاعر علامہ اقبال نے بھی اس پر زور دیا کہ انسان اپنے جنون کی بلندیوں پر پہنچ کر ممتاز ہو جائے۔ ؎
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

ماہرین کی اکثریت منفی سوچ سے نجات حاصل کرنے کے لئے دو طریقے بتاتی ہے۔ ایک گروہ یہ یقین رکھتا ہے کہ Being یعنی اپنے وجود کے شعور کے ذریعہ مستقل خوشی اور اندرونی امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سادھو اور صوفی قناعت پسند ہوتے ہیں اور اس راستے پر عمل کرتے ہیں۔ دوسرا گروہ Becoming یعنی کچھ کر گزرنے پر اصرار کرتا ہے۔ اس میں مصنفین، شاعر، فنکار، فلسفی اور سائنس دان شامل ہیں جو ہمیشہ اپنے جنون میں کھوئے  رہتے ہیں اور اپنے کام میں بہتری کے لئے مسلسل کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی جدوجہد ان کو خوشی تو دیتی ہے لیکن ناچیز کی رائے میں، یہ ضروری نہیں کہ ان کو ذہنی سکون بھی مہیا کرے۔ ہم بہت سے مشہور مصنفین، فلسفیوں اور سائنس دانوں کے بارے میں جانتے ہیں جواپنے غیر روائتی خیالات اور کام کی وجہ سے روائتی خاندان یا معاشرے کے شدید دباؤ کا نشانہ بنے اور ذہنی انتشارکا شکار ہو گئے ۔

ٹولےان ماہرین کے پہلے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ Being اور اس کی اہمیت کی وضاحت کے لئے کتاب کے کئی صفحات وقف کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات کا استدلال کرتے ہیں کہ موجودہ لمحے میں رہنے والا شخص اپنی سرگرمی پر انتہائی توجّہ دے گا اور اسی لئے اس کے نتائج میں خود بخود بہتری آ جائے گی۔ لہذا، میرے اپنے الفاظ میں، مصنف کا خیال ہے کہ Being کے نظریئے کو اپنا کر ایک جنونی شوق رکھنے والا انسان Becoming کی طرف پر سکون سسفر کر سکتا ہے۔
ٹولے اوراصلاحِ ذات کی کتابوں کے دوسرے مصنؔفوں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ ٹولے صرف انفرادی طور پر خود کو بہتر بنانے کے بارے میں بات نہیں کرتے بلکہ پوری انسانیت کے ارتقاء کو اگلے درجے ‘شعور’ پر جانے کے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں۔ لہذا اسی لئے اس کتاب کا نام ‘ A New Earth’ رکھا گیا ہے۔
میں نے اس کتاب میں سے چند اہم نکات سیکھے ہیں:
اپنے دماغ کی سوچ پر نظر رکھو۔
ہر طرح کے حالات میں لمحہ حاضر میں رہو۔
ڈرامہ یا الزام تراشی پر رد عمل نہیں کرو۔
۔Non-Resistance: ہر انہونی صورتِ حال کو قبول کر لو۔
۔Non-Judgemental: کسی انسان، گروہ یا واقعہ کے بارے میں صحیح/غلط رائے نہیں قائم کرو۔
۔Non-Attachment: ہر مادّی شۓ یا حالات کو عارضی سمجھو۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری رائے میں ہر ایسے شخص کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے جس کا دماغ منفی خیالات اور پریشانیوں میں پھنسا رہتا ہے اور ہم میں سے ایسے لوگ 99٪ سے زیادہ ہی ہیں۔ یہ کتاب سرسری مطالعہ کا مواد نہیں ہے، بلکہ اس کا متن تین سو سے زائد صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس کو سمجھنے کے لئے سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اگراس کو مناسب طریقے سے پڑھا جائے اور اس کے مواد پر نیک نیّتی سے عمل کیا جائے تو یہ قاری کے منفی خیالات میں ڈوبے ہوئے ذہن کے ارتقاء کے لئے سنگِ میل ثابت ہو گی اور قاری جب شعور کی دنیا میں پہنچنے کی منزل طے کر لے گا تو وہ   روح/کائنات/خدا سے منسلک ہو کر دائمی سکون اور امن پا لے گا اور اپنی سوچ یا عمل سے خود کو اور دوسروں کو بھی دکھ نہیں دے گا۔ اس کے علاوہ، جب کوئی شخص اپنے دماغ پر نظر رکھے گا، تو یہ مشاہدہ اس کو کسی بھی بری عادت/سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنے میں رہنمائی کرے گا ۔
عنوان:
A New Earth – Awakening to Your Life’s Purpose
دسواں سالگرہ ایڈیشن
مصنف: Eckhart Tolle
پبلیشر: Penguin Books

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply