ہمارے ہاں شاعر کیوں زیادہ ہیں؟

ہمارے ہاں شاعر کیوں زیادہ ہیں؟
ادریس آزاد
شعر کہنا بلاشبہ ذہانت کا کام ہے۔ اکثر دیکھا ہے کہ کم ذہین لوگ دوسروں کے اشعار کو بھی ٹھیک سے وزۡن میں نہیں پڑھ پاتے۔شعر کہنا نہ صرف ذہانت کا کام ہے بلکہ آپ کی جمالیاتی حس اور مشاہدہ بھی غیر معمولی ہونا چاہیے۔ کئی سال پہلے ایک تقریب میں ڈاکٹر محبوب سداؔ کی سپیچ سنی تھی اور انہوں نے ذکر کیا تھا کہ ایک عام شاعر کا آئی کیو لیول ایک سائنسدان کے برابر ہوتاہے اور ساتھ انہوں نے کوئی حوالہ بھی دیا تھا۔

تخلیقی عمل کبھی رُکتا نہیں ہے۔ ہمیشہ خود بخود جاری رہتاہے۔ یہ بالکل اُسی طریقے سے خود کار ہے جیسے ساحل پر کھیلتے بگلوں کا غول جو اُڑجانے کے بعد اپنے پیچھے حیران کن پیٹرن چھوڑ جاتاہے۔ ہرقوم میں ان گنت تخلیق کار اپنے اپنے وقت پر پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اب یہ اُس قوم کے حالات پر منحصر ہے کہ نئے آنے والے تخلیقی اذہان کون سی سرگرمیوں کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ اگر کوئی قوم فارغ ہے اور قومی تخلیقی ذہن کے سامنے کوئی ایسی چٹان نہیں جس کا کلیجہ چیر کر اُس میں سے نیا مجسمہ نکالا جاسکے تو قومی تخلیقی ذہن اپنی خودکاریت کی وجہ سے متبادل سرگرمیوں کی طرف مائل ہوجاتاہے۔

اس پر مستزاد وہ کاہلی ہے جو ہرطرح کی قنوطیت کا لازمی نتیجہ ہوتی ہے۔ اور کسی قوم پر اگر معاشی حالات سخت گزر رہے ہوں تو قنوطیت کا آسیب اپنی پوری ہیبت کے ساتھ قوم پر مسلط ہوجاتاہے۔ کاہلی کچھ کرنے نہیں دیتی لیکن تخلیقی خود کاریت قومی ذہن کو تخلیقی عمل سے باز بھی نہیں رہنے دیتی۔ نتیجۃً سطحی شاعری کے انبار لگ جاتے ہیں۔ یہ وہی اذہان ہوتے ہیں جو اگر کسی اور طرح کے حالات میں ہوتے تو سائنسدان ہوتے۔

میں بہت چھوٹا تھا اور ہمارے محلے کے ایک نوجوان نئے نئے ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنے تھے۔ ہر کسی پر ان کا خوب رعب تھا۔ ایک دن مسجد میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ مجھ سے پوچھا "کیا کرتے ہو؟" میں نے کہا، "ابھی تو صرف شاعری کرتاہوں"۔۔۔۔۔۔۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنے لگے۔۔۔۔۔۔ "یہ کیا کرتے ہو میاں؟ شاعری تو کاہلوں کے لیے کچھ نہ کرنے کے بہانے کا نام ہے"۔ میں اس وقت ان کی بات نہ سمجھا لیکن اب سوچتاہوں وہ نوجوان جو نیا نیا ایم بی بی ایس کرکے آیا تھا کتنا سمجھدار تھا۔ شاعر کا ذہن تخلیقی ہوتاہے اس بات سے کسی کو انکار نہیں۔ ایک تخلیقی ذہن بچپن سے ہی تخلیقی ہوتاہے اس بات میں بھی دوسری رائے نہیں۔ سو اگر شعرأ کو بچپن میں مناسب رہنمائی مل جائے تو وہ ایسی (زیادہ تر) بے سُود تخلیق کی بجائے کچھ بنانے، کچھ تعمیر کرنے والے بنینگے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سادہ ترین مثال یہ ہے کہ ایک کلاس روم میں دس تخلیقی ذہن کے مالک بچے تصور کریں۔ ان میں سے پانچ کو اردو ادب اور پدرم سلطان بُود پڑھایا گیا ہے اور پانچ کو فزکس اور انجنئرنگ۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ادب پڑھایا جانا بُرا ہے۔بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ ٹھیک ہوگا کہ ادب ہی تو ٹھیک سے نہیں پڑھایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اِسی لیے انجنئرنگ ٹھیک سے نہیں پڑھائی جاسکی۔ مطلب سچا ادب تو قوم کے ہر ہر فرد کی ہر ہر کیفیت کو پوری دنیا کے لیے اَمر کرتا چلا جاتاہے کجا کےسچے ادب کا سچے دل سے پڑھانا۔ بقول اقبال،
وہ نغمہ سردیِ خونِ غزل سرا کی دلیل
کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تابناک نہیں
نوا کو کرتاہے موج ِ نفس سے زہر آلُود
وہ نَے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply