بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ اور حکومت کے نئے وعدے

بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ اور حکومت کے نئے وعدے
طاہر یاسین طاہر
سیاست دان عوام کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستانی عوام اپنی سیاسی قیادت کے نعروں وعدوں پہ اندھا اعتماد کرتے ہیں۔سیاسی جماعتیں یہ بھی جانتی ہیں کہ پاکستانی سماج میں دو سے بڑھ کر تین پارٹی سیاسی نظام میں کس طرح اپنے اپنے سیاسی پروگرامز کو زندہ رکھنا ہے اور کیسے عوامی جذبات کے ساتھ وعدوں کا کھیل جاری رکھنا ہے۔عوام کا بھی بے شک قصور ہے۔تجرباتی حیات کا نتیجہ یہی ہے ۔ہر بار ان ہی لوگوں کو منتخب کیاجاتا ہے یا وہ “اللہ کی طرف سے” منتخب کر دیے جاتے ہیں،جنھیں نہ تو عوام کے بنیادی حقوق کا خیال ہے اور نہ ہی کسی احتجاج یا تنقید کی پرواہ۔انھیں اگر خیال ہے تو جمہوریت بچانے کا،جمہوریت کے ذریعے بہترین انتقام لینے کا،نئے اتحادی بنانے اور پھر ان سیاسی اتحادوں کو قائم اور مضبوط رکھنے کا۔یہ وہ طبقہ ہے جنھیں عوام کے بنیادی حقوق کے بجائے اگر خیال ہے تو میٹرو بس سروس کا، اورنج ٹرین منصوبے کا،موٹر ویز کا،پی آئی اے کے بطن سے نئی نئی ایئر لائن جنم دینے کا،پولیس کی وردیاں تبدیل کرنے کا اورپاناما سے بچنے کا۔اسی طبقہ کا ایک اسلامی اتحادی بھی ہوتا ہے جسے ہمیشہ اسلام خطرے میں نظر آتا ہے۔ مگر کسی کو بھی یہ نظر نہیں آتا کہ عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون نے 2013 کا الیکشن لڑا ہی توانائی بحران کے خاتمے اور دہشت گردوں سے مذاکرات کے ایجنڈے پر تھا۔ہمیں یاد ہے کہ خادم اعلیٰ جوش خطابت میں ،مگر پورے حواس میں ،یہ فرماتے تھے کہ اگر لوڈشیڈنگ چھ ماہ میں ختم نہ کر دی تو میرا نام بدل دینا، ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ میاں نواز شریف صاحب نے بھی لوڈشیٖڈنگ کبھی ایک سال اور کبھی دو سا ل میں ختم کرنے کے اعلانات فرمائے۔حکومتمیںمگر آنے کے بعد ان پہ یہ عقدہ اچانک کھلا کہ بجلی کی طلب اور رسد میں تو بہت فرق ہے۔تو نون لیگ کی تجربہ کار ٹیم نے اعلان کر دیا کہ 2018 میں لوڈشیڈنگ مکمل ختم ہو جائے گی۔ ہم یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیسے؟ابھی تو تو اس کے آثار نظر نہیں آتے۔ اگر واقعی حکومت نے کوئی ایسے اقدامات اٹھائے ہوئے ہیں کہ 2018 میں بجلی کی طلب اور رسد کا فرق ختم ہو جائے گا اور ہماری پیداوار ہماری طلب سے بہت زیادہ ہو گی،تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ گذشتہ آٹھ دس برسوں کے مقابلے میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ نہ صرف بہت کم ہو چکا ہو،بلکہ اب لوڈشیڈنگ گاہے گاہے ہو نی چاہیے۔ کیونکہ اب 2017 کا اپریل ہے۔اگر اگلے برس اندھیرے بالکل ہی ختم کرنے ہیں تو سیاست کے اس سیاہ افق پہ کہیں تو پو پھوٹنے کے آثار ہوں۔ ایسا مگر کہیں سے بھی ظاہر نہیں ہو رہا، بلکہ اب تو مارچ میں ہی لوڈشیڈنگ 12 سے 16 گھنتوں تک پہنچ چکی ہے۔ یہ وہ ہے جو شہروں اور دیہاتوں میں شیڈول ہے۔ فورس لوڈشیڈنگ اس کے علاوہ ہے۔
دکھ آور بات تو یہ ہے کہ جونہی لوڈشیڈنگ کی شکایت کی جائے تو حکومتی عہدیدار عجیب طرح کے دلائل دینے شروع کر دیتے ہیں۔یاد رہے کہ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا ہے کہ موسم گرم ہوا، کچھ طلب بھی بڑھ گئی، اسی لیے لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوگیا،جہاں بجلی چوری ہورہی ہے وہیں 10سے12گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہےجو جاری رہے گی۔پیرکو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ کچھ موسم بھی گرم ہوا، کچھ طلب بھی بڑھ گئی، اسی لیے لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوگیا، صرف اپریل میں2 ہزار میگاواٹ کی طلب بڑھی ہے، اوسط درجہ حرارت بھی بڑھا ہے، بجلی چوری بھی جاری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بجلی چوری کے مسکن تمام صوبوں میں ہیں، شہروں میں 3 سے4 جبکہ دیہات میں 5گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔خواجہ آصف نے مزیدکہا کہ جن علاقوں میں بجلی چوری ہورہی ہے وہاں سے ٹرانسفارمرز بھی اتارے جائیں گے، 31 مارچ تک سرکلر ڈیٹ 385 ارب روپے تک پہنچ گیا۔انہوں نے میڈیا کو بتایاکہ ایک ماہ میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار 15 ہزار میگاواٹ تک پہنچی ہے، آئندہ سال سے نیلم جہلم پروجیکٹ سے بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی، اکتوبر دو ہزار پندرہ سے صنعتوں کو بلاتعطل بجلی فراہم کی جارہی ہے۔
وزیر پانی و بجلی کے فراہم کردہ اعداد و شمار اور ان کی توضیحات کسی بھی طرح قابل بھروسہ نہیں۔ اگر بجلی چوری ہو رہی ہے تو اس کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟کای اس کا طریقہ یہ ہے کہ بجلی چوروں کے ساتھ ان لوگوں کو بھی جو بجلی کے بل اور ٹیکسز بر وقت ادا کرتے ہیں، عذاب میں ڈالا جاتا رہے؟دراصل پیپلز پارٹی کی حکومت سے موجودہ حکومت تک، کسی نے بھی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے پر ویسا کام نہیں کیا جیسا ہونا چاہیے تھا۔کچھ پروجیکٹ جو چل رہے ہیں ان کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا کلیم ہے کہ وہ ان کے دور میں شروع ہوئے تھے، جبکہ نون لیگ کا دعویٰ ہے کہ وہ پراجیکٹ ان کی حکومت نے شروع کیے جن کی بدولت نیشنل گرڈ میں بجلی آئے گی اور 2018 میںیکدم سے لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ایسا مگر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکموت اگرچہ کہہ رہی ہے کہ اگلے سال نہ صرف لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی بلکہ اپریل کے آخر تک موجودہ بجلی بحران پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔ یہ بھی مگر ایک اور وعدہ ہے جو صارفین کے پسینے کے پانی میں دھلا جائے گا۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply