مِتھُن اور ییَن یِن۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

Mythun and YANG-YIN

سلسلہ در سلسلہ یہ بُت اجنتا میں کھڑے ہیں
اپنی تنہائی میں گُم، اپنے خیالوں میں بھٹکتے
وقت کی اس  بہتی رَو میں
جانے کس دنیا سے چل کر آج تک
ان کا سفر جاری رہا ہے

چلتے چلتے
میں ٹھٹھک کر
یوں ٹھہرتا ہوں ، کہ جیسے
میرے پاؤں
خود بخود ہی، بے ارادہ رُک گئے ہوں

مورتی ہے
اغلباً دو جسم ہیں، جو
انسلاک و انضمام ِ باہمی میں
یوں جُڑے ہیں
جیسے یکسر “یک بدن” ہوں
آدم وزن؟
ہاں، مگر اک دوسرے سے دور ہٹ کر نا مکمل
صرف مل کر۔۔۔اپنے ساجھی بیخ و بُن میں
ایک جھاڑی، اک شجر سے
شکتیا ں دو
انگ سے انگ، آتما سے آتما
کچھ اس طرح پیوست، جیسے
دو نہ ہو کر ایک ہی ہوں
یک دگر؟
لیکن، نہیں ، بس ایک، واحد

مِتھُن” ہے۔۔یا “یین یِن” ہے
صاحب ِ عقل و فراست
میں یہ خود سے پوچھتا ہوں

مورتی جیسے یکا یک اپنی  آنکھیں کھول کر
میری طرف
ترچھی، شکایت کی نظر سے
دیکھتی ہے
جیسے میں اس کی کئی صدیوں کی  خواب آلود تنہائی
میں وارد ہو گیا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور میَں
اک صاحب ِ  علم و فراست
شرمگیں ،  نادم سا، تیزی سے
قدم آگے بڑھاتا ہوں
کہ  میَں بے حد خجل ہوں۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply