مذہبی رواداری آخر ہے کیا؟ اور ریاست کیسی ہو؟

خلافتِ راشدہ کے بعد ملوکیت و بادشاہت نے مذہب کو بنیاد بنا کر خاندانی حاکمیت کو نسل در نسل اپنے رعایا پر نافذ کیا. جہالت، کسمپرسی، انارکی، سوال پہ پابندی اور عام لوگوں کے حقوق کی پامالی کی گئی. جس طرح قدیم دور میں یہودی اور عیسائی بادشاہوں نے مزہبی پیشواؤں اور پاپائیت کا سہارا لے کر اپنے رعایا کو قابو میں رکھنے کے لیۓ استعمال کیا، کم و بیش اسی طرز پر مسلم فرمانرواؤں نے بھی روحانی پیشواؤں اور ملائیت کے زریعے لوگوں کے دماغوں پر عقیدے کا خول اور گردنوں میں عقیدت کا طوق پہنا کر ان کا استحصال کیا، اپنی مرضی کی تواریخ لکھوائی گئیں. ابن رشد اور جابر بن حیان جیسے کئی دوسرے مسلمان ساینسدانوں اور فلسفیوں کو ملاؤں سے فتوے جاری کروا کر عبرت ناک سزایں دلوایں گئیں- جب لوگ جبری بادشاہت سے آزاد ہوۓ تو بد قسمتی سے سوشلزم کے شکنجے میں آگئے, جو کسر باقی تھی وہ کیمونزم نے پوری کردی، کمیونسٹوں نے بھی بے گناہ انسانوں کو قتل کیا، کتب خانوں کو آگ لگائی, علم و شعور پر قدغن اور بشری حقوق کا جنازہ نکال دیا- آزادئ اظہار اور سیاسی سرگرمیوں پہ پابندی لگا کر عوام پر زبردستی اپنا من پسند نظریہ تھوپا گیا، ان کی ریاستوں میں ایسی غربت ناچی کہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر ہونا بھی مشکل ہو گیا، کمیونسٹ ملکوں کے لوگ غربت سے تنگ آکر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے لگے- مذہب اور سوشلزم کی طرح کمیونزم نے بھی کہا کہ میں مکمل کوڈ آف لائف ہوں لیکن آج تینوں نظریے پوری دنیا میں ایک تماشہ لگاۓ ہوۓ ہیں، بقول ایک دانشور کے
‘جو نظریہ تلوار یا زور زبردستی سے منوایا جائے اسکے جھوٹ ہونے میں کوئی شک نہیں’۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کونسا نظریہ یا نظام لایا جائے کہ تمام انسانیت کے لیئے فائدہ مند ہو ۔ دنیا میں آپکو بہت سے ازم پڑھنے اور سننے کو ملینگے. دنیا کی تاریخ کا عمیق مشاہدہ کرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ معاشی اور سیاسی حوالے سے چاہے آپ جمہوریت کو ہی نافذالعمل ٹھہرایں لیکن مذہبی حوالے سے معاشرے میں مزہبی رواداری اور مساوات کو قائم رکھنا انتہایَ اہمیت کا حامل ہے- ایک جتھے یا قوم کے درمیان مساوات اور امن پروان چڑھانے کی پہلی سیڑھی مزہبی رواداری ہی ہو سکتی ہے. تمام قسم کے انسانوں کے لئے پرسکون مساوی حقوق ملنے کا مضبوط احساس ایک ایسی ریاست ہی دے سکتی ہے جہاں تمام مزاہب کے بیچ مزہبی رواداری کا بہترین ماحول ہو۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”سیکولرازم ایک ایسا نظام ہے جو تمام مذاہب اور عقائد پر عمل کرنے کی آزادی اور ضمانت دیتا ہے”۔
واضح رہے کہ بیشتر مزہبی حلقوں میں طیب اردوان ایک معزز اور راسخ العقیدہ مسلمان حاکم مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کے مسلمان ہمیشہ بھارت سے بھی یہی مطالبہ کرتے آۓ ہیں کہ بھارت کا مذہبی نظام سیکولر ہونا چاہۓ تا کہ تمام مزاھب کے لوگ برابری اور امن سے رہ سکیں اور کوئی دوسرا مزہب اپنی اکثریت کی بنا پر کسی اقلیت کے حقوق غصب نہ کر سکے۔
اگرچہ بعض دوست طیب اردوان کو تو سراہتے ہیں مگر ‘سیکولرازم’ کے لفظ کو پسند نہیں فرماتے لیکن بہرحال ہم ان کے اس فکری تضاد کو نظرانداز کرتے ہوۓ لفظ ‘سیکولرازم’ سے اجتناب برتتے ہیں اور اس حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کو مختصراً سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس ضمن میں پہلے تو ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ کیا قرآن میں کسی ایسی ریاست کا کوئی تصوّر موجود ہے جو یہ کہے کہ صرف اور صرف ایک مذہب جو کہ حاکم وقت کا ہے کے تحت ہر قسم کے عوام کو اپنی اپنی زندگیاں گزارنی ہوں گی؟ کیا قر آن کا منشا کسی زبردستی کی ریاست کا قیام ہے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ وہ خدا کہ جس نے تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے، کا مقصد یہی ہے کہ کسی ایک مذہب کی حاکمیت اعلیٰ کو قائم و دائم رکھنے کی خاطر باقی تمام بے ضرر انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاۓ؟ یا غلام بنا کر ان کے پیدایَشی حقوق سلب کر لیۓ جایں ؟ کیا انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ عملی طور پر ایسا ممکن ہے؟ کیا روئے زمین پر بسنے والے ہر شخص کو پورا اختیار نہیں ہے کہ وہ جس مزہب کو چاہے اپنے لیۓ اختیار کرے؟ اگر اقامتِ دین کا مقصد اقتدار حاصل کرنا ہوتا تو آقاۓ نامدار صلعم دعوت و تبلیغ کی بجاۓ آسمان سے فرشتوں کی فوج بلواتے اور پہلے دنیا پر قبضہ کرتے اور اس کے بعد لوگوں کو بتاتے کہ میں کیوں بھیجا گیا ہوں۔ قرآن کہتا ہے کہ دین پر کویَ جبر نہیں۔ ہر وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ اس کا دین یا مزہب سچا ہے وہ اس پر عمل پیرا ہونے میں حق بجانب ہے چونکہ بعد از مرگ وہ اپنے عقاید اور انجام کا خود زمہ دار ہے لہازا اسے ایسی سوچ رکھنے کا پورا حق حاصل ہونا چاہیۓ۔ البتہ اسے یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ابنے نظریات کسی دوسرے پر زبردستی مسلط کرنے کی سعی کرے مبادا یہ کہ کویَ اس کے طرز عمل سے متاثر ہو کر خود اپنی مرضی سے وہی نظریات اپنالے تو اس میں کویَ قدغن نہیں ۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ ’اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ‘ (ان کا نظام اُن کے باہمی مشورے پر مبنی ہو گا)۔ مطلب یہ کہ حکومت کا نظام مشورے ہی سے وجود میں آئے گا اور مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہوں گے۔ اسلامی تاریخ کے مفصل مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آقا صلعم نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت کسی کو بھی اپنا حکومتی جانشین یا بادشاہ مقرر نہیں فرمایا- معروف تاریخ کے مطابق خلافت راشدہ کم و بیش 30 برس تک اسی طرح لوگوں کے حق راۓ دہی کے تحت منتخب ہوتی رہی۔ اور اسی کا نام جمہوریت ہے۔ اس کے تحت نہ کویَ موروثی بادشاہ ہوتا ہے اور نا لوگ اس کی رعایا بلکہ سب کے حقوق برابر ہوتے ہیں ، کویَ بھی عام آدمی حکمران سے اس کی کارگزاری کے متعلق سوال اٹھا سکتا ہے۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ جلیل القدر انصاف پسند شخصیات دنیا چھوڑتی گیں اور عام مسلمانوں کی حکومتیں اور آبادیاں پھیلتی گیں، اسلامی جمہوریت کی جگہ ملوکیت و بادشاہت نے لے لی۔ نیۓ نیۓ فرقے بھی وجود میں آۓ۔ دوسری صدی ہجری سے ہی مختلف مکتبہ فکر سے وابستہ قوتیں تخت کے حصول کی خاطر ایک دوسرے سے جنگیں لڑتی رہیں جس میں کوئی کامیاب ہوا تو کوئی ناکام رہا اور وہ لوگ جو اپنے پسندیدہ مزہب کو حکمرانی کے زریعے مسلط کرنا چاہتے تھے یا جن کا فکری میلان اسی جانب تھا اپنے اپنے حکمرانوں کا دفاع بھی اپنی مسلکی فکر کےحوالے سے کرتے رہے- حالانکہ علمی اعتبار سے اپنے نظریے کو کسی دوسرے فرقے پر حتمی طور پر ثابت نہ کر سکے۔
علما ،اسلام کو مزہب نہیں بلکہ دین یا شریعت کہتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ ‘اسلام’ کو ہم دین کا نام دیں یا شریعت کا، البتہ یہ بات یقینا” قابل فہم ہے کہ دین پر عمل انسان کو اپنی ذات سے ہی شروع کرنا ھوتا ھے پھر انسان کی زندگی کا دائرہ کار وسیع ہونے پر عمل کا دایرہ کار بھی حتی الامکان بھیلتا چلا جاتا ہے ۔ طاہر ہے کہ نفسیاتی طور پر خوف و دہشت کے زریعے کسی کے منہ سے کلمہ تو پڑھوایا جاسکتا ہے مگر اس کے بنجر دل میں دین کی محبت کا پھول نہیں کِھلایا جاسکتا۔ لہزا دین پر عمل ہر ایک کی زاتی صوابدید پر منحصر ہے۔
بعض دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلام سے زیادہ کوئی دوسرا مزہب معتدل نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ دینِ اسلام اپنی فکر میں معتدل یا انتہا پسند نہیں ہے بلکہ دین وہی ہوتا ہے جو اللہ کی کتاب اور اسوۃ حسنہ سے ثابت ہوتا ہے۔ اب یہ معتدل ہے یا انتہا پسند، حقیقی طور پر اس میں کویَ تقسیم یا کلام نہیں۔ البتہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ‘ دین اعتدال سیکھاتا ہے’ تو اس کا مطلب جو میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ انسان کو زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں اپنی سوچ اور عمل میں اعتدال اختیار کرنا چاہیے نا کہ شدت، زیادتی یا ہیجان۔ یہ انسانی نفسیات کا طے شدہ معیار ہے کہ اخلاق اور اعتدال اپنی افادیت کی بدولت ہمیشہ مقدم ہوتا ہے۔ اگر آپ کے اندر احساسات اور رحمدلی کے جزبات نہیں پاۓ جاتے تو اس کا تعلق مزہب سے نہیں بلکہ آپ کی حسی شدت اور زہنی نفسیات سے ہے۔
حقیقی اسلام یہی ھے کہ لوگ ابنے اپنے مزاہب پر عمل میں آزاد ہیں الا یہ کہ وہ کسی اخلاقی برایَ یا ریاستی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب پاۓ جایں۔ جبکہ ریاست کی ذمہ داری امن، تعلیم، روزگار، علاج، عدل اور چادر اور چار دیواری کی سہولت بہم پہچانا اور تمام شہریوں سے رنگ و نسل اور مزھب سے بالا تر ہو کر یکساں سلوک کرنا ہے۔
تاہم ممکن ہے کہ مختلف نظریات کے حامی لوگ آپس میں کسی نکتے پر علمی اختلاف رکھتے ہوں۔ اس ضمن میں ریاست کی طرف سے سب کے لیے یہی بیانیہ ہونا چاہیۓ کہ جو بھی کسی سے اختلاف رکھتا ہے تو اسے بس اپنے دل ہی میں رکھے ، اس کا پرچار کرنے کی چنداں اجازت نہیں ہو گی۔ یعنی جھگڑے اور نفرت پھیلانے سے کیا حاصل؟ پیغمبر کیا نفرت اور بد ظنی کا پرچار کیا کرتے تھے؟ لعنت ملامت کرنے سے کیا سامنے والا اپنی اصلاح کر لیتا ہے؟ یقینا” نہیں۔
لہزا ہمیں چاھیۓ کہ ہم سوشلستان کی دنیا میں نفرت پھیلانے کی بجاۓ ساینس، علم اور تحقیق پر بحث و مباحث کریں، وسیع العلم و وسیع النظر احباب سے بین الصوبائی دوستیاں قائم کریں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مزہب یا طبقے سے ہو. ایک دوسرے کے اصل مسائل اور حالات سے آگاہی حاصل کریں، معلومات کا تبادلہ کریں۔
ہماری پہلی ترجیح قومی اتفاق رائے ہونی چاہیے. مذہبی رواداری ہی حقیقی امن قایَم ہونے کی ضمانت ہے. ایک بار امن قایم ہو گیا تو لوگ خود ہی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے خوشحالی کی جانب گامزن ہو نے لگیں گے اور اللہ بھی ہماری اجتماعی دعایں قبول فرمانے لگے گا- اِنشااللہ !
آصف وڑایچ

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply