بھٹو ۔۔میرا بھی تو ہے!

(بھٹو کی برسی پر چند سال پہلے لکھا گیا ایک کالم)

Advertisements
julia rana solicitors london

لاعلمی واقعی بڑی نعمت ہے۔بھٹو کی برسی آتی ہے تو اپنے بچپن کے دن یاد آ جاتے ہیں۔کس شرح صدر کے ساتھ ہم کندھے اچکا کر کہہ دیا کرتے تھے: بھٹو تو اسلام کا دشمن تھا۔چنانچہ جب قبلہ امیر المومنین بقلم خود نے ریفرنڈم میں سوال پوچھا: اسلام چاہتے ہو؟ اور شرح یہ رکھی کہ چاہتے ہو تو پھر میں اگلے پانچ سالوں کے لیے نفاذ شریعت کے لیے صدر بن رہا ہوں تو مردِ مومن مردِ حق کے لیے نعرے لگا لگا کر ہمارے گلے بیٹھ گئے۔ہمارے گاؤں میں غالبا صرف تین ووٹ نکلے جنہوں نے مردِ مومن کی اصل واردات کو سمجھا اور کہا ؛نہیں چاہتے۔بس پھر کیا تھا، ہم شریف سائیکلوں والے اور ڈاکٹر پھینا کی دکانوں کے آگے سے گزرتے تو نفرت سے تھوک دیتے۔کم بختوں نے اسلام دشمنی میں حد ہی کر دی تھی۔ہم سب راسخ العقیدہ مسلمان تھے ،تھوڑی دیر بعد منہ اٹھاتے اور چیختے: مردِ مومن مردِ حق۔۔۔۔۔آج سوچتا ہوں لاعلمی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ہم کتنے آسودہ تھے۔ جب میں نے اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب میں ماسٹرز کی کلاس میں داخلہ لیا تو ملک معراج خالد یہاں کے ریکٹر تھے۔ان کا تعلق پی پی پی سے تھا اور میں صالحین کے گاؤں سے آیا اپنی ذات میں ایک چھوٹا سا امیر المومنین تھا۔پہلا سوال ہی امیر المومنین صاحب نے یہ سوچا: اسلامک یونیورسٹی میں ملک معراج خالد کا کیا کام؟میری گستاخیاں بڑھتی گئیں،خبر ملک معراج خالد تک پہنچ گئی۔ایک روز میری طلبی ہوئی۔شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر ایس ایم اے رؤف نے حکم دیا جاؤ تمہیں ریکٹر صاحب نے طلب کیا ہے۔جل تو جلال تو کا ورد کرتے حاضر ہوا تو یہاں کا منظر ہی اور تھا۔چند منٹ کی ملاقات کے بعد جب میں باہر آیا تو محسوس ہوا دل وہیں چھوڑے جا رہا ہوں۔تعلق بڑھتا گیا۔ایک شام میں اورافتخار سید ملک معراج خالد کے گھر گئے تو اندر سے قرآن کی تلاوت کی آواز سنائی دی۔ملک صاحب کے سارے احترام کے باوجود میں نے حیرت سے پوچھا: افتخار یار یہ تو مذہبی آدمی ہیں۔افتخار نے طنزیہ کہا: امیر المومنین صاحب کسی اور کو بھی مسلمان سمجھ لیا کرو۔۔۔۔ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا تھا۔تب پہلی دفعہ میں نے سوچا ،لاعلمی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ہم اپنی خیالی دنیا میں کتنے آسودہ تھے۔
ایک روز ملک معراج خالد نے مجھے ایک کتاب دی اور کہا: اسے ضرور پڑھنا۔کتاب کا نام تھاThe Myth of Independenceیہ ایک نئے بھٹو سے میرا تعارف تھا۔اس بھٹو کو تو میں جانتا ہی نہ تھا۔فیصل مسجد کے شمال میں ایک درخت تلے بیٹھ کر ایس ایم اے روؤف صاحب کی کلاس بنک کر کے میں نے یہ ساری کتاب پڑھ ڈالی۔بار بار یہ خیال آتا رہا: اگر یہ کتاب بھٹو کی ہے تو بھٹو سے نفرت کیسے کی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔اپنا گاؤں یاد آیا۔ساتھ وہی خیال پھر آیا:لاعلمی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ شریعہ اکیڈیمی کی لائبریری کھنگالتے کھنگالتے ایک روز یہ انکشاف ہوا کہ اس ملک میں شراب پر پابندی اسی اسلام دشمن بھٹو نے لگائی تھی تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ایک روز میرے ہاتھ پارلیمنٹ کی وہ ساری کارروائی لگ گئی جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔پہلی بار مجھے علم ہوا یہ کام بھی بھٹو کے دور میں ہوا تھا۔اب کے میں نے بھٹو کو اپنی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔فکری اور نظری بیساکھیاں میں نے ایک طرف پھینک دیں اور اللہ کا شکر ہے آج تک ان کا سہارا نہیں لیا۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ نے اعتراض کیا تو بطور وزیر اعظم پاکستان بھٹو نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی وہ ہمت حوصلہ اور ویژن کا شاہکار ہے۔آج کی دنیا میں کوئی اپوزیشن رہنما بھی اس لہجے میں امریکہ کا ذکر نہیں کر سکتا۔اتنی جرات اور اتنا ویژن۔فیض نے ٹھیک ہی تو کہا تھا:
’’ کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کیا لوگو
یہ کس کو تم نے سرِ دار کھو دیا لوگو‘‘
وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا اور ایک وقت آیا صدر پاکستان نے سپریم کورٹ میں بھٹو کی پھانسی پر صدارتی ریفرنس فائل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔وزارت قانون نے اس کیس میں مجھے بھی معاون وکیل کے طور پر منتخب کرنے کا عندیہ دیا۔انکار کی گنجائش ہی نہ تھی ،میرا تو یہ دلچسپی کا موضوع تھا۔بطور معاون وکیل جب میں نے اس کیس کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو حیرتوں کے جہاں مجھ پر وا ہوتے گئے۔اتنا تو مجھے اندازہ تھا کہ بھٹو کے ساتھ نا انصافی ہوئی لیکن اس ناانصافی کا انداز اتنا شرمناک ہو گا اس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جس جج کو بھٹو نے ترقی نہیں دی تھی وہ ناراض ہو کر رخصت پر بیرون ملک چلا جاتا ہے ، اس دوران ملک میں مارشل لاء لگتا ہے۔اسی جج کو بلا کر چیف جسٹس بنا دیا جاتا ہے۔وہ جج نجی محفلوں میں کہتا ہے بھٹو کو چھوڑوں گا نہیں۔بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کرتا ہے تو کہتا ہے سوچ کر ووٹ دیا کرو ورنہ تم پر بھٹو جیسے لوگ مسلط ہوتے رہیں گے۔تعصب اور نفرت صاف عیاں ہے۔ بھٹو درخواست کرتے ہیں آپ متعصب ہیں اس لیے یہ کیس نہ سنیں، جواب آتا ہے آپ کی درخواست مل گئی پہلے کیس کا فیصلہ کر لیں پھر آپ کی درخواست کو بھی دیکھ لیں گے۔بار بار منصب انصاف سے ارشاد ہوتا ہے تم سمجھتے کیا ہو خود کو؟ سیلن زدہ کوٹھری میں بھٹو کو سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے۔درکواست آتی ہے سماعت ملتوی کر دی جائے، سرکاری ڈاکٹر بھی کہتا ہے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ، اس کے باوجود شنوائی نہیں ہوتی۔جو جج بھٹو کی ضمانت لیتے ہیں ان کا وہ حشر کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے راستے ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔جس نے شراب پر پابندی لگائی، جس نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا اسے عدالت محض نام کا مسلمان کہتی ہے۔بھٹو اس پر احتجاج کرتے ہیں لیکن عدالت اپنے الفاظ پر نادم نہیں ہوتی۔قتل کے بعد اس کی لاش کو برہنہ کر کے تصویر اتار کر ضیاء الحق کو دکھائی جاتی ہے تا کہ وہ تسلی کر سکے بھٹو کافر تھا یا مسلمان۔امیر المومنین کی تسلی تو ہوئی یا نہیں معلوم نہیں لیکن تقدیر کا جبر دیکھیے مردہ بھٹو بھی آمریت کے ساتھ کیا کر گیا۔
بھٹو کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی ایک معمہ ہے۔اس پر چار اپریل کی بجائے تین اپریل کی تاریخ ڈلی ہے۔ پھر ایک جگہ پر کاٹ کر کچھ ٹھیک کیا گیا ہے۔ڈیتھ سترٹیفکیٹ پر ڈاکٹر کے دستخط ہی موجود نہیں۔یہ سب کیا کہانی بیان کر رہے ہیں؟کوئی تو تحقیق ہونی چاہیے۔
ہمارا المیہ یہ ہے ہم خانوں میں بٹ چکے ہیں۔ہمارے دکھ بھی سانجھے نہیں رہے۔ہمارے اپنے اپنے مظلوم ہیں اور ہم صرف اپنے مظلوموں پر ہونے والے ظلم کی مذ مت کرتے ہیں۔بھٹو صرف پی پی پی کا نہیں تھا۔اپنے مزاج کی ساری خامیوں کے باوجود وہ ایک قومی لیڈر تھا۔وہ ہم سب کا تھا۔دکھ صرف پی پی پی کا نہیں کہ بھٹو میرا بھی تو تھا۔تعصب کی بات الگ ورنہ یہ برائے وزنِ بیت نہیں ایک حقیقت ہے کہ بھٹو زندہ ہوتا تو آج ہم ایک قوم ہوتے۔شناخت کے بحران میں ٹامک ٹوئیاں نہ مار رہے ہوتے۔شاید اسے مارا ہی اس لیے گیا تھا کہ ایک قوم پرست رہنما پرائی جنگوں کا ایندھن بننے کو تیار نہ ہوتا۔اس کے بعد ہمارے ساتھ جو ضیاء الحقیاں ہوئیں ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply