تبدیلی اور ریاستی بقا کے تقاضے ؟۔۔اسلم ملک

ملکی اور عالمی قوتوں نے بوجوہ نئے سیاسی بندوبست کی تشکیل کے لئے دس سالوں سے قائم جمے جمائے جمہوری نظام کو جڑ سے اکھاڑ کے جس خوشنما تبدیلی کی جُوت جگائی،تمام تر دلفریبیوں کے باوجود اُس تراشیدہ سیاسی بندوبست کو دوام ملا نہ قومی سیاست کے اُن تواناکرداروں کو سیاسی اکھاڑے سے آوٹ کیا جا سکا جن سے نجات کی خاطر پیچیدہ عدالتی عمل اور احتساب کے بے رحم کوڑے سے مدد لی جاتی رہی،جولائی2018کے الیکشن کے بعد میاں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن جیسے کہنہ مشق سیاستدانوں نے جس خاموش مزاحمت کی بنیاد رکھی،اسی نے عمران خان کو چین سے حکومت کرنے دی نہ اس ہائیبرڈ نظام کو جڑیں گہری کرنے کا موقع  دیا،جس کی تشکیل کی خاطر وسیع پیمانے کی سیاسی و اقتصادی ناکامیوں کا رسک لیا گیا۔

ساڑھے تین سالوں پہ پھیلی اعصاب شکن کشمکش کے بعد زخم خوردہ اپوزیشن لانگ مارچ کی دھمکیوں،تحریک عدم اعتماد کے لئے ناقابل یقین جوڑ توڑ اور فارن فنڈنگ جیسے مہلک مقدمات کی پیروی کے ذریعے وزیراعظم کو اسمبلیوں کی تحلیل سمیت طاقت کے مراکزکے ساتھ الجھنے کی کیفیت تک لے آئی،حکومت میں اگر سیاسی نظام کو ریگولیٹ کرنے کی تھوڑی سی بھی صلاحیت موجود ہوتی تو وہ دیوار سے لگانے کی بجائے اپوزیشن کو انگیج کرکے اپنی کارگزاری بہتر بنا سکتی تھی لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ ملکی سیاست کی حرکیات اور اپوزیشن جماعتوں کی حقیقی قوت کا درست اندازہ لگانے میں غلطی کربیٹھی،اب بھی اگر اپنی کمزور حکومت کوبچانے کی خاطر سیاسی بدعنوانی کا سہارا لینے کی بجائے عمران خان مستعفی ہو کے عوام میں آ جائیں تو وہ قومی سیاست کو ایسی سنہری روایات دے سکتے ہیں جس کے معیار کی مثالیں وہ کنٹینر پہ چڑھ کے دیا کرتے تھے مگر افسوس کہ تیسری دنیا کے لیڈروں نے اخلاقی جرات کے فقدان کے باعث ہمیشہ اپنی مملکتوں کو دگرگوں رکھا۔

تاہم اس پیچیدہ سیاسی کشمکش کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان واقع خط امتیاز پہ چلنے کی کوشش میں پیپلزپارٹی کی پختہ کار قیادت نے اپنی اخلاقی ساکھ اورسیاسی مستقبل کو مخدوش بنا لیا۔2018کے متنازع   انتخابات کے فوری بعد جب گرینڈ اپوزیشن نے اسمبلیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرکے سسٹم کو مفلوج بنانے کی ٹھانی تو پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ کے اندر مقابلہ کی تجویز پہ اصرار کرکے نسبتاً محفوظ راہ عمل اختیار کرنے کی دلیل دی تھی جسے اپوزیشن جماعتوں نے چار و ناچار قبول کر لیا،اسی اجلاس میں وزارت اعظمی کے لئے نواز لیگ اور اسپیکر کے منصب کے لئے پیپلزپارٹی کو امیدوار سامنے لانے کا حق دیا گیا لیکن جب نوازلیگ نے شہبازشریف کو امیدوار بنایا تو مسٹر زرداری نے یہ کہہ کے اپوزیشن کا ساتھ دینے سے انکارکر دیا کہ وہ میاں شہبازشریف کو ووٹ نہیں دے سکتے،یوں پیپلزپارٹی کی جانب سے پیش کردہ یہ مہمل جواز عمران خان کے لئے وزرات اعظمی کے منصب تک پہنچنے کی راہ ہموار بنا گیا،جس کے بعد اپوزیشن اسپیکر کے مقابلہ میں مشترکہ امیدوار لانے کے قابل ہی نہ رہی۔چیئرمین سینٹ کے لئے مسلم لیگ کی طرف سے رضا ربانی کو متفقہ امیدوار بنانے کی فراغ دلانہ پیشکش کو مستردکرکے آصف علی زردای نے صادق سنجرانی کوسینٹ کا چیئرمین منتخب بنواکے نئے سیاسی بندوبست کو طاقتور اوراجڑی ہوئی اپوزیشن کو مزید کمزور کر دیا۔

صدراتی انتخابات کے مواقع پہ بھی مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار تسلیم کرنے کی برعکس بیرسٹراعتزازحسن کو میدان میں اتارکر ڈاکٹرعارف علوی کو منصب صدرات تک پہنچانا بھی زرداری صاحب کے دست مشکل کشاہ کی کرشمہ سازی تھی۔شاید اس نئے بندوبست کے اہم بینیفشری کی حیثیت سے انہیں یقین ہو گاکہ نوازلیگ اور جے یو آئی جیسی راندہ درگاہ جماعتیں پھر کبھی صریرآراءاقتدار نہیں ہو پائیں گی لیکن اب اِسی ہائیبرڈ نظام کی ناکامی کے نتیجہ میں تیزی سے بدلتی سیاسی صورت حال نے پیپلزپارٹی کی فرسودہ سیاست کو پیچھے چھوڑ کے جب ایوان اقتدار میں انکے قدم رکھنے کی گنجائش کو کم کیا تو مسٹر زرداری نے رائیونڈ جاکے خود ہی شہبازشریف کو وزارت اعظمی کا متفقہ امیدوار بنانے کی پیشکش کرکے اپنی سیاسی بصیرت کی تردید کرنے کے علاوہ ستائیس فروری کو ٹریکٹر ٹرالی مارچ جیسی بے مقصد مشق کے ذریعے اپوزیشن کی تقسیم کے تاثر کو اجاگر کرنے کا سوانگ رچانے کی بھی ٹھان لی،انہی ذہنی تضادات نے پیپلزپارٹی جیسی جمہوری پس منظر رکھنے والی جماعت کو پائے رفتن نہ جائے ماندن کی کیفیت تک پہنچا دیا۔

بظاہر یہی لگتا ہے کہ اگلے بندوبست میں پیپلزپارٹی کے لئے لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہونے کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے۔
بلاشبہ ہماری قومی تاریخ میں حکومتوں کی تبدیلی کے لئے سیاسی شورشوں یا انقلابی بغاوتوں کے بھڑک اٹھنے سے قبل ہی مقتدرہ اپنے مخصوص طریقہ کار کے مطابق ظاہری اور خفیہ مداخلتوں کے ذریعے رجیم چینج کے عمل کو ریگولیٹ کرتی رہی،جس سے انتظامی ڈھانچہ اورعوامی امنگوں کے مابین ٹکراو کی نوبت نہیں آئی لیکن فی الوقت پیش بینی میں کچھ تاخیر نے حالات کو گنجلک بنا دیا جس سے مقتدر قوتوں کی سیاسی نظام پہ گرفت ڈھیلی پڑگئی تو دریں اثناءہماری حکومت معاشی اور سیاسی عوامل کو ریگولیٹ کرنے میں ناکامی کی بدولت قوم کی اجتماعی خواہش سے تصادم تک آن پہنچی،چنانچہ اسی بندوبست کو اگر کسی مربوط سیاسی عمل کے ذریعے تحلیل نہ گیا تو ریاستی اور عوامی اداروں کے درمیان تصادم ہو سکتا ہے،اسلئے مقبول سیاسی جماعتوں کو باہمی تال میل کے ذریعے نئی صف بندی کی راہ دیکر ایسا کشن تیار کیا جا رہا ہے تاکہ ممکنہ سیاسی تبدیلی کی صورت میں مملکت کے اجتماعی وجود کو نقصان سے بچایا جا سکے۔اسی تناظر میں گورنمنٹ کی اتحادی جماعتوں کی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے علاوہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف سے خفیہ اور اعلانیہ ملاقاتیں اہمیت اختیار کر گئیں،خاصکرشہبازشریف کی چوہدری بردران سے بات چیت میں عبوری مرحلہ کےلئے پرویز الہی کو پنجاب کا وزیراعلی قبول کرنے کی پیشکش غیرمعمولی حالات کا پتہ دے رہی ہے

دنیا بھر میں سیاست کے ماہرین حکومت کی ناکامی کومعاشیات کے تناظر میں دیکھتے ہیں،اگرچہ کساد بازاری حقیقی آزاد منڈی میں موجود نہیں ہوتی لیکن حکومتی مداخلتیں پھر بھی معاشی ناکامیوں کے اسباب مہیا کر دیتی ہیں،جدید عالمی نظام میں ایسی گورنمنٹ بہت جلد قومی ریاست کی خودمختیاری اور لوگوں پہ حق حکمرانی کھو دیتی ہے،جو اپنے شہریوں کی کلیدی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہو جائے،کچھ ایسی ہی کوتاہیوں کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل نے پی ٹی آئی گورننمنٹ کو ناکامی کی کھائی تک پہنچا دیا۔ایک ایسی صورتحال جس میں کھیل کے قوانین کے مختلف سیٹ ایک ہی ماحول میں ایک ساتھ رہنے کے باوجود شہریوں اور اقتصادی ایجنٹوں کو پیچیدہ اور ناقابل یقین حالات کی طرف دھکیل رہے ہیں اور حالات کی یہی جبریت انہیں ایک سے دوسری ادارہ جاتی کیفیت میں حکمت عملی کے ساتھ منتقل ہونے کے اسباب مہیاکرنے والی ہے تاہم ریاستی نظام میں اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والے اہلکاروں کی صلاحیتیں، مہارتیں اور ریاست کے ذیلی نظام کے اندر تنظیمی ثقافت کی جدلیات،مخالف آوازوں اور سیاسی سرگرمیاں کو قانونی تشددکے سہارے دبانے کی کوشش میں سیاسی تنازعات کو مزید بڑھانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان حالات میں ایک ترقی پذیر ریاست کی سیاسی و معاشی ناکامیوں اور جنگ دہشتگردی کے مضمرات کو سنبھالنے اور بعد کی تعمیر نو کا جائزہ لینے کے لئے تنازعات کی معاشی بنیادوں اور باہمی انحصار کو سمجھنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔اوپر بیان کردہ اصولوں کے مطابق گورنمنٹ کی ناکامی کی نوعیت کے بارے جاننے کے لئے اس بات کی وضاحت ضروری تھی کہ آخر ترقی پذیر ریاستوں میں سیاسی نظم و ضبط کو کیسے برقرار رکھا جائے۔درحقیقت،ہمیں درپیش مسائل اور موجود شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ طاقت کے مراکز کی سرپرستی ریاستی لچک میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اس تعلق کے بنیادی میکانزم کو برتنے کے لئے بھی مزید تحقیق کی ضرورت پڑے گی۔مرکزی قوت کی سرپرستی سے متعلق کچھ ابتدائی عوامل سے تو ہم سب واقف ہوں گے کہ یہ گورنمنٹ کے منتظم اعلیٰ  کو تب ہی اس قابل بنا سکتی ہے جب چیف ایگزیکٹو خود سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے میں وسیع دلچسپی رکھتا ہو لیکن اب کی بار صورت حال اس کے برعکس نکلی، وزیراعظم نے سیاسی استحکام کو اہمیت دینے کی بجائے اپنی بقاءکی اساس سیاسی بدنظمی اور انتشار پہ رکھ لی اور یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں بلکہ شعوری کوشش تھی کہ حکومت نے دانستہ، پرتشدد کارروائیوں کو محدود رکھنے والی اُس مضبوط قومی سیاسی تنظیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جس سے ایک وفادار قوم اور متحد فوج کی تشکیل کے امکانات پیدا کئے جا سکتے تھے۔اگرچہ اس سے تمام گروہی تنازعات تو ختم نہ ہوتے لیکن یہی پیشقدمی سودے بازی کے لئے ادارہ جاتی تناظرضرور فراہم کرتی جو ریاست کی ناکامی کو متحرک کئے بغیر معاشی جھٹکوں اور بحرانوں کو سہنے کے لئے نسبتاً لچکدار ماحول مہیا کرتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply