مطالعہ بیتی قسط سوم

1: کاروان زندگی
پانچ جلدیں
کل صفحات: 1977
مصنف: مولانا سید ابوالحسن علی الندوی رح
مکتبہ: مجلس نشریات اسلام

یہ کتاب مولانا ابوالحسن علی الندوی رح کی سر گذشتِ حیات اور آپ بیتی ہے بلکہ ایک معلم، مصنف، مورخ اور داعی کی ذاتی زندگی کے تجربات، مشاہدات، تاثرات اور احساسات کا مجموعہ ہے.
ہر جلد پر الگ بات کریں گے تو طوالت کا خدشہ ہے ، مجموعی طور پر یہ کہنا بجا ہوگا اپنے عہد کی ایک زندہ تاریخ ہے.
مذکورہ کتاب میں ہندوستان اور عالم اسلام کے واقعات وحوادث اور تحریکات وشخصیات کے حوالے سے تاریخ کا ایک اہم باب محفوظ ہوگیا ہے .
عام مورخ تاریخ لکھتے وقت ایک خاص ضابطے کا پابند ہوکر ایک مخصوص قسم کے واقعات اور احوال رقم کرتا ہے، لیکن ایک مصنف، صاحب قلم اور انشاء پرداز بڑے بے لاگ انداز سے ان واقعات وحوادث کو نوک تحریر میں لے آتا ہے جو عام عرفی تاریخ کا حصہ نہیں بن پاتے، اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے کاروان زندگی کو ایک مورخانہ اور حقیقت پسندانہ جگ بیتی کہنا مناسب ہوگا.
کاروان زندگی ایک تاریخی دستاویز، ادبی مرقع اور دعوت فکر عمل کا بھترین خزانہ ہے،
اس کتاب کو بطور تاریخ پڑہنا کار آمد ہوگا.
2:تبصرے
مصنف شیخ الاسلام علامہ محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ تعالی
صفحات: 520
پبلیشر: ادارہ المعارف کراچی

یہ کتاب شیخ صاحب کے ان تبصروں کا مجموعہ ہے جو وہ البلاغ رسالے میں لکھتے رہے،
گذشتہ دنوں جامعہ الرشید میں آداب تحریر کورس میں تبصرہ نگاری پڑھا تو استاد محترم عبدالمنعم فائز صاحب نے یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا.
کتاب پڑھ کر شیخ صاحب کی محبت میں مزید اضافہ ہوا.

البلاغ میں تبصرے کے لیے آنے والی کتب مختلف مضامیں، مختلف علوم اور شعر وشاعری وغیرہ پر مبنی ہوتی تھیں، لیکن جب شیخ صاحب کسی کتاب پر تبصرہ لکھتے تو اندازہ ہوتا کہ شیخ صاحب اسی میدان کے شہسور ہیں، لیکن جب کسی اور عنوان پر علمی گفتگو کرتے تو ایسا لگتا کہ شیخ صاحب نے اس فن پر شاید بیسیوں کتابیں پڑھ رکھی ہوں.
تبصرہ کا انداز اتنا پیارا کہ کتاب کی وقعت بھی ختم نہ ہو اور مفید مشورے بھی اشاروں کنایوں میں فرما دیتے ہیں.
بعض اہل علم کی کتب اور ان کی رائے سے علمی اختلاف بھی کیا اور اس پر وسیع دلائل بھی دئیے.
یہ کتاب پڑھ کر شیخ صاحب کی وسعت علمی اور وسعت مطالعے کا اندازا لگایا جا سکتا .
3: ڈیورڈ لائن کا قیدی
مصنف: فیض اللہ خان
صفحات: 230

زلفوں والی سرکار کی کتاب بالآخر ہم نے پڑھ ہی لی، کتاب سیک سیمینار والے دن ہی حاصل ہوگئی تھی، لیکن کتاب ایسی ہے کہ کوئی ایک دفعہ اٹھا لے ختم کیے بغیر واپس نہیں کرتا،
تقریبا دس دوستوں نے زبردستی چھین کر یہ کتاب پڑھ لی، میں ہر بار بار یہ دہائیاں دیتا رہا ظالمو!
مجھے تو پڑھنے دو، ہر بار یہی جواب ملتا کہ تم تو کتاب کے مالک ہو جب فارغ ہوگی پڑھ لینا ہم کہاں سے پڑہیں گے،
رات ہی ایک طالب علم نے صرف دیکھنے کے لیے اٹھائی اور رات گئے پڑھتا رہا، نگران استاد نے جب ہاسٹل کا چکر لگایا تو کتاب ضبط کرلی، فجر کے فورا بعد وہی طالب علم آیا اور مایوسی سےکہنے لگا استاد جی!
کتاب دلائیں اب کتاب ختم کیے بغیر بے چینی بڑھتی جارہی ہے.
لیکن نگران استاد نے اس شرط پر مجھے کتاب واپس کی کہ اب کسی طالب علم کو نہیں دو گے، کیونکہ ان کے امتحان سر پر ہیں، اور جس کے ہاتھ یہ کتاب لگے وہ کچھ اور نہیں پڑہتا.
تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اسی کیفیت سے مجھے بھی دو چار ہونا پڑا،
صبح آٹھ بجے کتاب شروع کی دیگر مصروفیات کے ساتھ آج شام 4:30 پر کتاب ختم کرلی.
کتاب پڑہتے ہوئے ایک سنسنی سے لگی رہی کہ اب کیا ہوگا، اب کیا ہوگا؟
لیکن کتاب پڑہتے ہوئے یہ اندازہ ہوا کہ ایک بہترین آپ بیتی کے ساتھ ایک تاریخی کتاب بن چکی ہے .
بہت سے ایسے حقائق کتاب میں آگئے ہیں شاید ہی وہ کسی تاریخ میں ذکر ہوتے .
افغانستان کے حالات، پاکستان کے ساتھ رویہ، طالبان سے ملاقاتیں، ان کے انٹر ویوز سب عنوان اپنی افادیت سے بھرپور ہیں.
کتاب ورق ورق داستان، لفظ لفظ حقیقت ہے.
کتاب میں بہت سے مخلص انسانوں کا تذکرہ ملتا ہے تو مکروہ چہرے بھی آشکارا ہوتے ہیں.
کتاب پڑھ کر جہاں فیض بھائی کی رہائی کے لیے کوشش کرنے والے تمام احباب کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے تو وہاں قاری" سنعیہ "جیسی بہادر اور صبر کرنی والی قوم کی بیٹی کو داد دئیے بغیر نہیں رہ پاتا.

کچھ مصنف کے بارے میں:
فیض بھائی اگر چہ مفاجاتی طور پر مصنف بنے ہیں لیکن کتاب سے قبل اور تاحال میں ان کی ایکٹیوٹیز کو غور سے دیکھ رہا ہوں ، کتاب سے قبل میں فیض بھائی سے انجان تھا لیکن اب ہر معاملے میں فیض بھائی کے تجزیے کا منتظر رہتا ہوں، فیض بھائی مختصر اور بے لاگ تبصرہ پڑھ کر حیران رہ جاتا ہوں ،
چند لفظوں میں وہ بہت زیادہ حقائق کہہ جاتے ہیں .
اللہ نے ان کو عام سادہ تحریر کا ملکہ عطا کیا ہے ،
فیض بھائی ایک سنجیدہ اور سلجھے ہوئے تجزیہ نگار کی حیثیت سے ترقی کر رہے ہیں، دعاگو ہوں اللہ فیض بھائی کو مزید ترقیوں سے نوازے.
اداروں سے درخواست ہے کہ وہ فیض بھائی کی صلاحیتوں کی قدر کریں ان کو صلاحیتوں کے عوض نوازیں.
امید ہے فیض بھائی ملک وملت کے لیے اہم کردار ادا کریں گے.

Advertisements
julia rana solicitors

فیض بھائی کو ایک مشورہ:
پاکستان کے حالات کے متعلق فیض بھائی اپنے مشاھدات وتجربات اور وسیع احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خود نوشت ترتیب دیں، ان شاءاللہ آنے والے وقتوں کے لیے یہ آپ بیتی ایک تاریخ ہوگی اور بہت پسند کی جائے گی.
بلکہ آپ کے تجزیوں سے ہمیں بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا اور مزید گذارش یہ تھی سوشل میڈیا سے ہٹ کر آپ کسی اخبار کو بطور کالم نگار جوائن کرلیں تو پڑہنے والوں کے لیے ایک بہترین کالم نگار کا اضافہ ہوگا، اس سے آپ کی صلاحتیں مزید بڑھیں گی اور قارئیں کو بہت فائدہ ہوگا اور آپ کی تحریریں مستقل کتاب کی صورت میں ہمیشہ کے محفوظ ہوجائیں گی.
4: تعبیر کی غلطی
مصنف: مولانا وحید الدین خان
صفحات: 344
شائع کردہ: مکتبہ قاسم العلوم
اس کتاب میں مولانا نے یہ بیان کیا ہے کہ مودودی رح نے جس انداز سے دین کی تشریح کی ہے وہ تشریح صحیح نہیں، بلکہ ایک صورت میں دین کی تحریف ہے، اس کے متعلق مولانا مودودی رح سے لے کر جماعت کے اہم ذمہ داروں اور امراء سے مولانا کی خط وکتابت رہی لیکن کسی نے ان کے سوالوں کاتشفی بخش جواب نہیں دیا، مجبورا انہوں نے وہ اعتراضات تعبیر کی غلطی کی صورت میں شائع کردئیے.
اس کتاب کی اشاعت کے متعلق مولانا لکھتے ہیں کہ "اس کتاب کی اشاعت میرے اوپر کتنی سخت ہے اس کااندازہ آپ کر سکتے ہیں، میرا جی چاہتا ہے کہ اس کے شائع ہونے کے بعد میں کسی ایسی جگہ جاکر چھپ جاؤں جہاں کوئی شخص مجھے نہ دیکھے، اور پھر اسی حال میں مر جاؤں .
کتاب کی نزاکت کا اندازہ آپ مولانا کی مذکورہ عبارت سے لگا سکتے ہیں.
کتاب پڑھ کر مجھے بھی احساس ہوا کہ مودودی صاحب کی تشریح واقعی غلط ہے.
پڑہیے! ساری تفصیل اس کتاب میں.
5: لوح ایام
مصنف: مختار مسعود
صفحات: 494
مختار مسعود آر سی ڈی کے جنرل سکریٹری تھے، ان دنوں مختار صاحب تہران میں رہائش پذیر تھے، جب ایران ایک بڑے انقلاب سے گذر رہا تھا، لوح ایام ایرانی انقلاب کی آنکھوں دیکھی کہانی یے، بلکہ میں دوستوں سے کہتا ہوں آج بھی انقلاب کی لائیو کوریج دیکھنی ہے تو لوح ایام پڑھیں.
انقلاب کیا ہوتا ہے؟
مختار مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ:
"انقلاب خواہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہوجائے اس کی داستان ہمیشہ تازہ رہتی ہے. امید اور عمل، بیداری اور خود شناسی، جنون اور لہو کی داستان بھی کبھی پرانی ہوسکتی ہے.زمانہ اس کو بار بار دہراتا ہے. فرق صرف نام، مقام اور وقت کا ہوتا ہے. "
مختار صاحب کی نثر میں ایسی برجستگی، لطافت وظرافت پائی جاتی ہے کہ کتاب بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے.

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply