قوم خود کو پہچانے!

اس قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے۔یہ بہت جلد بھول جاتی ہے ۔اسے نسیان کا مرض لاحق ہے۔کئی ماہرین نے علاج کرنے کی کوشش کی اور گاہے بہ گاہے ہوتی رہتی ہے لیکن اس قوم کا حافظہ درست ہونے سے قاصر ہے۔اس کا حافظہ وقتی طور پر درست رہتا ہے لیکن کچھ دنوں بعد سب کچھ پھر بھول بھال جاتا ہے۔یہ قوم سختی، پریشانی، تکلیف، دکھ درد سب کچھ سہتی رہتی ہے۔لیکن یاد نہیں رکھتی کہ میرے ساتھ کب، کیا زیادتیاں ہوئیں؟ کاش کہ اس قوم کا حافظہ درست ہوجاتا اور اسے یہ سمجھ آجاتی کہ میرے ساتھ ستر سال سے کیا زیادتیاں ہو رہی ہیں؟ اور زیادتیاں کرنے والے بھی کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں۔کوئی ہندوستان کے راجا مہاراجا نہیں بلکہ اسی ملک کے اسی قوم کے نام نہاد ہمدرد ہیں۔۔کاش یہ قوم بجائے تالیاں بجانے کے سمجھداری کا مظاہرہ کرتی اور دھتکارتی ایسے نام نہاد لیڈروں کو جس سے نہ قوم کو کوئی فائدہ پہنچا نہ ملک کو بلکہ دعویٰ سے کہا جاسکتا ہے کہ ان سے اپنی جماعت کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہوگا اور یہ قوم ان کے لیئے ناچ بھنگڑے کرتی ہے۔ اس قوم کو کوئی بتاتا کہ یہ ملک بڑا زرخیز ہے۔اس میں دنیا کی ہر نعمت ہے۔یہاں بہترین نہری نظام بھی ہے اور دنیا کے بہترین پھل بھی پائے جاتے ہیں۔یہاں قدرت کی دی ہوئی ہر شے موجود ہے ۔یہاں نمک کی بڑی بڑی کانیں ہیں جو ہزاروں سال نمک پیدا کر سکتی ہے۔یہاں قدرتی گیس ہے۔یہاں دنیا کا بہترین اور گہرا سمندر ہے جسے دنیا آج سی پیک کے نام سے جاننے لگی ہے۔یہاں چاروں خوبصورت موسم ہیں۔یہاں قدرت کے حقیقی اور خوبصورت نظارے ہیں۔حتی کہ دنیا کی ہر شے اس ملک میں موجود ہے۔ لیکن افسوس قوم ان حقیقی نعمتوں سے محروم ہے۔آج اگر قوم یہ سمجھتی ہے کہ میری یہ حالت اس ملک کی وجہ سے ہے تو یہ اس کی کمزوری ہے۔اس ملک نے سب کچھ دینے کی کوشش کی لیکن اس قوم کو غلامی کی عادت سی پڑ چکی ہے۔وہ غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہی نہیں ہونا چاہتی۔اب اگر یہ قوم خوشیاں سمیٹنا ہی نہیں چاہتی تو کیا کیجئے؟ اب بھی وقت ہے خود کو پہچاننے کا ،اپنے لیئے نہ سہی اپنی آنے والی نسلوں کا سوچیئے۔کیا وہ بھی ایسی ہی بد سے بدتر زندگی گزاریں گی؟ اگر خود کو بدلنا ہے تو سوچ بدلنا ہوگی اور اگر سوچ کو بدلنا ہے تو بیدار ہونا پڑےگا اور جب بیداری آئے گی تو حافظے کو بھی تقویت ملے گی اور پھر کھرے اور کھوٹے کی پہچان بھی ہوگی اور جب یہ تمام چیزیں قوم میں امڈ آئیں گی تو پھر کسی چور ڈاکو کو اتنی جرات نہیں ہوگی کہ وہ اس قوم کو چونا لگائے۔آخر کب تک لُٹتے رہیں گے؟ کیا ہمیں کبھی کوئی شناخت ملے گی؟ ان گِنت سوالات کا جواب کون دے گا؟

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply