محبت اور عزتِ نفس

کسی کے پاؤں پکڑ کر گڑگڑا کر سر قدموں میں رکھ کر بھیک تو مل سکتی ہے، خلوص ،عزت اور قدر نہیں..اکثر لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں جسے عقیدیہ کہا جائے تو بہتر ہوگا۔۔ اپنی ذات کو رول کے ،مٹی میں مل کے ،عزتِ نفس کھو کے بھی محبت ملتی ہے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔۔ میں اس سوچ کو بیمار سوچ نہ کہوں تو کیا کہوں۔کیا زندہ رہنے کے لیے محبت ہی سب سے اہم ہے ؟جو لوگ محبوب کے قرب کو ہی کُل کائنات سمجھتے ہیں انہیں یہ واقعہ جو کہ حقیقت پر مبنی ہے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔۔
ایک خاتون نے کزن سے پسند کی شادی کی۔۔اب معاملات ملاحظہ ہوں کہ لڑکے کا خود کا گھر نہیں ،نوکری نہیں ،کماتا کچھ نہیں پر عشق کے بھوت جب سر چڑھ جائیں تو ننگا کر کے ہی اترتے ہیں۔۔خیر شادی ہوئی، کچھ وقت اچھا گزرا، لڑکی کے اکلوتے بھائی نے مالی معاونت جاری رکھی پر ایک انسان جس کی معمولی نوکری ہو اپنی بیوی بچے ہوں وہ آخر کتنا ساتھ دے گا اور سونے پر سہاگہ کہ لڑکے کے مطالبات بھی بڑھنے لگے کہ یہ چاہیے وہ چاہیے یوں گھر کا ماحول خراب ہونے لگا حد تب ہوئی جب لڑکے نے پانچ لاکھ روپے خاتون کے بھائی سے مانگے کہ اگر نہ دئیے تو بہن کو گھر لے جاؤ۔۔ ایک عام آدمی جس کی تنخواہ سے گھر مشکل سے چلتا ہو اتنے پیسے کہاں سے لاتا۔۔ یوں بقول شاعر
محبت ہو چکی پوری
چلو اب زخم گنتے ہیں!
خاتون کو طلاق دے دی گئی اور آج کے دور کی سچی محبت کو ایک اور سند ملی۔ میں اسٹیٹس دیکھنے کا نہیں کہہ رہا، رتبہ دیکھنے پر اصرار نہیں ہے،لیکن یہ التجاء ضرور ہے کہ محبت وہاں کرو جہاں کوئی قابل ہو، مانتا ہوں کہ محبت پر اختیار نہیں پر خود پر تو ہے۔۔ ایسی محبت جس میں عزت نہیں ،ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ،وہ محبت کس کام کی؟ محبت سکون کا نام ہے محبت جذبات کی بلندی کا نام ہے محبت عزت کا نام ہے، یہ پاک جذبوں کی الوہی داستان ہے،یہ چند بدبو دار لمحوں کی کہانی نہیں۔۔ محبت وہ نہیں جس میں سکون نہیں ،جس میں خلوص نہیں وقتی پسندیدگی کو محبت کا نام دے کر کسی کی زندگی مت خراب کرو، وقت گزاری کے لیے اور بھی بہت کچھ میسر ہے۔۔ دل، جذبات، احساسات کو مت چھیڑیں! جسے محبت دیں اسے اتنا اختیار دیں کہ وہ اپنی عزتِ نفس کو قائم رکھ سکے۔

Facebook Comments

علی حسین
منٹو نہیں ،منٹو جیسا ہوں ،معاشرے کو کپڑے پہنانے کی کوشش نہیں کرتا!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply