یادوں کے جھروکے سے __ ” اچھی امی “

بچپن کی چند شخصیات اور حادثات ایسے ہوتے ہیں جو آپ کی شخصیت پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں .ان ہی لوگوں میں ایک شخصیت “اچھی امی ” کی تھی ..وہ میری والدہ کی رشتے میں پھوپی تھیں .میری والدہ کے زیادہ عزیز و اقارب کراچی میں مقیم ہیں ،اسلئے بچپن میں اکثر گرمیوں کی چھٹیاں وہاں گزرنے کا اتفاق ہوا . وہ دن بھی کیا دن تھے ،جیسے ہی چھٹیاں قریب آتیں یہ امید بندھ جاتی کہ شاید کراچی جانا ہو ..میں جب پانچ سال کی تھی تو پہلی مرتبہ ایک شادی پر گئی تھی ،پھر چھٹی جماعت میں دوبارہ کسی کی شادی تھی خاندان میں تو جانا ہوا ،ان دنوں کے نقوش بھی تازہ ہیں ذہن میں لیکن جب میں ساتویں میں تھی تو کراچی جانا اور اچھی امی کے گھر میں قیام ہمیشہ کے لئے ثبت ہو گیا میرے ذہن پر .
دو مہینے کی چھٹیوں کا کام پندرہ دن میں ہی ختم ہو جا تا . ایسا نہیں تھا کہ کراچی میں گرمی نہیں پڑتی تھی مگر پنڈی کی چلچلاتی گرمی سے کراچی کی خنک شامیں پھر بھی بہتر تھیں اور پھر سمندر کی سیر کیا ہی بات تھی ، پھر ٹرین کے سفر کی تیاری، ناشتے دان میں پراٹھے ،آلو کی ترکاری ،کباب رکھے جاتے ،کولر میں برف ڈال کر پانی بھرا جا تا ، کپڑے چھانٹ چھانٹ کر بکس میں پیک کئے جاتے ، ٹرین کی سیٹس پہلے بک کی جاتیں اور یہ بھی اطمینان کر لیا جا تا کہ “برتھ ‘ ملی ہے کہ نہیں تاکہ دو دن کا سفر آرام سے گزرے ،غرض ایک چہل پہل اور ہنگامہ بپا ہوتا گھر میں ..
جانے کیوں پچھلے دور میں بزرگو ں کو ایسے نام دئیے جاتے ” اچھے ابا ” جیسے وہ اچھا کہنے پر ہی “اچھے ” هوں گے .. یا “نانا ماموں ” ،اب یہ نانا بھی اور ماموں بھی ،ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا ،پر قبول کر لیا جاتا کہ بزرگوں کا بے حد احترام کیا جاتا تھا.
خیر ہماری امی کی رشتے کی پھوپی تھیں اس لئے “اچھی امی ‘ کہلاتیں .بہت ہی وضح دار اور رکھ رکھاؤ والی خاتون تھیں ، درمیانہ قد، فربہی مائل جسم ، اور چہرے پر چیچک کے داغ ،پختہ رنگ اور سیاہ چمکتی ہوئی آنکھیں ، کھچڑی بال ( یعنی کچھ سفید کچھ سیاہ )،ہر وقت سلیٹی یا سفید غرارے ، سفید قمیض میں ملبوس رہتیں ، سر پر سفید جالی یا شیفون کا بڑا دوپٹہ .چلتیں تو غرارہ فرش کی صفائی کرتا رھتا .ان کی عمر تو نہیں معلوم تھی لیکن شاید پچپن یا ساٹھ کے درمیا ن رہی ہوں گی ،ہم بچوں کو تو سب لوگ بوڑھے ہی لگتے تھے . بیوگی کی زندگی گزار رہی تھیں ،امی کا کہنا تھا کہ بہت کم عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں ،اکلوتا بیٹا نیوی میں کپتان تھا لہٰذا اپنی بیگم کے ہمراہ زیادہ تر ملک سے باہر ہی رہتا_
بس وہ تھیں اور “نانا ابو ” ( امی کے رشتے کے چچا اور اچھی امی کے جیٹھ ،وہ بھی ایک ہما جہت شخصیت کے حامل تھے ،ان کا ذکر پھر کبھی )، تنہائی اور اکیلے پن کا شکار رہتیں اسلیئے ہمارے آ نے سے گھر میں رونق آ جاتی سراپا شفقت اور محبت تھیں . بات بات میں شگوفے چھوڑنا ، ہنسنا ،اور مزے مزے کے قصے سنانا ،ہم سے بہت پیار تھا .اکثر باورچی خانے میں قسم قسم کے پکوان بناتیں اور سب بچوں کو کھلا کر بہت خوش ہوتیں .ہمارے بھی مزے تھے کہ ایک تو امی کی ڈانٹ اور سرزنش سے بچے رہتے اور خوب خوب عیاشی ہوتی ،تپتی دوپہر میں چھت پر چڑھ کر پڑوسی کے درخت سے کچی کیریاں ( کچے آم ) توڑے جاتے اور وہ صحن میں کھڑے ہو کر چپکے چپکے ہدایات بھی دیتیں کہ یہاں سے توڑ لو ..پھر ان کریوں کی چٹنی بنتی ،یا کڑھائی اچار بنتا ..چٹنی شام کو گرم گرم سموسوں یا پکوڑوں کے ساتھ اڑائی جاتی . چینی کےمرتبانوں میں قسم قسم کے بسکٹ بھر کر رکھتی تھیں ،اور چاۓ پر سب بچوں میں برابر تقسیم کرتیں .
ایک قصہ جو وہ اکثر سنایا کرتی تھیں ،آپ بھی سنیئے ان ہی کی زبانی ..
“یہ پچاس کی دہائی کی بات ہے ہم نئے نئے ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آے تھے .اور کراچی میں ناظم آ باد میں مقیم ہوے ، تمہارے “اچھے ابو ‘ کیوں کہ ڈاکٹر تھے اسلئے قریب ہی ان کا کلنیک تھا ،صبح اور شام دو وقت بیٹھتے تھے .ہم گھر میں اکیلے بیٹھے بیٹھے بور ہوتے ،لہٰذا ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر شام کو مغرب سے پہلے چہل قدمی کے لئے باہر چلے جاتے ،ایک دن ایسا ہوا کہ چہل قدمی کرتے کرتے دیر ہو گی ،ہم کچھ زیادہ ہی دور نکل آے تھے ،سو جلدی جلدی قدم اٹھاتے واپسی کو ہو لئے اب دل میں یہ کھد بد بھی جاری تھی کہ دیر ہو گئی ہے اور اندھیرا ہونے سے پہلے گھر پہنچنا ہے اوردل میں یہ خوف بھی کہیں نا کہیں جا گزیں تھا کہ کہیں راستہ نا بھول جائیں ،سو لشتم پشتم ،ادھر ،ادھر دیکھے بنا دوڑے جا رہے تھے ،ڈاکٹر صاحب کے کلینک کے سامنے سے گزرے تو سوچا اندر چلے جائیں اور ایک سے دو بھلے پھر خیا ل آیا کہ وہ مصروف ہوں گے اور ہمیں دیکھ کر ڈسٹرب نہ ہوں اسلئے سر جھکا کر آگے چل پڑے ،تھوڑی دیر میں ایسا محسوس ہوا کہ ہمارا کوئی پیچھا کر رہا ہے ،ادھر یہ پریشانی بھی لاحق کہ کہیں صاحب پہلے نہ گھر پہنچ جائیں .خیر اب ہم آگے آگے اور وہ ” موا نا مراد ، مردود ‘ پیچھے پیچھے ، خوف سے جان نکلی جا رہی تھی اور یہ بھی خیال تھا کہ کسی نے دیکھ لیا اس شخص کو ہمارا پیچھا کرتے تو کتنی بدنامی ہو گی وہ ذرا سانس لینے کو ر کتیں اور ہمارے سارے وجود میں جیسے پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتیں پر دم سادھے بیٹھے رہتے ،ہنسی کوضبط کرنا مشکل ہو جا تا ..وہ ہم پر گھور کر نظر ڈالتیں اور پھر گویا ہوتیں ..
یوں مانو کہ اس کے اور ہمارے درمیان ٹھن گئی تھی ، اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا اور ہمیں تو جیسے پر لگ گئے تھے،اڑے جا رہے تھے بے نیل و نرام (افففف فرشی غرارے میں اچھی امی اڑتی ہوئی کیسی لگ رہی ہوں گی ،یہ سوچ سوچ کر ہمارے پیٹ میں ہنسی کا غبارہ بھر جاتا پر قہقہہ نہیں لگا سکتے تھے )، وہ شخص بھی بہت ہی ڈھیٹ تھا،ایک دو بار ،کھانس کر ہمیں متوجہ بھی کرنے کی کوشش کی ایک بار مڑ کر دیکھا بھی ؛پر اندھیرے میں کچھ خاص نظر نہیں آیا ،ادھر خوف نے خون خشک کر رکھا تھا .اس کی شکل کہیں دیکھی بھالی بھی لگ رہی تھی ،مگر ہم نے تو جیسے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی ،اس کی ایک نہ سنی ،ذہن میں بھی ایسی سنی سنائی اکا دکا وارداتوں کی بازگشت جاری تھی جس میں خاتون کو اغوا ،یا پرس چھین لینے کے منظر فلم کی طرح چل رہے تھے .ہم پسینے میں شرابور ،آخر گھر کے دروازے تک پہنچ ہی گئے ،اب جو مڑ کر دیکھا تو وہ مردود ہمارے پیچھے اطمینان سے کھڑا مسکرا بھی رہا تھا
ہم تو بیہوش ہوتے ہوتے بچے اور کوئی وقت نہیں جاتا تھا کہ چپل اتار کر اس کی تواضح کریں کہ وہ گویا ہوا “ایسی بھی کیا جلدی اور ہیبت تھی کشور (اچھی امی کا نام ) کہ آپ نے مڑکر نہیں دیکھا کئی بار آپ کو آواز بھی دی ” اب جو غور کیا تو وہ ڈاکٹر صاحب ہی تھے جو کلینک سے ہمارے پیچھے پیچھے چلے آ رہے تھے اور ہماری بد حواسی دیکھیئے ان کو ہی نہ پہچان پاے ..
اور ہم بچے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتے اور وہ بھی ہماری ہنسی میں شامل ہو جاتیں ،اس لحمے ان کے چہرے پر بیتے دنوں کی پرچھائیاں رقص کرتیں اور یادوں کا ایک ہجوم آنکھو ں میں اتر آ تا .. مجھے ان آنکھوں کی نمی کبھی نہیں بھولتی ..آج بھی میرے دل میں ویسے ہی بستی ہیں وہ یادیں اور لاشعور کے نہاں خانے سے جھانک کر کبھی کبھی کچھ کھو دینے کا احساس دلاتی ہیں …

Facebook Comments

فرحین جمال
قلمی نام : فرحین جمال تاریخ پیدایش : 31 دسبر . لاہور ،پاکستان . تعلیم : بیچلر ز ان سائنس ، بیچلرز ان ایجوکیشن ، ماسٹرز ان انگلش ادب پیشہ : درس و تدریس . خود ہی خیر آباد کہہ دیا پہلا مطبوعہ افسانہ : ' کھیل ' ثالث 2013، "رجو ' 2015 شمع دہلی، 'رجو '2015 دبستان ادب ، "آنگن "2014 ثالث ، "وقت سے مسابقت " سنگت 2016، "سرد موسموں کے گلاب " ثالث فکشن نمبر2016، ""سرخ بالوں والی لڑکی ' سنگت 2016 ، "دیوی " 2016 ، افسانے جو مشہور ہوے " میں کتاب "نقش پائے یوسفی" میں ایک تحریر شامل ،ابھی زیر طبع ہے افسانوی مجموعہ ، سال اشاعت ابھی تک کوئی بھی نہیں ..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply