قرآن فہمی کے لئے ترجمے کی ناگزیر باریک بینی کا شعور

قرآن مجید میں ترجمے کے درست مفہوم تک رسائی کے لئے لفظی باریکیوں کو پیش نظر رکھنا بے حد ضروری ہے ۔ زبان کے حوالے سے یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ ہر زبان کا اپنا ایک مختلف پس منظر ہے، اور بہت ممکن ہے کہ اس پورے منظر نامے میں لفظ و معنی کی تشکیل ایک زوایے سے کامل ہو جبکہ کسی دوسرے پہلو سے ناقص۔ اس مسئلہ کی ایک نظیر یہ ہے کہ عربی زبان میں اونٹ اور شیر کے سینکڑوں نام پائے جاتے ہیں، اور ہر نام ایک خاص حالت سے متعلق ہوتا ہے، لیکن اس کے بالمقابل ہزار کے عدد سے اوپر کوئی لفظ ہی سرے سے نہیں پایا جاتا ، یہی مسئلہ انگریزی اصطلاحات کا اردو میں منتقلی کاہے۔ اردو میں انگریزی اصطلاحات کا متبادل لفظ نہیں ملتا، ایسی صورتحال میں عموما یہ ہوتا ہے کہ انگریزی لفظ اپنے معنی سمیت دوسری زبان میں منتقل ہوجاتاہے، کیونکہ تکنیکی اعتبار سے ترجمے کے دوران اردو زبان کا "ایک لفظ" مرادی معنی سمیٹنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے ۔
قرآن مجید چونکہ عربی زبان کے انتہائی عروج کے زمانے میں نازل ہوا، ایسے موقع پر معنویت کی انتہائی باریکیوں کا ابلاغ الفاظ میں شدید تنوع کو جنم دیتا ہے۔
مثال کے طور پر "فواد" اور "قلب" دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں، لیکن اردو میں اس کا ترجمہ "دل" اور انگریزی میں “Heart” سے کیا جاتا ہے، حالانکہ دونوں میں باریک معنوی فرق پایا جاتا ہے، اور اس فرق کو سمجھے بنا قرآن مجید کے مفہوم تک پوری طرح رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح عربی میں "ظن" اور "حسب" دونوں کا ترجمہ "گمان کرنے" سے کیا جاتا ہے، حالانکہ موخر الذکر کا صحیح ترجمہ " سمجھ بیٹھنے کے آتے ہیں" چنانچہ سورہ کہف کے اختتام میں کافروں کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ "ويحسبون أنهم مهتدون"، اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ" کافر لوگ خود کو راہ راست ہی پر سمجھ بیٹھے ہیں اوراس کے سوا کوئی اور راہ انہیں سوجھتی تک نہیں"۔
اسی طرح "فقہ" اور "فہم" میں فرق کے لئے اردو ذخیرے میں دو مختلف الفاظ دستیاب نہیں۔ حالانہ فقہ محض سمجھنے کا نام نہیں بلکہ الفاظ کو اس کے پورے مدعا و مفہوم سمجھنے سے عبارت ہے۔
چنانچہ الفاظ کی عدم دستیابی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک لفظ کا مفہوم پورے جملے سے ادا کرنا پڑتا ہے، اور ایسی صورتحال مترجم کے لئے شدید گرانی کا باعث بنتی ہے، کیونکہ ترجمے کا طبعی تقاضا یہی اختصار تھا کہ ہر لفظ کے مقابل دیگر زبانوں میں اس مفہوم کے ابلاغ کے لئے دوسرا لفظ موجود ہو ۔ لیکن زبانوں کی پرورش جن حالات،اور جغرافیائی خطوں میں ہوتی ہے اس کا فطری نتیجہ یہی درآمد ہوتا ہے کہ معنے کی افہام و تفہیم میں درجات کا اختلاف پیدا ہوجائے۔
قرآن مجید کے باب میں لفظ و معنی کا یہ غیر معمولی اعجاز سمجھنا نہایت ضروری ہے، اور بسا اوقات عربی زبان کے اس تنوع کی باریکیاں جانے کے بغیر کلام کا پورا مدعا بھی ناقص تفہیم کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اس خلا کو دور کرنے کا واحد ذریعہ عربی ادب اور اس کی تاریخ کا مطالعہ ہے، بالخصوص "ادب الجاہلی" ۔ ادب زبان کا صحیح شعور عطا کرتا ہے ۔ یہ معاملہ دنیا کی ہر زبان کا ہے، کسی قوم کی ذہنی سطح کی دریافت اس کے ادب اور ادبی تاریخ میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ قرآن فہمی کا مکمل شعور اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ تاہم علمی درجات کے تناظر میں عوام کےلئے ایسی داغ بیل ڈالنا ضروری ہے کہ عمومی سطح پر قرآن فہمی کا ذوق پروان چڑھے۔ یہ مسلمانوں کی عمومی خواندگی کا تقاضا بھی ہے کہ موجودہ علمی سطح سے ترقی کی "شعوری تحریک (Motivation)" پیدا کی جائے۔ ورنہ اس کے بغیر عجمیوں کا رشتہِ قربت، قرآن مجید سے پیدا نہ ہوسکے گا۔
عمر خالد

Facebook Comments

عمر خالد
ستاروں کے جھرمٹ میں ایک ذرہ بے نشان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply