اختلاف و تنوع

اختلاف اور تنوع کائنات کا ایک حسن ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیوں میں سے ہے۔ فقہی مسالک کے بعض مسائل میں اختلاف کے علمی اسباب ہیں اور اللہ جل شانہ کی حکمت بالغہ اس میں کارفرما ہے جس میں سے ایک اس کی اپنے بندوں پر رحمت اورمہربانی ہے(یعنی یہ اختلاف اللہ تبارک وتعالیٰ کی اپنے بندوں پر مہربانی کے قبیل سے ہے)اورنصوص سے احکام کے استنباط کے دائرہ کو وسیع کرنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک نعمت ہے اورفقہی دولت و ذخیرہ ہے جس کے ذریعہ امت اسلامیہ اپنے دین کے تعلق سے وسعت اورفراخی میں ہے کہ اسے ایک ہی شرعی حل پر منحصر نہیں رہنا ہے کہ اس سے دوسرے کی جانب جایا ہی نہ جاسکے ۔ بلکہ امت پر جب بھی کسی امام کے مسلک میں کوئی تنگی اور دشواری ہوتی ہے خواہ وہ کسی قبیل سے ہو تو دوسرے امام کے مسلک میں نرمی اورگنجاش اورسہولت ہوتی ہے۔
معاشرہ میں تنوع بہت ضروری ہے۔ مذہبی رسوم مذہبی شناخت کا ایک ذریعہ ہے، فرقہ وارانہ کشیدگی کو ختم کرنے کےلئے مسالک پر پابندی کی سوچ غیر حقیقی ہے۔ مساوات اور مذہبی آزادی ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔ کسی بھی کمیونٹی پر دباوَ ڈال کر خاموش یا پابند نہیں کیا جا سکتا، ردعمل کے طور پر وہ مزید ابھریں گے۔ ہر مسلک کے علماء اور اکابرین اپنے پیروکاروں کو سمجھائیں کہ وہ دلیل سے بات کریں اور مناظرہ سے بچیں۔ مکالمہ کی فضا پیدا کریں۔اتحاد امت کےلئے اگر علماء اپنے پیروکاروں کی پرواہ نہ کریں اور مخلصانہ طور پر کام کریں تو یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔دو مذہب حتیٰ کہ دو آدمی بھی سو فیصدی باتوں میں متفق نہیں ہوسکتے۔ اچھی ہمسائیگی کے لیے اگر ہر شخص اپنی کامل آزادی برقرار رکھتے ہوئے دوسرے کی مساوی آزادی کا احترام کرے اور اس پر اختلافی امور میں طعن و تشنیع نہ کرے تو اختلاف رائے کے باوجود دونوں دوست رہ سکتے ہیں۔ دو مذہبوں اور دو فرقوں پر بھی یہی بات صادق آ سکتی ہے۔ دوسروں سے اختلاف ادب و تہذیب کے دائرے میں اور علمی انداز سے ہو۔ علمی بحثیں ان لوگوں کی طرف سے ہوں جو شائستہ اور سنجیدہ رویے کے حامل ہوں اور افہام و تفہیم کے انداز میں بات کریں، نہ کہ دوسروں کو نیچا دکھانے اور اپنے فرقے کے لوگوں میں دوسروں کے خلاف نفرت و عداوت پیدا کرنے اور اپنے فرقے اور مسلک میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے۔ مذہبی اختلاف اس دنیا کی ایک ناقابل تردید اور ناقابل تبدیل حقیقت ہے۔ اس میں مطابقت کے ذریعے اختلاف کے خاتمے کا مطالبہ غیر حقیقی اور غیر اخلاقی ہے، البتہ دعوت اور مکالمہ کے ذریعے سے ایک دوسرے کے مذہبی خیالات و نظریات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ قرآن نے اعتقادی اختلافات کے باب میں حق وباطل کو آخری درجے میں واضح کرنے کے بعد بھی مخالف مذہبی گروہوں سے مفاہمت کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ یہ کہا ہے کہ یہ اختلاف ایسے ہی برقرار رہیں گے اور ان کا فیصلہ قیامت کے روز خدا کی بارگاہ میں ہی ہوگا۔ دنیا میں بقائے باہم اور اخلاقی طرز زندگی کے لیے اختلاف کو رواداری کے ساتھ قبول کرنا اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات واحساسات کو ٹھیس پہنچانے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
اختلافی مسائل میں ہرفریق کے پاس دلائل شرعیہ ہیں اگرچہ ان دلائل کی قوت و ضعف میں فرق ہو جیسا کہ اکثر مسائل اختلافیہ فرعیہ میں ہوتا ہے، پس خواص کو تو چاہئے کہ جو ان کو تحقیق سے معلوم ہوا ہے اس پر عمل رکھیں۔ دوسرے فریق کے ساتھ بغض وکینہ نہ رکھیں، نہ نفرت و تحقیر کی نگاہ سے دیکھیں، نہ تفریق و تذلیل کریں بلکہ اس اختلاف کو مثل اختلاف حنفی و شافعی سمجھیں۔باہم ملاقات، مکاتبت، سلام، موافقت و محبت کی رسوم جاری رکھیں یعنی سماجی تعلقات قائم رکھیں۔ تردید و مباحثہ خصوصاً بازاری گفتگو سے اجتناب کریں کیونکہ یہ منصب اہل علم کے خلاف ہے۔ ایسے مسائل میں نہ کوئی فتویٰ لکھیں اور نہ دستخط کریں کہ فضول ہے۔ہر ایک عمل میں ایک دوسرے کی رعایت کریں۔ یعنی جب دوسرے مسلک والوں کے پاس جائیں تو ان کی طرح اعمال کریں۔ عوام نے جو غلو اور زیادتیاں کر لی ہیں ان کو نرمی سے منع کریں۔ منع کرنا ان لوگوں کا مفید ہو گا جو اس عمل کے جواز کے قائل ہیں اور جو اس عمل کے عدم جواز کے قائل ہیں ان کا خاموش رہنا بہتر ہے۔ (مسلکی منافرت کے خاتمہ کے لئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کون سی بات کس نے کرنی ہے اور کس کی بات زیادہ اثر رکھے گی اور کون یہ بات کرے گا تو معاملات اور خراب ہوں گے۔(فتنہ سے بچیں اور کسی جگہ کے رسم و رواج اور عادات سے اگر آپ موافقت نہیں رکھتے تو ان کی مخالفت بھی نہ کریں ۔دونوں مکاتب فکر یا فریقین ایک دوسرے کے نقطہ نظر کی تاویل کر لیا کریں یعنی اچھی توجیہ کریں۔ مذہبی طبقات کے ذہین عناصر کو جدید فکری اور معاشرتی چیلنجز کی طرف متوجہ کرنا فرقہ وارانہ ماحول میں تبدیلی کا ایک بہت موثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ مذہبی ماحول میں جن مسائل وموضوعات کو اہمیت اور ترجیح کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، ذہین عناصر بھی عموماً‌ اس کا اثر قبول کرتے اور انہی ترجیحات کو اپنی ذہنی وفکری کاوشوں کا میدان بنا لیتے ہیں۔ اگر ان کی ذہنی توجہ کے دائرے بدل دیے جائیں اور انہیں امت کے حقیقی اور زندہ مسائل کی طرف متوجہ کر لیا جائے تو اس سے خود بخود ماحول میں ایک مثبت تبدیلی پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔

Facebook Comments

MUHAMMAD IRAHEM
مولانا محمد ابراہیم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply