میرِکارواں۔۔شکور پٹھان

“کمال ہے بھئی۔ دس سے پانچ پر آگئے پھر بھی ایسے بندے نہیں مل رہے۔”

ملک میں نگراں حکومت کی تشکیل کا غلغلہ تھا۔عام انتخابات سے پہلے سیاست کا بخار سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ہم کچھ دوست اظہار خیال کررہے تھے کہ نگراں حکومت میں کون سے ایسے افراد شامل ہو سکتے ہیں جو غیر متنازعہ اور اکثریت کے نزدیک قابل احترام بھی ہوں۔
” اچھا یارو ! دس نام ایسے بتاؤ جنہیں تم پورے پاکستان میں سب سے زیادہ اس معیار سے قریب پاتے ہو۔” ایک دوست نے گویا ہمارے ہاتھ ایک کھیل دے دیا۔ یار دوست ایک نام بتاتے تو دوسرا کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر اسے مسترد کردیتا۔
مشکل یہ تھی کہ سیاستدانوں میں ایسا کوئی نام نظر ہی نہیں آتا تھا۔ ایک صاحب تھے جن کی بہت عزت تھی۔ جمہوریت کے لئے ان کی قربانیوں کی اپنے پرائے سب ہی قدر کرتے تھے۔ لیکن یہ عزت شاید انہیں راس نہیں آئی۔ یکے بعد دیگرے انہوں نے اتنی قلابازیاں کھائیں کہ اب وہ مسخرے نظر آنے لگے۔
کچھ اعلی عدلیہ کے منصفین تھے۔ ایک حضرت کے ساتھ پورے ملک کے باشعور عوام ، سیاستدان، وکلا اور دانشور تھے۔ انہیں جب ان کے منصب پر بحال کروایا گیا تو انہوں نے جو پر پرزے نکالے اس پر ان کے حمایتی بھی منہ چھپانے لگے۔
کچھ فوج سے تعلق رکھنے والے سپہ سالار ان اور جرنیل تھے۔لیکن ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی بدنامی جڑی ہوئی تھی۔
اب لے دے کر  ستار ایدھی اور سرجن ادیب رضوی جیسے نام رہ گئے جن کی واقعی پورا ملک عزت کرتا ہے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ملک چلانے، اوروہ بھی پاکستان جیسے ملک کو چلانے کے لئے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے وہ بہرحال ان نیک نام ہستیوں میں نہیں تھی۔

مجھے یہ بحث اکثر یاد آتی اور میں سوچنے لگتا کہ ہماری قومی تاریخ میں ایسے کردار بمشکل انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ میرے سامنے حسرت موہانی، راجہ صاحب محمود آباد جیسے نام تھے۔ ایسا ہی احترام میں نے سردار عبدالرب نشتر کے لئے بھی دیکھا۔ ایک اور نام جو نیک نامی کے اس معیار پر کسی حد تک پورا اترتا تھا جنرل اعظم خان کا ہے لیکن مجھے اس دور کے سیاسی حالات سے کما حقہ آگاہی نہیں چنانچہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس قدر غیر متنازعہ اور مقبول تھے۔
ایک نام لیکن ایسا ہے کہ جب بھی اور جس سے بھی ان کا ذکر سنایا پڑھا، چاہے اپنے ہوں یا پرائے، دوست ہوں یا دشمن، ان کے بارے میں کم ازکم میں نے صرف اور صرف احترام ہی پایا۔

کسی ہوئی شیروانی، تنگ پاجامہ، ترکی ٹوپی، ، فربہی مائل دہرا بدن ، لانبا قد ۔ اپنے جثہ سے معتبر نظر آنے والے، نواب محمد بہادر یار جنگ کی جب بھی تصویر دیکھی، یا ان کے بارے میں پڑھایا کسی سے سنا، دل میں ان کا احترام اور عقیدت دوگنی، چوگنی ہوتی گئی۔

اور پھر جب آٹھویں جماعت میں اقبال کا یہ شعر پڑھا
” نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے”

تو یہ شعر بالکل سمجھ نہ آیا۔ لیکن ایک دن جنگ اخبار کے سرورق پر انہی فربہی مائل ، قوی الجثہ، بلند قامت، ترکی ٹوپی اور شیروانی پوش نواب محمد بہادر یار جنگ کی تصویر دیکھی تو اقبال کے شعر کا ایک ایک لفظ سمجھ آتا چلا گیا۔
اور جب بھی ان کا ذکر آیا، ان کی شخصیت کی جہتیں، اور پرت کھلتے چلے گئے۔ جس سے سنو ان کی خطابت کا اسیر، چاہے کسی نے بھی انہیں نہ سنا ہو لیکن لسان الامت کا خطاب اگر کسی پر سجتا ہے تو وہ بلاشبہ بہادر یار جنگ ہیں۔ سخن دلنواز! میر کارواں کی ایک صفت یہ بھی تو ہے۔
سید ہاشم رضا کو ایک بار ٹی وی پر کہتے سنا کہ قائد اعظم جب مسلم لیگ کے جلسوں کی صدارت کرتے تو وقت کی پابندی کے معاملے میں بڑے سخت ہوتے۔ ان کے سامنے ایک گھنٹی دھری ہوتی اور جیسے ہی مقرر کا وقت ختم ہونے لگتا ، قائد گھنٹی بجا کر اسے متوجہ کرتے۔ لیکن جب کبھی بہادر یار جنگ تقریر کرنے کھڑےہوتے، بابائے قوم سامنے سے گھنٹی ہٹا دیتے۔
اور جب بہادر یار جنگ باقاعدہ مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو قائد نے فرمایا، مسلم لیگ اب تک بے زبان تھی۔ آج اسے زبان مل گئی۔ نواب صاحب قائد کے ترجمان تھے اور قائد کو یہ بھی کہتے سنا گیا کہ نواب صاحب کی تقریر کے بعد کسی اور کی تقریر، غلطی ہوگی۔ قائد کی انگریزی تقریر کا جب وہ فی البدیہہ اردو ترجمہ کرتے تو سارا مجمع مبہوت ہو کر انہیں سنا کرتا۔
تقریر تو چرب زبان ، بہروپئے اور مداری بھی خوب کرلیتے ہیں۔ لیکن یہاں تو خلوص، انسانیت دوستی، اعلی ظرفی، وسیع المشربی کے کوہ گراں کی بات ہورہی ہے۔
بے مثال خطیب، بہترین منتظم، بے پناہ جرات کا کوہ ہمالیہ، محمد سعدی خان نامی یہ پٹھان اگر بہادر نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا۔ وہ جس کی نس نس میں اطاعت رب اور نفس نفس میں عشق نبی رچا اور بسا ہو وہ بھلا دنیا کے ان فانی فرمانرواؤں کے رعب میں آسکتا تھا۔ یہی بہادر یار جنگ تھے کہ مجمع سے مخاطب ہیں اور نظام حیدرآباد خاموشی سے آکران کا خطاب سن رہے ہیں۔ بہادر یار کی نظر ان پر پڑتی ہے اور مملکت آصفیہ کے فرماں روا کو مخاطب کرتے ہیں۔
” اے محمد عربی کے تخت نشین وتاجپوش غلام، آتجھے بتاؤں کہ اس شہنشاہ کو نین کی نظر میں انداز ملوکیت کیا تھے”
اور یہی نظام جس نے انہیں خطاب اور جاگیر عطا کی تھی ، ان سے یہ دونوں اعزاز واپس لیتا ہے تو زباں پر ایکباربھی حرف شکایت نہیں آتا۔ یہ بہادر یار تو وہ ہے کہ خاکسار تحریک کے اکابرین میں شامل ہے،لیکن کسی غلطی پر میدان کے گرد دوڑ لگانے کی سزا ملتی ہے تو اپنی ہیئت اور حیثیت کو بھلا کر، بلا چون و  چرا، فوراً  دوڑنا شروع کردیتے ہیں کہ، تسلیم ورضا، میرِکارواں کی پہلی صفت ہے۔
دلنواز سخن اور پرسوز جاں رکھنے والے بہادر خاں بے شک قائد ملت اور میر کارواں تھے کہ بلند نگاہ رکھتے تھے۔ جو سیاسی تجزیے  انہوں نے پیش کئے، حرف بحرف درست ثابت ہوئے۔ تحریک پاکستان اور اسلامیان ہند کے لئے اپنے تن من اور دھن کو قربان کرنے والے بہادر یار جنگ ہی تھے کہ قائد کے روبرو کہہ گئے کہ پاکستان کا حصول مشکل نہ ہوگا، لیکن پاکستان کو پاکستان بنانا بہت مشکل ہوگا۔
اور آج ستر پچھتر سال بعد جب میں اور آپ گوشت کھانے سے پہلے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یار یہ گوشت اصلی ہی ہے ناں؟ اور جب سماجی  ذرائع ابلاغ پر یہ بحث چل رہی ہو کہ کمسن بچوں کو قریبی رشتہ داروں سے دور رکھنا کتنا ضروری ہے، تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ پاکستان کس قدر ‘ پاک’ بن سکا ہے۔
اور جہاں بہت سے زعماء تذبذب کا شکار تھے کہ پاکستان کی نظریاتی صورت گری کیا ہوگی ، بہادر یار کے ذہن میں نئی مملکت کا تصور بالکل صاف اور واضح تھا۔ مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی کو پاکستان کے لئے اسلامی معاشرت اور نظام زندگی، اسلامی نظام تعلیم اور اسلامی نظام معیشت کے بارے میں ہدایات دیتے ہوئے، قائد اعظم کو مخاطب کرکے، یہ کہنے کی جرات صرف نواب صاحب میں تھی کہ ” قائد اعظم، پاکستان کو میں نے ایسا سمجھا ہے۔ اگر آپ کا پاکستان اس کے علاوہ ہے تو ہم ایسا پاکستان نہیں چاہتے۔”

حق گو، صاف دل، انصاف پسند، درد مند دل رکھنے والے، کھرے اور سچے مسلمان، بہادر یار جنگ کی زندگی کا جو گوشہ بھی نگاہوں کے سامنے وا ہوا، ان کی عظمت کا معترف کرتا چلا گیا۔
ایک طرف تو ساری زندگی مسلماناں ہند کی سربلندی، آزادی اور اصلاح میں بسر ہو رہی ہے کہ جس کے لئے کبھی مجلس اتحاد المسلمین کی داغ بیل ڈال رہے ہیں ، تو کبھی آل انڈیا اسٹیٹس لیگ، تو کبھی مسلم لیگ تو کبھی خاکسار تحریک کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کررہے ہیں، درس قرآن، درس حدیث، فکر اقبال کی ترویج ان کے معمولات کا حصہ ہیں۔ اپنی خطابت اور اخلاص سے پانچ ہزار غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کررہے ہیں تو دوسری جانب یہ حال ہے کہ کسی ہندو کی زمین کی ملکیت کا مقدمہ میں کوئی مسلمان انہیں ثالث مقرر کرتا ہے اور آپ جناب ہندو کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں۔
چھوٹوں سے محبت، بڑوں کا ادب، امارت کی آغوش میں پلنا لیکن اس کی کثافتوں سے دور رہنا، ایک جانب جوش کھاتی دینی حمیت اور تڑپ تو دوسری جانب سوج بوجھ اور دوراندیشی اور حقیقت پسندی، حالات کا ادراک، اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمت وعزیمت، دل میں سراپا گداز اور مجسم اخلاص، میر کارواں کی اور کیا خاصیت اور کیا صفت ہوسکتی ہے۔،
قائد ملت بہت کم وقت لے کر آئے تھےاور شاید اسی لئے کم وقت میں بہت کام کر گئے۔ پارے کی  طرح متحرک ان کی ساری زندگی امت کے لئے وقف تھی۔ بہت سارے سفر کئے، تبلیغ، درس قرآن، سیاسی جدوجہد جیسے بڑے بڑے کام تو دوسری جانب غریبوں کی دستگیری، بیواؤں کی مدد، طلباء کی اعانت، خاموشی سے مسلم ، غیر مسلم کی مدد جیسے کام بیک وقت کرنے والا بہادر یار جنگ کہلاتا ہے۔ اور ان کی سب سے بڑی خوبی یہ کہ انسان تھے۔ انسان، احسن التقویم، ، جو کہ اتنا آسان بھی نہیں کہ
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔

Advertisements
julia rana solicitors

محمد سعدی خان ، بہادر یار جنگ ،جن کا خمیر، تسلیم ورضا، اطاعت الہی، محبت رسول سے گندھا تھا، جن کی شعلہ نوائی، ان کی جان پرسوز کا پردہ تھی، جن کا ہر سانس ملت کی نشات ثانیہ کے لئے وقف تھا ، موت سے لیکن بڑی آسانی سے ہار گئے۔
کسی دوست کے ہاں محفل میں حقہ کا کش لیتے ہی دل کا دورہ پڑا اور جاں ، جان آفرین کے سپرد کردی۔۔۔ شاید قدرت ان کی عظمت کا پردہ رکھنا چاہتی تھی۔۔۔انتالیس سالہ زندگی کا ہر لمحہ قوم کے لئے تھا۔۔اور چند ایک ہی ہیں جن کی عظمت یوں ہمارے دلوں میں بسی رہی۔۔۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply