رنگوں کا کھیل

وہ میرے چہرے کے ہر رنگ سے واقف ہے۔۔۔۔ اداسی، خوشی، غمی ہر رنگ جانتا ہے مگر میں اسکے رنگ سے انجان۔۔۔مجھے تو بس اپنے ہی رنگ عزیز تھے۔۔۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سارے رنگ اترتے چلے گئے تتلی کے رنگین پروں کی طرح۔۔۔ جو دھوپ کی تمازت سے اپنے رنگ کھو دیتی ہے۔۔۔ رنگوں کا کھیل بھی کتنا عجیب ہوتا ہے ایک رنگ جب دوسرے رنگ سے مل جائے تو دونوں ہی اپنا وجود کھو کر ایک نئے رنگ کو جنم دیتے ہیں۔ ہر رنگ اپنی انفرادیت کو کھو کر اپنی انا کے بت کو توڑتے ہوئے ہر نئے رنگ کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ ہر رنگ خود کو فنا کرتے ہوئے دوسرے رنگ کو زندگی بخشتا ہے۔میں نے اپنی ذات کے ہر رنگ کو اس سے جدا رکھا۔۔ نئے رنگوں کی طلب محسوس ہی نہ کی اور اسی انفرادیت کے زعم میں اپنے تمام رنگ کھو بیٹھی۔ میں ایک گہری سوچ میں کھو گئی۔ کیونکر میں نے اسکے رنگ قبول نہ کیے۔۔۔۔ اپنے فانی رنگوں پر اسکی بقا کا رنگ کیوں نہ چڑھایا۔ آخر کیوں اپنا وجود اس کے سپرد نہیں کیا ؟ اور اپنی ذات کے تمام رنگوں کو سمیٹ کر اسکی ذات میں ضم نہ ہوسکی اسی لیے بکھری ہوئی ہوں۔۔۔ میرا ہر رنگ پھیکا پڑ چکا ہے۔مجھے ضرورت ہے نئے اجلے چمکتے رنگوں کی۔ خوشی کا وہ رنگ جو مجھ سے منسوب ہے، اسکی خوشی میں شامل کیوں نہیں۔ میری اداسی کے سرمئی رنگ گہرے ہی ہوتے جارہے ہیں۔۔۔
سیاہی کے مختلف رنگوں سے کاغذ بھرتے ہوئے میری آنکھوں میں نمی در آئی اور ایک بے رنگ سے قطرے کے کاغذ پر گرتے ہی سیاہی پھیل گئی۔سیاہی کے مختلف رنگوں نے اس بے رنگ قطرے کو قبول کرتے ہوئے آپس میں ملکر ایک نیا رنگ تخلیق کر لیا، اور میں نے جان لیا کہ زندگی کے کینوس پر بکھرے ہوئے ہر رنگ کو ملانے کے لیے چند بے رنگ قطرے کس قدر قیمتی ہیں، رنگوں کے اس کھیل سے میں مسرور ہوئی اور چند بے رنگ قطروں سے اپنی ذات کے ہر رنگ کو اسکے رنگ میں اس طرح رنگ دیا کہ ہر وہ رنگ جو ہلکا ہو چکا تھا نکھرنے لگا آنکھوں سے بہتے ہوئے بے رنگ قطروں کی تاثیر نئے رنگ تخلیق کرتی چلی گئی۔ گہرے سرمئی رنگ کے وجود پر اسکا رنگ سجنے لگا اور میں پھر سے دھنک کے ساتوں رنگ سمیٹے جگمگانے لگی!!!

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply