کربلا کا اصل پیغام کیا ہے؟ ۔۔۔۔ مبارک حسین انجم

واقعہ کربلا کیا ہے؟ یہ تو کم و بیش ہر مسلمان ہی اپنے اپنے انداز میں جانتا ہے ، وہاں کیا کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ ، کسنے جاں کا نذرانہ دیا ، کون ظالم ٹھہرا، کون کس کا ساتھی تھا، کون امر ہو گیا، کون مٹ گیا، اس میں جزیات پر کچھ اختلافات ضرور ہیں لیکن امام عالی مقام کی حقانیت پر سب متفق ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہوا؟ اس سوال کے جواب پر بھی پوری تاریخ اور ہر مکتبہ فکر اور ہر مسلک متفق ہے کہ یہ عظیم قربانی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے صرف اور صرف مملکت اسلامیہ کو ایک نا اہل حکمران سے نجات دلانے کی عملی کوشش میں دی ـ

اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم سب جو حب حسین اور عشق حسین رضی اللہ تعالیٰ کے دعوے دار ہیں ، ان کی اس سنت اور ان کے اس راستے کو کہاں تک اپنانے کے لیے خود کو تیار پاتے ہیں؟ اگر ہم پوری دنیا کو چھوڑ دیں اور صرف ہمارے اپنے ملک پاکستان پہ ہی نظر ڈالیں تو پاکستان کے ابتدائی دور میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان جیسے حکمرانوں کے بعد اب تک کے جو تمام حکمران گزرے ہیں ان سب سے تو یزید بدرجہا بہتر ہی تھا۔ نمازی بھی تھا، صحابی رسول صل وسلم کا بیٹا ہونے کا شرف بھی تھا، اس حساب سے تابعین میں سے تھا، اکثر احکام شرعی کو بجا لانے والا تھا، اور ہمارے حکمرانوں والی کوئی برائی اس میں نھیں تھی۔ نہ سوس اکاؤنٹس قسم کی کوئی چیز، نہ لندن اور ترکی میں آئی لینڈ، نہ ایان ملک جیسے سلسلے، نہ ایشوریا کے مجرے، نہ شنگریلا ہوٹل والے معاملے، نہ ہی کسی را سے روابط، نہ ہی کسی پینٹا گون کی دلالی، نہ ہی کسی پانامہ لیکس کا مجرم، نا ہی عافیہ جیسی دختر فروشیاں، نہ ہی شرابوں کے پرمٹ۔۔۔

پھر بھی حضرت حسین رضی اللہ تعالی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، نہ صرف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں بلکہ اپنی جان تو جان،اپنے بچے، اور اپنی عالی مرتبہ اور پاکیزہ تریں خواتیں تک کو داؤ پہ لگا دیا۔ سوچنے کی بات تو ہے نا کہ کسی مسلم ملک میں درست حکومت آخر کتنی بڑ ی اہمیت کی حامل چیز ہے کہ جس کے لئے وہ” حسین رضی اللہ.تعلی عنہ” اتنی بڑی بڑی قربانیاں دے رہے ہیں جن کے مصلے پہ ایک دعا دنیا کی تقدیر بدلنے کی طاقت سے معمور ھے ـ

کچھ تو جس کو بچانا تھا، کچھ تو تھا جس کی رکھوالی کرنی تھی، کچھ تو تھا جسے روکنا تھاـ اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ ؟ ستم ظریفی تو دیکھیں ہماری اقوام مسلم کی کہ ملت کے کچھ بہت بڑے اور دیندار ترین گروہ سیاست کو شجر ممنوعہ مانتےہوئے اس سے گریزاں ہیں، دین کو مسجد اور مصلے تک محدود کر کے بیٹھے ہیں، وظائف کی تسبیح پھر کر ثواب کمانا ہی کافی سمجھ چکے ہیں. اور نہ صرف خود اس پہ قائم ہیں بلکہ دوسروں کو بھی یہی سکھا رہے ہیں اور اس پہ فخر بھی کر رہے ہیں ـ

کچھ دیگر گروہ اس واقعے کی تعلیم کو سمجھنے اور اس پہ غور کرنے کے بجائے ماتم کی رسومات نبھانے میں لگے رہتے ہیں، مانا کہ انکا غم انمٹ ہے، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ حق کی خاطر اٹھنے والی اس قربانی کا حق محض خود کو تھوڑا سا پیٹ کر ادا کرنے کا کافی سمجھا جائے؟؟ کیا انکے مشن کی کوئی اہمیت نہیں؟  کیا ان کا کاز غیر اہم تھا کہ ان کا ماتم منانے والے بھی انکی سنت کو پیروی کے قابل ہی نہ جانیں؟ اور اگر جانیں بھی تو محض محرم کے دس دنوں میں سوگ منا کر، اظہار یک جہتی دکھا کر، باقی کا پورا سال، اپنے مالی و مادی فائدوں کے لئے اسی یزید کے نظام والوں کے ساتھی بنے رہیں؟

اور یہیں پہ بس نہیں، جو لوگ ان دو گروہوں میں شامل نہیں وہ باقی ماندہ امت کاحصہ بھی یا تو ان دو میں سے کسی پہ تنقید میں مگن ہے یا پھر تعریف میں،، گویا اصلی اور بنیادی مقصد قربانی کو یکسر بھلا ہی دیا گیا ہے اور فضول، ضمنی اور فروعی باتوں کو دین کا حصہ قرار دے کر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔  سب سے بڑی ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے ہر شعبہ زندگی، غریب ان پڑھ دیہاتی مزدور سے لے کر انتہائی تعلیم یافتہ اور باعلم اور کلیدی عہدوں کے لوگ بھی اس وبا میں یا اپنی ذاتی مفادات کی وجہ سے یا پھر اپنی ناسمجھی کی وجہ سے شامل ہیں ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

بات تو دکھ کی ہے، بلکہ دکھ سے زیادہ افسوس کی ہے کہ امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پہ ماتم کرنے والے تو موجود ہیں، لیکن ان کے مشن کو، ان کی تعلیم کو، ان کے کاز کو یوں بے دردی سے قتل کرنے والوں کا ماتم کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے ـ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply