انعام رانا آپ ہمت نہ ہاریں

عمر سے وہ چالیس کے پیٹے میں دکھائی دیتا تھا۔پیشے سے وہ وکیل تھا۔نوجوانوں اور قوم کے حوالے سے اس کی سوچ بڑی ایکٹیو تھی۔اس کی شخصیت میں بلا کا سحر تھا۔اللہ تعالی ٰنے بھی اسے خداداد صلاحیتوں سے نوازا تھا۔جس کام کی ٹھان لیتا اسے پائے تکمیل تک ضرور پہنچا تھا۔دیار غیر میں رہنے والا یہ شخص اپنے وطن اور اپنے لوگوں سے کتنی محبت کرتا تھا ؟یہ اس کے اس ذوق سے اندازہ لگائیں جو اس نے ہمیں مکالمہ کی شکل میں اک نئی جہت دی۔اور اپنے ہم وطنوں کو اک نئی روح اور اک نیا ولولہ دیا ۔دیار غیر میں رہنے والے اس شخص نے اس قوم کو وہ راہ دکھلائی جو ملک میں رہتے ہوئے بھی یہ قربانی نہیں دے سکتا ۔
ابھی مکالمہ اپنے ابتدائی مراحل میں تھا کہ یہ نوجوانوں میں اتنا مقبول ہوا کہ رانا صاحب اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اک نئے جذبے کو لیکر اٹھے ۔آپ نے جہاں مکالمہ ویب کا آغاز کیا تھا وہیں آپ نے مکالمہ ٹی وی کا بھی آغاز کر دیا ۔اور نوجوانوں میں اس بات کا بھی شعوراجاگر کیا کہ مکالمہ ٹی وی کی آواز بن جائو۔ ان لوگوں کے لیئے،جن کی رسائی اونچے ایوانوں تک نہیں ہوتی، یا جن کی آواز کو یہ نام نہاد میڈیا آگے لانے نہیں دیتا یا وہ چیختی سسکتی آوازیں جسے میرے ملک کا چوہدری،وڈیرہ ،خان اور افسر شاہی طبقہ آگے آنے نہیں دیتا۔مکالمہ ٹی وی کو ان لوگوں تک رسائی دی گئی جن کی آواز کو آگے نہیں آنے دیا جاتا ۔ان تمام خوبیوں کا خالق اور مالک کون تھا؟ انعام رانا صاحب ،جو ملک سے باہر بیٹھ کر بھی اپنے ہم وطنوں کے لیئے اک سوچ لیکر چل رہے تھے۔اور انھیں اس بات پر آمادہ کر رہے تھے کہ اپنے اندر وہ جذبہ اور لگن پیدا کرو کہ اک دنیا تمہاری معترف ہوجائے ۔
بحث کی جگہ دلیل اور مکالمہ کو متعارف کرایا گیا۔یہ رانا صاحب کے وہ خواب تھے جنھیں رانا صاحب حقیقت کا روپ دے چکے ہیں۔اور اب ان کا ثمرہ انھیں مل رہا ہے محبتوں کی شکل میں دعائوں کی شکل میں صدقہ جاریہ کی شکل میں ۔جہاں یہ تمام لوازمات حاصل تھے رانا صاحب کو وہیں کچھ تکلیف دہ پریشانیاں بھی تھی۔اور یہ تو ایک حقیقت بھی ہے جہاں اچھائیوں کو جگہ ملے گی وہی برائی بھی اپنے پنجے گاڑے گی۔اب جہاں رانا صاحب کو ان کاموں کا صلہ مل رہا تھا وہیں کچھ شرارتی ٹولہ مکالمہ کے ایڈمن کو کسی نہ کسی حوالے سے تذلیل کا نشانہ بنا رہے تھے۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ رانا صاحب اتنی آسانی سے ہار کیسے مان گئے۔وہ شخص جو اتنی کامیابی سے باہر بیٹھ کر اپنے لوگوں کو مکالمہ کی شکل میں ایک ساتھ جوڑے ہوئے ہے بقول رانا صاحب کے ۔مکالمہ سے جڑے لوگوں کی تعداد لگ بھگ 18000 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔کیا ان اٹھارہ ہزار لوگوں میں سے کبھی شرارت کی بو نہیں آئی؟ کیا ان لوگوں میں سے کبھی گستاخی سرزد نہیں ہوئی؟ ۔جہاں ان لوگوں کے لیئے اتنی وسعت پیدا کی وہیں ان لوگوں کو بھی درگزر کرتے ۔لیکن مکالمہ پر آکر یہ معذرت کرنا کہ میں اب مزید برداشت نہیں کرسکتا مجھ میں اب اتنی سکت نہیں۔لہٰذا اب میں ایڈمن کی حیثیت سے کام نہیں کروں گا ؛ یہاں ایسے لوگ موجود ہیں ،جو اس کام کولیکر چلیں۔جناب۔جب آپ جیسا نڈر بےباک اور جسے لیڈر کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔جس نے نوجوانوں کو اک نئی سمت دی ولولہ دیا گفتار دی جذبہ دیا۔وہ شخص آکر کہتا ہے کہ میں اورمزید نہیں چل سکتا ۔دکھ اور افسوس کے سوا کچھ نہیں۔
یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ناخدا بن کر بیچ منجدھار میں کہو کہ اب میں مزید نہیں چل سکتا ۔اور ان کشتی والوں کا کوئی اور پرسان حال بھی نہ ہو تو وہ کہاں جائیں گے۔لیڈر ہمیشہ دلیر ہوتا ہے وہ طوفانوں سے طلاطم خیز موجوں سے گھبرایا نہیں کرتے۔میں مانتا ہوں کبھی کبھار کوئی بات دل پر بڑی گراں گزرتی ہے۔لیکن کیا کیجیئے؟ کہ حالات ایسے رخ اختیار کرچکے ہیں کہ ہر شخص بھرا پڑا ہے۔اور وہ اندر سے انتہاءپسندی کی حدوں کو چھو رہا ہے۔عام مسلمان اس بات پر چیں بہ جبیں ہیں کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جہاں جہاں زیادتیاں ہورہی ہیں۔میڈیا اسے اس طرح ہائی لائٹ نہیں کرتا جس طرح یورپ ممالک میں کوئی چھوٹا سا حادثہ بھی ہوجائے تو میڈیا اس کا آٹھ دس دن خوب ماتم کرتا ہے۔اور پوری کوشش کرتا ہے اسے مسلمانوں سے نتھی کرنے کی۔اور اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے ہی کچھ مسلمان بھائی جہاں ان مسلمان ممالک کی دہشتگردی پر خاموش رہتے ہیں ۔وہ بھی اس دہشتگردی پر چہ میگوئیاں شروع کردیتے ہیں۔
جس پر عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ شائد یہ روشن خیال قسم کا ٹولہ اپنے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش اور غیروں کے پٹاخے پر بھی ٹسوے۔اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو دہشتگردی ، دہشتگردی ہوتی ہے چاہے وہ مسلم ممالک میں ہو یا دوسری دنیا میں۔ ہمیں اس کی مذمت بغیر کسی تفریق کے کرنی چاھیئے۔ہاں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے دہشتگردوں نے۔لہٰذا ایسی جگہوں پر مسلمانوں کاجذباتی ہونا فطری عمل ہے۔لیکن جذبات سے بہتر ڈیبیٹ ہے ۔مکالمہ ہے۔گفت و شنید ہے۔ مذاکرہ ہے۔جب یہ تمام سہولیات آپ کے پاس موجود ہیں۔تو پھر جذباتی ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور پھر جذبات میں آکر کسی کی دلآزاری کرنا کسی کو دکھ تکلیف رنج دینا اس سے بڑی دہشتگردی کیا ہوگی؟
بہرحال تمام گفتگو کا لب لباب اور نچوڑ یہ ہے کہ انعام رانا صاحب کو دل نہیں چھوٹا کرنا چاھیئے۔آپ پیشے کے حوالے سے وکیل ہیں۔اور آپ لوگوں کی نبض خوب جانتے ہیں۔اس وقت آپ کے ناتواں کندھوں پر بہت بڑا بوجھ ہے اس مفلوک الحال قوم کا۔ابھی تو میدان کارزار اور بھی ہیں۔نہ جانے کیسے کیسے لوگ بحث کریں گے۔ابھی تو ابتدائے عشق ہے۔بہرحال رانا صاحب لوگ آپ سے امیدیں وابستہ کیئے بیٹھے ہیں۔لہٰذا آپ ان لوگوں کو ایسے بے سہارا چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔آپ تو اس قافلے کے روح رواں ہیں۔جب آپ ہی یہ جملے ہضم نہیں کرسکتے تو پھر ہم لوگ کیسے مقابلہ کریں گے؟ جہاں آپ نے لوگوں کو اتنا شعور دیا کہ آج وہ مکالمہ کی شکل میں لوگوں سے مخاطب ہیں۔اور لوگوں کو قائل بھی کرتے ہیں اپنی گفتگو سے۔تو جناب یہ تمام کریڈٹ بھی آپ کو جاتا ہے۔اگر آپ اس میدان کو چھوڑ کر چلے گئے تو نوجوان طبقہ خود کو یتیم سمجھے گا آپ کے بغیر۔ رانا صاحب، یہ دنیا بڑی دورنگی ہے۔اس میں رہنے والے لوگ بڑے بے حس ہیں۔یہ احسان بھول جانے والے لوگ ہیں۔یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ۔ان سے اچھے کلمات کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہے۔آپ نے اس قوم کو لوگوں کو جو دیا ۔اس کا صلہ آپ کو آپ کا رب دیگا ۔انسان سے امید رکھنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔
آخر میں رانا صاحب سے اک گذارش۔عرض درخوست استدعا التجا۔کہ خدا کے لیئے ایسا ہرگز مت سوچیئےگا کہ آپ اکیلے ہیں۔یہ مکالمہ ٹیم آپ کی فیملی۔ آپ کے دوست۔آپ کے سجن۔یہ ہر مشکل گھڑی میں آپ کے ساتھ ہیں۔
آخر میں دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اور تمام امت مسلمہ کو اپنی امان میں رکھے ۔آمین

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply