لڑکیو! اپنا آپ پہچانو

لڑکیوں ۔۔ آؤ ایک سچائی بتاتا ہوں، شادی کے لیے حیثیت دیکھنا چھوڑ دو، امیر لڑکا جس کے پاس اپنی گاڑی ہو، تمھیں الگ گھر میں رکھ سکے ،ساس نند کی فکر نہ ہو۔۔ ایسے خواب ہر کسی کے پورے نہیں ہوتے، پیسہ سکون دے سکتا ہے نہ محبتیں، ایسے کئی خاندانوں کو جانتا ہوں جن کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی چین نہیں، محبت کو ترستے لوگ، پیسے سے جسم تو بڑے خوب مل جاتے ہیں اور کئی ایسی لڑکیاں۔۔۔آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے، ایسی بھی ہیں۔۔ جن کی شادی متوسط طبقے کےکسی خاندان میں ہوتی ہے، وہ آس پاس کے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر اپنے شوہر کا جینا حرام کی دیتی ہیں کہ اس کے پاس فلاں فلاں چیز ہے ،تمہارے پاس کیوں نہیں۔۔گویا ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہونے والی ضد اور بحث کا اکثر علیحدگی کی صورت میں خاتمہ ہوتا ہے اور متعلقہ خاتون کے یہ شکوے ،فلاں نے میری زندگی برباد کر دی سکھ نہیں دیا ،ختم نہیں ہوتے ،حالانکہ ایسے کیسز میں اکثر قصور خاتون کا ہی نکلتا ہے، اب ایک خاتون ہیں لاہور کی، اچھا خیال رکھنے والا،محبت کرنے والا شوہر ہے ان کا پر ان کی دوستی کچھ وقت پہلے ایک لڑکے سے ہوئی، جس سے انہیں محبت ہو گئی، اب ان کا مطالبہ طلاق ہے، کیوں کہ بقول خاتون کے ، شوہر ان کے حقوق پورے کرنے میں ناکام ہے، اور شوہر پر مارنے پیٹنے کا الزام الگ ہے، سونے پہ سہاگہ خاتون کے گھر والے ،بھی ان کے حمایتی ہیں ،سب واضح ہونے کے بعد بھی۔۔ دنیا میں طرح طرح کے لوگ ہیں لیکن یہ نظریہ کہ ہمیشہ مرد ہی قصور وار ہوتا ہے ۔۔صریحاً غلط ہے، یہاں میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن جو غلط ہے اسے غلط ضرور کہنا چاہیے، مرد ہو یا عورت، دونوں کو اپنا آپ پہچاننا ہوگا، اپنی ترجیحات اور اپنے مقام کو پہچاننا ہوگا، ارد گرد موجود لوگوں کو آسائش میں دیکھ کر اپنی زندگی جہنم بنا دینا کوئی عقلمندی نہیں۔۔
کوئی مرد گھر میں جارحانہ ماحول برداشت نہیں کرسکتا، نہ ہی ان اطوار کے ساتھ ایک عورت اپنے مرد کو خوش رکھ سکتی ہے، نہ ہر مرد کے دل کا راستہ پیٹ کے نیچے ہوتا ہے۔۔۔ تمہیں کڑھ کڑھ کے جینے کا کوئی نہیں کہتا ،مرد تم پر حاکم ہیں تمھارا نان نفقہ دیکھنے کے لیئے ،صحیح غلط کی رہنمائی کرنے کے لیئے، تم پر ظلم و ستم کرنے کے لیئے نہیں ۔اسلام میں مرد کے حاکم ہونے کو آج کا روشن خیال ،لا دین طبقہ ،اپنے نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کرتا ہے، عورت کی مظلومیت کا رونا رو کے اسے آزادی کا لالچ دے کے بے لباس کرنا ان کا اولین ٹارگٹ رہا ہے۔۔ نہ تم کسی سے کم ہو نہ کمزور پر برابری کی بات مت کرو۔۔ عورت ،عورت ہی اچھی لگتی ہے ،مردوں کے ساتھ ٹانگوں سے ٹانگیں ملا کے چلتی عورت کسی معاشرے، کسی مذہب میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھی جاتی۔۔ تمھاری اولین ترجیح تمھارا گھر اور شوہر ہونا چاہیے، خواہشات پر اپنا سکون قربان مت کرو ,خواہشات تو ان کی بھی ادھوری رہ جاتی ہیں جو دنیا پر حکومت کرتے ہیں۔۔ نوکری کرو ،اپنا مستقبل بناؤ۔۔ پر یاد رکھو عزت گھر کی چار دیواری میں ہے ورنہ باہر تو لوگ برقعہ پہنے چلتی خاتون کا ایکسرا کیئے بغیر بھی نہیں رہتے۔
چاہنے اور چاہے جانے کا حق، خواب دیکھنے کا حق سب تمہارے ہیں ،اسلام نے تمہارے نکاح میں تمہاری رضا مشروط کر دی، کنواری لڑکی کا نکاح اس کی رضا کے بغیر باطل قرار دیا گیا، پر یوں محبت کے نام پر خود کو چار چاند کیوں لگاتی ہو؟ اس وقت ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔۔۔لاہور میں ایک طالبہ کسی دوسرے شہر سے پڑھنے آئی، جہاں کسی مرد کی رنگین باتوں ،جھوٹ کی بنیاد پر دکھائے خوابوں میں آنا شاید مشکل نہیں ،پھر ہونا کیا تھا ،دھوکے سے بلا کر۔۔۔خیر دھوکے سے بلانا کہنا غلط لگتا ہے، اپنی مرضی سے وہ خاتون گئی جہاں چار آدمیوں نے محبت کی قیمت وصول کی، ویڈیو بنا کے بلیک میل کیا جاتا رہا۔۔۔
کوئی ترلہ واسطہ کام نہ آیا کہ جب مرد کے دماغ پر ہوس سوار ہو ،تب دھیان ہی کہاں رہتا ہے کسی بات کا۔۔۔۔۔بعد کی کہانی لمبی ہے، ہو سکتا ہے یہ واقعہ آپ نے سنا ہو۔۔۔ محبت کرنا ،اظہارِ پسندیدگی تمہارا حق ہے،اور یہ حق تمہیں مذہب نے دیا ہے۔۔ پر محض چند خوابوں کی تعبیر پانے کو اس قدر دور نہ چلی جانا کہ واپسی پر صرف ذلت مقدر ٹھہرے۔۔
سنو اے لڑکی! مرد کتنا سچا ،وفا دار ،محبت کرنے والا کیوں نہ ہو ،نکاح سے پہلے اپنے کپڑے مت اتارنا!

Facebook Comments

علی حسین
منٹو نہیں ،منٹو جیسا ہوں ،معاشرے کو کپڑے پہنانے کی کوشش نہیں کرتا!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”لڑکیو! اپنا آپ پہچانو

Leave a Reply