پہلا رمضان

ہمارے گھر کے سامنے فاطمہ آپا رہا کرتیں تھیں کافی وقت ہوا حیدر آباد شفٹ ہو گئیں۔
آج ان کا سنا تو کافی افسوس ہوا اللہ انہیں غریق جنت کرے، کافی دبلی پتلی نحیف سی خاتون تھیں، انکی والدہ روشن آراء بیگم ہندستان سے آتے وقت فاطمہ آپا کو بھی گود میں لے آئیں تھیں، فاطمہ آپا نے ہندستان کے علاقے حیدرآباد میں آنکھ کھولی تھی، چار چھ برس کی تھیں کہ پاکستان ہجرت کر آئیں، ہجرت کیا تھی بس ایک ٹرنک تھا جس میں گھر بھر کے کپڑے اور کچھ برتن تھے، جو آتے وقت باری باری روشن آراء اور انکے میاں مل بانٹ کے اٹھاتے، کچھ دیر فاطمہ کو انکی اماں اور کچھ دیر کے بعد انکے ابا کاندھے پر بٹھا لیتے اور یوں ٹرنک کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا، پاکستان بننے کے بعد پہلا رمضان تھا، روشن آراء روزے پابندی سے رکھتیں اور میاں جی کو بھی رکھوا رہیں تھیں، فاطمہ آپا کے بقول اماں سحری کے وقت ٹرنک کھولتیں روٹی کے کچھ ٹکڑے نکالتیں ابا کو دیتیں اور ایک دو نوالے خود کھالیتیں اور پھر اللہ شکر کر کے روزہ رکھ لیتیں، دن بھر فاطمہ کو کہتیں کہ دیکھ ماں باپ کی ایک ہے بڑے نازوں سے پال رہے ہیں تجھے کبھی ہمارا منہ کالا مت کرائیو، کسی بھی کھانے کی چیز پر نظر پڑے تو ضد نا کریو، کوئی پوچھے تو کہہ دیجیو کہ اماں نے روزہ رکھوایا ہوا ہے، پاکستان میں اپنا گھر ملتے ہی روزہ کشائی کروا دیں گے تیری اور ساتھ میں بڑے پیر صاحب کی نیاز بھی ہوگی۔فاطمہ باجی ہم بچوں کو پاکستان کا پہلا رمضان ایسے سناتیں کہ ہمیں تھوڑی دیر کو یوں لگتا کے ہم واہگہ بارڈر کے اس پار کھڑے ہیں، ساتھ میں بہن ہے چھوٹا بھائی ہے اور بس پاکستان کو جانا ہے مگر ساتھ میں سب کا خیال بھی رکھنا ہے، آپا بتاتیں کہ آخر کار وہ دن بھی آیا کہ بارڈر کے اس پار کلیمٹ آفس سے ببن میاں ببن میاں کا نعرہ لگا…!!
ایک مخنی سا آدمی دوڑا آیا اور اماں کو کہا۔۔۔
آپا تمھارا آدمی کہاں ہے۔۔؟
پہلے اماں پریشان ہوئیں ادھر ادھر دیکھا اور کہا اے میاں کیا دماغ چل گیا تمھارا ہم کسی آدمی کو نہیں جانتے۔۔
ہم حیدرآباد سے آئے روشن آراء ہیں، ہمارے میاں ببن افطاری کے لیے سامان لینے نکلے ہیں یہیں سامنے تلک گئے ہیں اور یہ فاطمہ بانو ہے لڑکی ہماری۔
باقی مرد کیا جانیں ہم۔۔۔ وہ بابو صاحب سمجھ گئے ، کہا کہ اندر چلو ڈپٹی صاحب سے اپنے گھر اور زمین کے کاغذ لے لو اور لاڑکانہ چلی جاؤ۔۔
لاڑکانہ۔۔ موئے کہاں بھیج رہا ہمیں؟
اماں نے اتار جوتی اور ایک ماری کہ دوسری۔۔ بابو صاحب بھاگ لیئے، تھوڑی ہی دیر میں ایک صاحب پتلا پاجامہ کرتا پہنے آئے اور کاغذات کے انبار ساتھ تھے۔ آتے ہی سلام وعلیکم آپا، لو یہاں انگوٹھا لگا دو۔۔ اور یہ کاغذ لو اور ٹرین پکڑ کے نکل جاؤ ملتان وہاں سے آگے کی ٹرین پکڑنا سکھر تک کی اور وہاں سے کسی سے بھی پوچھ لینا لاڑکانہ کہاں ہے۔۔اماں ہونقوں کی طرح ان کا چہرہ دیکھتی رہیں۔۔ کاغذات پر انگوٹھا لگایا ابا بھی اسی پل آن پہنچے۔۔ میاں ببن یہ رہے کاغذ اور پتہ ہم نے سمجھا دیا ہے اب جاؤ نیا ملک ہے کھیتی کرو اور آزاد رہو، سلام وعلیکم!
ابا خوشی سے پھولے نہ سمائے، اماں کو کہا نیک بخت حیدرآباد سے یہاں تک کا سفر رائیگاں نہیں گیا، بڑے پیر صاحب کی نیاز مانی تھی نا دیکھ کام کیسے جھٹ پٹ ہو رہے، اماں ٹرین میں ٹرنک لادے اسی پر بیٹھ گئیں اور کاغذات کو سینے سے لگا لیا، ٹرین رکی۔۔ رات کا کوئی پہر ہوگا، اماں بولیں فاطمہ کے ابا روٹی لے آؤ تو روزہ رکھ لیں، ابا اُترے۔۔۔ آن کی آن میں ٹرین چل پڑی۔۔۔ چلی چلی اور تیز ہو گئی،
ہائے فاطمہ کے ابا رہ گئے۔۔۔۔اماں چلائیں مگر بے سود۔۔۔ ابا رہ گئے جانے کون سا اسٹیشن تھا کہ اماں کی چیخوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، مگر ٹرین کے کان تو تھے نہیں کہ رکتی، اماں روتی رہیں اور ٹرین سر پٹ دوڑتی رہی، سب نے کہا آگے اسٹاپ پر رکے گی، ابا چڑھ گئے ہوں گے پچھلے ڈبے میں پھر اس اسٹاپ کے بعد کئی اسٹاپ آئے مگر ابا نہ آئے۔۔۔
اماں روتی دھوتی جھولی پھیلائے بڑے پیر صاحب کو پکارتی رہیں۔۔ اے بغداد کے شہنشاہ ہمری بھی سن لو فریاد۔۔۔ فاطمہ کے ابا کو بلائی دیو، رکھو لو زمین گھر کے کاغذ، نہیں چاہیے ایسی دھن دولت، بڑے پیر سنتے ہو کہ نہیں۔۔۔؟ ایسا کرو ملک ہی رکھ لو ہم کو واپس حیدرآباد بھیج دو ہم سسرال میں خوش ہیں کم سے کم فاطمہ کے ابا تو ساتھ ہوں گے رکھ لو اپنا ملک۔۔ مگر بڑے پیر صاحب نے ایک نہ سنی اور ابا نا آئے۔۔ اماں نے روزہ بھوکے پیاسے رکھ لیا،
کوئی عجیب سا شہر تھا۔۔۔ سب اتر گئے، اماں نے کسی سے پوچھا کہ یہ ملتان کہاں پڑے گا؟ تو معلوم پڑا کہ وہ تو چھوڑے دن گزر گیا، اب تو یہ سندھ ہے۔۔ اور سندھ کا بھی عجیب نام والا شہر تھا، اماں کے پلے نہ پڑا ایک اکیلی اماں بغل میں ہم اور اماں کے سر پر وہ ٹرنک جو ابا مرد ہو کر بھی زوروں لگاتے اٹھانے میں وہ عورت ہو کر اماں نے سر پر اٹھا لیا تھا، گرتی پڑتی رہیں مگر روزہ نا توڑا۔
مغرب کے وقت ایک درگاہ میں پڑاؤ ڈالا۔۔ اذان کا معلوم نہیں کب ہوئی کب ختم۔۔ بس نلکے سے پانی پیا اور اللہ کا شکر کر کے وہیں بیٹھ گئیں اور پھر وظیفے پڑھنے لگیں، اے شاہِِ بغداد سنتے ہو کہ نہیں۔۔ کہاں جائیں جوان جہان ساتھ لڑکی بھی ہے اور کاغذ بھی ہیں۔۔ ببن میاں کو بلائی دیو بس بہت ہوا روزہ اللہ نبیﷺ کا رکھنا تھا اس لیے اتارا تھا ٹرین سے اپنے ببن میاں کو، ہمیں کیا معلوم تھا کہ گاڑی چل پڑے گی۔ وہیں لوگ آتے جاتے ہمیں گھورتے۔۔سکے ڈالتے جاتے ہمارےآگے اور اماں چیختی چلاتی پرے ہٹو بد بختوں۔۔ ہم بھکاری نہیں ہم تو بڑے پیر صاحب کے در کے منگتے ہیں مگر لوگوں کا کیا قصور وہ نہ ہماری زبان سمجھتے تھے نہ ہم انکی۔۔ رات جیسے تیسے وہاں گزاری اگلے دن پھر سفر شروع کیا۔ گرتے پڑتے روزے سے اماں آخر سکھر پہنچ گئیں، اماں وہیں ریلوے اسٹیشن پر رات گزارتیں اور دن بھر مجھے لیے ٹرنک سر پر رکھ کر آوازیں لگاتیں، ارے او فاطمہ کے ابا کہاں ہو۔۔۔
مگر ابا کہاں ملتے تھے۔۔
روزوں پر روزے چل رہے تھے اور نیاز پر نیاز مانی جا رہی تھی مگر ابا نہ ملے۔۔ بھوک پیاس سے برا حال ہو جاتا مگر اماں کا کہنا کہ کوئی پوچھے تو کہیو کہ روزہ سے ہوں ۔۔۔ پہلا روزہ ہے، گھر اور ابا کے ملتے ہی نیاز کروائیں گے۔ بس پھر کیا تھا۔۔ ہاتھ کسی کے آگے نہ پھیلاتیں جہاں مسجد دیکھتیں پانی مانگ کر روزہ کھول لیتیں اور پانی سے رکھ لیتیں، خدا معلوم کہ روٹی کب کھاتیں مگر مجال ہے کہ کسی کو اپنا چہرہ دکھایا ہو اور کہا ہو کہ دو نوالے کھلا دو، سکھر ریلوے اسٹیشن پر ایک رات واپسی پر اماں کو غشی کا دورہ پڑگیا۔۔ لوگ جمع ہو گئے ہم نے ناسمجھی کے مارے رونا دھونا ڈال دیا۔۔ کوئی پانی لایا تو کسی نے چونی اٹھنی ڈال دی، سامنے کچھ دیر بعد اماں کی آنکھ کھلی کہ مارے خوشی کے سینے سے لگا لیا اور کہنے لگیں دیکھ فاطمہ ابا تیرے خوش ہیں بڑے پیر صاحب کے پاؤں داب رہے تھے کہہ رہے تھے روشن آراء فاطمہ کو لیکر واپس لاہور آجا میں پیر صاحب کے پاس ہوں میری فکر مت کریو، اماں اٹھیں ٹرنک سر پر رکھا لوگوں سے جانے کیا پوچھا اور ایک ٹرین میں بیٹھ گئیں، لوگ پیچھے پیچھے۔۔۔ پانی لیے کہ پی لو بی بی پانی پی لو۔۔۔ مگر اماں کہاں سننے والی تھیں، ٹرین چلنے لگی، چلتی گئی۔۔۔ لاہور بھی آگیا۔ اماں مجھے لیے اتریں اور بھاگم بھاگ لوگوں سے پوچھتیں۔۔ ارے کوئی تو بتا دو یہ پیر صاحب کا گھر کہاں ہے ارے کسی کو معلوم ہے کہ بڑے پیر صاحب کہاں رہتے میاں۔۔۔؟
کوئی تو بولے ارے فاطمہ کے ابا ببن میاں ہیں وہاں۔۔۔ ارے کوئی تو بتائے پتہ ہمیں۔۔ مگر کسی کو معلوم ہوتا تب بتاتا، تھک ہار کر بیٹھیں تو کہا۔۔ دیکھ فاطمہ آج آخری روزہ ہے، کل عید ہے۔۔ بڑے پیر صاحب کی زیارت ہوئی ہے تیرے ابا یہیں ہیں پیر صاحب کی چوکھٹ پر گھبرائیو نہیں۔۔ وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے بولتیں جاتیں ارے فاطمہ کے ابا کاہے اترے ریل گاڑی سے ارے بھوک سے مر تھوڑی نہ جاتے۔۔ ایک روزہ بھوکے پیٹ رکھ لیتے تو کیا ہوتا ساتھ تو ہوتے نا آج۔۔۔ دیکھو کیا حال ہوا ہے کتنے روزے بھوکوں کاٹے ہیں، ہائے ہائے اللہ کوئی پیر صاحب کے گھر کا بتا دے ہم یہ ٹرنک دے دیں اسے ایک بیل گاڑی رکی اور ایک ضعیف شخص نے آواز لگائی ۔۔۔ پیر صاحب کے ہاں جانا کیا تم کو.. اماں کے جیسے جان میں جان پڑ گئی ہاں ہاں ہمیں لے چلو کدھر کو رہتے بابا وہ ۔۔ فاطمہ کے ابا بھی انکی چوکھٹ پر پڑے، بیل گاڑی والے نے کہا، بہن ہم کو جانا ہے جلدی چلو شام تک گاؤں پہنچنا ہے۔ پیر صاحب کا دروازہ راستے میں پڑتا ہے چلو اب، اماں مجھے اور ٹرنک کو بیل گاڑی میں ڈال کر بیٹھ گئیں اور خوش خوش کہ ابا تو چلو ملے ہی ملیں گے مگر پیر صاحب بھی مل رہے ہیں، کافی دور جا کر ایک مزار آیا، بیل گاڑی والے نے کہا یہ لو آگئے تمھارے پیر صاحب ہم چلتے ہیں۔۔ ببن میاں پڑے اندر رو رہے کافی دنوں سے جا کے ان کا روزہ کھلواؤ۔۔۔۔ اماں ہکا بکا۔۔ ارے چچا تم کو کیا معلوم فاطمہ کے ابا ببن میاں ہیں؟
وہ بولے اب اترو ہم کو اوروں کے پاس بھی جانا ہے پیر صاحب کا حکم ہے شام تلک گاؤں پہنچنا ہے۔۔ اماں ٹرنک اور ہمیں لئے بھاگم بھاگ مزار کے اندر چیختی چلاتی چلتی چلیں گئیں۔۔۔ ارے او فاطمہ کے ابا کہاں ہو تم ؟؟ کہاں ہو ببن میاں ؟؟ کاہے نام پکارنے کا گناہ کرا رے ہم سے۔۔۔۔
کہاں رہ گئے۔۔؟
مزار میں کافی رش تھا، اماں کی آواز نے کیا دور جانا تھا، اماں تھک ہار بیٹھ گئیں، اچانک ابا سامنے آئے روٹی پکڑے اماں کے پاس بیٹھ گئے، نیک بخت روزہ کھول لو اذان بھی ہو گئی کیا روزہ نہیں کھولنا۔۔۔!!
اماں نے جو ابا کو دیکھا وہ چیخیں چلائیں لپٹ گئیں ان سے اور ہائے ہُو مچا دی۔۔۔رو رو کر شکر ادا کیا۔ مزار کے اندر بھاگیں اور فاتحہ پڑھی۔۔ ابا سے پوچھا بڑے پیر صاحب تو بغداد شریف میں یہ کس کا مزار بنائے لاہور والے یہاں؟ ابا بولے نیک بخت یہ حضرت داتا گنج بخش سرکار ہیں۔۔ بڑے پیر صاحب کے خاص خلیفہ ہیں۔ بس پھر کیا تھا اماں رو رو کہتیں اے اللہ کے ولی ہمیں معاف کر دیو ہمیں زمین کاغذ نہیں بس تمھارا در چاہیے۔۔۔ اماں نے ٹرنک کھولا اور کپڑوں کے نیچے نیچے ہاتھ ڈال کر کوئی چمکتی ہوئی چیز نکالی اور نم آنکھوں سے ابا کو تھماتے ہوئے کہا فاطمہ کے ابا یہ لو کچھ لے آؤ تمھارے ملنے کی نیاز مانی تھی۔
جلدی لانا ہم ادھر ہی کو بیٹھے ہیں۔

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply