بات اب اپنے حق حکمرانی کی ہے ۔۔محمد احسن سمیع

ہمارا ایم کیو ایم سپورٹر ہونا معروف ہے اور ہماری اس سپورٹ کی اپنی وجوہات ہیں، تاہم ہم نے اس کے باوجود الطاف حسین کے غلط اقدامات پر اسے نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ مذاق بھی اڑایا جو کہ اسی فیس بک وال پر دیکھا جا سکتا ہے. میں ذاتی طور پر یہ رائے رکھتا تھا کہ الطاف حسین اپنی ذہنی ناآسودگی کے سبب پارٹی قیادت کے لئے موزوں نہیں رہا تاہم مجموعی طور پر یہ ایک اقلیتی رائے ہی تھی. اسی لئے جب بھی باہر والوں کی جانب سے یہ مشورے دیئے جاتے تھے کہ ایم کیو ایم کو الطاف حسین سے پیچھا چھڑا لینا چاہیے  تو اپنی ذاتی رائے کے برعکس میں ہمیشہ ایسی تجاویز کی اس اصول کے تحت مخالفت کرتا رہا کہ پارٹی کی سربراہی کس کو  کرنی ہے، آئینی اور جمہوری اصولوں کے اعتبار سے یہ طے کرنے کا حق صرف ووٹرز اور پارٹی کے حامیوں کو ہے. اکثریت جسے قبول کرتی ہے اور مناسب سمجھتی ہے قیادت اسی کا حق ہے جو محض کسی طالع آزما کی انا کی تسکین کی خاطر اس سے نہیں چھینا جا سکتا۔ کم از کم اپنی ذات کے لئے میں نے یہ اصول طے کرلیا تھا اور اب وقت، حالات اور کردار بدلنے پر میں یہ اصول نہیں بدل سکتا۔ کل تک اگر مجھے کسی کے ایما پر الطاف حسین کی قیادت سے جبری بے دخلی گوارا نہیں تھی تو آج نواز شریف کے معاملے میں میں یہ اصول صرف اس لئے بدل دوں کہ اس سے  پہلے وہ ہماری پارٹی کے سابق قائد کی زباں بندی میں شامل تھا، ہرگز نہیں! ہماری تہذیب میں مخالفین کی مشکل اور پریشانی پر خوش ہونے کو چھوٹے پن کی علامت سمجھا جاتا ہے جو مجھے اپنے لئے کسی طور گوارا نہیں. ٹھیک ہے کل تک وہ ہماری مشکلوں پر ہنسا کرتے تھے   مگر کیا آج ہم بھی وہی کچھ کرکے اپنا قد گھٹالیں؟

بات اب چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے تعاقب سے بہت آگے جا چکی. بات اب ہم عوام کے مجموعی حق حکمرانی کی ہے، جو وہ لوگ ہمیں کسی طور دینے کو تیار نہیں۔ کل تک ہم اکیلے اس امر کا ادراک رکھتے تھے، آج اگر ملک کی سب سے بڑی جماعت کو بھی یہ احساس ہوچکا ہے تو یہ وقت مل جل کر قافلہ وسیع کرکے اپنا حق چھیننےکا ہے۔ کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ اس نازک وقت میں وہ تاریخ کی غلط سائیڈ پر عوام کے مخالف کھڑا رہ کر کچھ حاصل کرلے گا تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ جب انہیں ضرورت نہ رہے تو وہ باپ کے درجے پر فائز کئے گئے گدھوں کو لاوارث چھوڑتے دیر نہیں کرتے۔ سو بار وردی میں منتخب کروانے کی بڑھک لگانے والے پرویز الٰہی کو این آر او کے وقت بہادر کمانڈو نے کیسے کھڈے لائن لگایا تھا یہ زیادہ پرانی بات نہیں جو ہم اور آپ بھول جائیں۔ شقاوت کی انتہاء یہ ہے ملک کی تقریباً نصف آبادی کو ایوان بالا میں نمائندگی سے محروم کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کی گئی. ہم اب بھی ایک دوسرے کو طعنے دیتے رہ جائیں گے مگر یہ نہیں سوچیں گے کہ اس طرح کی مثالیں اگر ایک بار قائم ہو گئیں تو ہوسِ اقتدار کے یہ پجاری کل کو کسی بھی پارٹی کو حکمرانی نہیں کرنے دیں گے۔تحریک انصاف اور عمران خان کو تو شاید اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کا مقصد حکمرانی یا اچھی حکمرانی کبھی رہا ہی نہیں، کہ اگر ایسا ہوتا تو آج پختونوا میں گورننس کی حالت قابل رحم نہ ہوتی۔ انہیں بس کسی بھی طریقے سے وزیر اعظم ہاؤس میں سکونت چاہیے  جس کے لئے وہ کسی کے بھی پیر دھونے کو تیار ہیں۔ تاہم ہمیں فرق پڑتا ہے۔ ہم کسی ایسے شخص کی غلامی کرنے کو تیار نہیں جو خود کو عوام سے افضل سمجھتا ہو اور بزور قوت اقتدار پر قبضہ کرے۔ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے نمائندے چنیں اور ہمارے نمائندوں کا حق ہے کہ وہ بااختیار ہوں۔ یہ حق ہمیں آئین پاکستان واضح طور پر دیتا ہے جس کا حصول کسی کی من مانی تشریح کا محتاج نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لوگو! اپنے حق حکمرانی کو پہچانو اس سے پہلے کہ اس کا  تصور ہی تمہارے ذہنوں سے محو کر دیا جائے!!

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply