ناکامیوں سے آگے (69)۔۔وہاراامباکر

ایک اشتہار میں باسکٹ بال کے عظیم کھلاڑی مائیکل جارڈن کہتے ہیں، “میں نے اپنے کیرئیر میں نو ہزار شاٹ مِس کی ہیں۔ میں تین سو میچ ہارا ہوں۔ چھبیس بار میچ جیتنے والی شاٹ میرے ہاتھ میں تھی اور میں کامیاب نہ ہو سکا۔ میں بار بار ناکام ہوا ہوں۔ اور یہ میری کامیابی کی وجہ ہے”۔

فزکس پڑھنے والے بہت سے بڑے سائنسدانوں کو idolise کرتے ہیں۔ آئن سٹائن کو ان کی زبردست منطق اور ریڈیکل خیالات کی وجہ سے۔ فائنمین اور پال ڈیراک کو ان کے اچھوتے اور بظاہر غلط لگنے والے ریاضی کے تصورات کی وجہ سے جن کا اطلاق حیرت انگیز نتائج دیتا ہے۔ بوہر کو ان کی intuition کی وجہ سے۔ بڑے سائنسدانوں کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ یہ ایسے جینیس ہوتے ہیں جن کی سوچ ہمیں واضح ہوتی ہے اور خیالات ہمیشہ درست۔ ان کی بہت ہی زبردست بصیرت کے بارے میں پڑھتے ہوئے ان کے غلط نکلنے والے خیالات سامنے نہیں آتے۔ اور یہ فطری ہے۔ کیونکہ اچھے خیالات زندہ رہ جاتے ہیں اور برے خیالات بھلا دئے جاتے ہیں۔ اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ بدقسمتی سے ان سے ایسا تاثر ابھرتا ہے جیسے سائنس آسان ہے۔ یا کم از کم ان جیسے جینئس کے لئے آسان ہے۔

یہ سننا کہ عظیم لیجنڈ بھی ناکام ہوتے ہیں اور کامیابی ناکامی کے باوجود آگے بڑھتے رہنے کی وجہ سے تھی، ہمارے لئے حوصلہ افزا اور inspirational ہے۔ کوئی بھی جو دریافت اور ایجاد کے شعبے میں ہو، اس کے لئے بھی یہ جاننا اسی طرح فائدہ مند ہے کہ ان کی تمام کاوشیں درست نہیں تھیں، ہمارے پسندیدہ انٹلکچویل آئیڈیل ہمیشہ درست نہیں تھے اور بڑے کاموں میں ناکام ہوئے۔ یہی زندگی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بوہر اپنے ماڈل سے فوٹون کو نکالنا چاہ رہے تھے۔ لیکن کیوں؟ بوہر کے لئے خود ان کا اپنا ایٹم کا ماڈل بہت ریڈیکل تھا۔ روایتی سائنس سے بہت دور تھا۔ یہ دلچسپ ہے لیکن حیران کن نہیں۔ کیونکہ سائنس، معاشرے کی طرح، لوگوں کے مشترک خیالات پر بنتی ہے اور بوہر کا ایٹم اس سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

اور یہ وجہ ہے کہ کسی بھی شعبے کے بانی ہوں۔ گلیلیو یا نیوٹن، بوہر یا آئن سٹائن یا کوئی بھی اور ۔۔۔۔ جہاں پر ان کا تخیل انہیں نیا مستقبل تخلیق کرنے میں مدد کر رہا تھا، وہاں پر ان کا ایک قدم ماضی میں تھا۔ نیوٹن کو الکیمیا پر تیس سال لگانے کی وجہ کچھ مورخین نے آخری جادوگر کہا ہے جبکہ پرنسپیا جیسا ماسٹرپیس لکھنے کی وجہ سے کئی نے پہلا جدید سائنسدان۔ لیکن تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کسی پر لگائے جانے والے سادہ لیبل بے کار ہوتے ہیں۔

اور یہ صرف سائنس کے ساتھ نہیں۔ مثال کے طور پر، ابراہام لنکن، جو امریکی جنوب کو غلامی سے آزاد کروانے کے چیمپئن سمجھے جاتے ہیں ۔۔ کبھی اس خیال کو قبول نہیں کر سکے کہ سیاہ فام نسل کے لوگ معاشرتی اور سیاسی برابری کے ماحول میں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ وہ بیک وقت غلامی ختم کروانے والے بھی تھے اور سفیدفام نسل پرست تھے اور کہتے تھے کہ “ہاں، یہ منصفانہ نہیں، لیکن یہ بنیادی ایشو نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ سفید فاموں کا ایک برتر نسل ہونا ایک غلط خیال ہو لیکن یہ ایک یونیورسل احساس ہے اور اس کو آسانی سے ترک نہیں کیا جا سکتا”۔ ان کے لئے سفید فاموں کی برتری کا یقین چھوڑ دینا بہت زیادہ ریڈیکل قدم تھا جو وہ نہیں لے سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم سب اپنی انفرادیت کے ساتھ ساتھ معاشرے اور اپنے حلقہ احباب کی مشترک سوچ اور اقدار کی پیداوار ہیں جس سے الگ نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ کسی سے بھی پوچھیں کہ وہ کسی بھی چیز پر یقین کیوں رکھتا ہے تو وہ شاید لنکن کی طرح کھل کر نہیں کہہ سکے گا اور خود سے آگاہ بھی نہیں ہو گا۔ بہت کم لوگ ایسا کہیں گے کہ وہ اس چیز پر یقین اس لئے کرتے ہیں کہ ہر کوئی کرتا ہے۔

معاشرے ایسے ہی کام کرتے ہیں۔ سوسائٹی کے مشترک یقین کے بغیر معاشرہ چل ہی نہیں سکتا۔ یہ یقین کلچر بناتے ہیں اور کبھی ناانصافی بھی۔ سائنس، آرٹ اور ایسے علاقے جہاں تخلیق اور جدت اہم ہو، مشترک یقین کئی بار ترقی میں ذہنی رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ تبدیلی یکایک نہیں آتی۔

اور یہ وجہ تھی کہ بوہر اپنی تھیوری کو تبدیل کرنے کی کوشش میں تھے۔ وہ فزکس کو فوٹون سے نجات دلوانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس بارے میں بوہر کی intuition غلط تھی۔ وہ ناکام رہے۔ لیکن یہ ایک ضروری ناکامی تھی۔ اس کا ایک خوش قسمت اثر ہوا۔ اس نے بوہر کے ساتھ کام کرنے والے نوجوان ہائزنبرگ کو بوہر کے ایٹم کی تھیوری کے اصل مضمرات کے بارے میں گہرائی سے سوچنے کا موقع دیا۔ رفتہ رفتہ، ان کا اپنا تجزیہ انہیں فزکس کے ایک بالکل ہی نئے رخ کی طرف لے گیا۔ یہ دنیا کو دیکھنے کا انوکھا ہی زاویہ تھا۔ “نہ صرف یہ ممکن ہے بلکہ ضروری بھی کہ ہم ایٹم کے اندر کی فزیکل تصویر کا خیال ترک کر دیں۔ کوانٹم سطح پر دنیا کی کوئی فزیکل تصویر نہیں۔ مثال کے طور پر الیکٹران کی مداری گردش کا ہم ذہن میں تصور تو کرتے ہیں لیکن اصل میں اس کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایٹم کو سمجھنے کے لئے روزمرہ کی فزیکل رئیلیٹی کا تصور مکمل طور پر ترک کر دینا ضروری ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بوہر کی تھیوری، کلاسیکل فزکس کی طرح، کچھ خاصیتوں پر ریاضی کی ویلیو لگاتی تھی۔ جیسا کہ پوزیشن یا ولاسٹی۔ نیوٹن جس دنیا کی سٹڈی کرتے تھے ۔۔۔ پنڈولم، سیارے، پھینکے گئے پتھر ۔۔۔ ان اشیا میں پوزیشن اور ولاسٹی کا مشاہدہ اور پیمائش کی جا سکتی تھی۔ لیکن لیبارٹری میں تجربہ کرنے والے یہ مشاہدہ نہیں کر سکتے تھے کہ الیکٹران کہاں ہیں، کتنی تیز حرکت کر رہے ہیں۔ ہائزنبرگ نے توجیہہ کی کہ اگر ان کلاسیکل تصورات، جیسا کہ پوزیشن، رفتار، راستہ، مدار وغیرہ کا ہم ایٹمی سطح پر مشاہدہ نہیں کر سکتے تو ہمیں ایٹم کی اور دوسرے سسٹمز کی سائنس ان بنیادوں پر تخلیق کرنے کی کوشش ہی ترک کر دینی چاہیے۔ ہائزنبرگ نے تجویز کیا،“ان ماضی کے خیالات کے ساتھ کیوں چپکا رہا جائے۔ یہ فکری آثارِ قدیمہ ہیں۔ یہ سترہویں صدی کے خیالات ہیں”۔

ہائزنبرگ نے سوال کیا کہ کیا ایٹمی ڈیٹا کی مدد سے ایسی تھیوری بنائی جا سکتی ہے جس میں صرف وہ اعداد شامل ہوں جن کی پیمائش کی جا سکے؟ جیسا کہ فریکونسی یا ایٹم سے خارج ہونے والی ریڈی ایشن کا ایمپلی چیوڈ۔

رتھرفورڈ نے بوہر کے ایٹم پر اعتراض کیا تھا کہ بوہر نے کوئی مکینزم نہیں دیا جس کی مدد سے ایٹم ایک انرجی لیول سے دوسرے پر جمپ کرتا ہو۔ ہائزنبرگ نے اس تنقید کا جواب یہ مکینزم بتا کر نہیں دیا بلکہ یہ دعوٰی کر کے دیا کہ ایسا کوئی مکینزم ہے ہی نہیں۔ الیکٹران کے معاملے میں ایسا کوئی راستہ ہی نہیں۔ یا کم از کم یہ سوال فزکس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فزسٹ روشنی کے جذب ہونے یا خارج ہونے کا مشاہدہ تو کر سکتے ہیں لیکن اس پراسس کا نہیں۔

جب تک ہائزنبرگ واپس بورن انسٹی ٹیوٹ میں بطورِ لیکچرر آئے تو یہ ان کا خواب اور مقصد بن چکا تھا کہ وہ فزکس کرنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کریں گے جس کی بنیاد صرف قابلِ پیمائش ڈیٹا پر ہو گی۔

ایک بالکل ہی نئی سائنس جو نیوٹن کی حقیقت کی بدیہی وضاحت کو ترک کر دیتی ہو۔ پوزیشن اور ولاسٹی جیسے تصورات کو ترک کر دیتی ہو، کسی کے لئے بھی ایک بہت بڑی جسارت تھی۔ اور ہائزنبرگ جیسے تئیس سالہ ناتجربہ کار سائنسدان کے لئے؟

لیکن سکندرِاعظم جنہوں نے تقریباً اس عمر میں دنیا کا سیاسی نقشہ تبدیل کرنے کا کامیاب آغاز کیا تھا، انہی کی طرح ہائزنبرگ نے اس مارچ کی قیادت کرنی تھی جس نے فزکس کا سائنسی نقشہ تبدیل کرنا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply