بھارت تیزی سے انتہاپسندی کی جانب گامزن ہے ۔حالیہ انتخابات میں بھارتی مسلمانوں کو ایک طرح سے غائب کردیا گیا ہے20کروڑ سے زائد والی آبادی میں مسلمانوں کے پاس صرف10سیٹیں ہیں اور یوپی میں مسلمانوں والے اکثریتی علاقوں میں یہ پمفلٹ تقسیم ہوچکے ہیں کہ اب یو پی میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں رہ گئی، بہتر ہوگا کہ وہ کہیں اور آرام سے بسیرا کرلیں ۔دوسری طرف عالمی شہرت یافتہ مبلغِ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے اور غیرقانونی سرگرمیوں کے مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی ۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ سال ہونیوالے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے ڈاکٹر ذاکر نائیک پر اس طرح کی کارروائیاں کی جار ہی ہیں اور اب اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن و دیگر ادارے کی18.37کروڑ کی املاک بھارت ضبط کرچکا ہے ۔ایک طرح سے بھارت میں ہندو کارڈ بڑی کامیابی سے کھیلا جارہاہے ۔جہاں مسلمانوں کو مجبور کرکے علاقوں سے نکالا جا رہا ہے وہیں عام ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کرنے اور اپنے حق میں استعمال کرنے کی روایت بھارت میں عروج پر پہنچتی نظر آرہی ہے ۔
1527میں مغل بادشاہ کے دور میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد کو1949میں بندکردیا گیا تھا جس کے بعد1992میں انتہا پسند ہندوؤں کی سازشوں سے تین لاکھ سے زائد ہتھوڑوں‘ ڈنڈوں اور تلواروں سے مسلح جنونی ہندو16ویں صدی کی تاریخی عبادت گاہ بابری مسجد پر پل پڑے اور صرف چار گھنٹے میں مسجد کو مکمل شہید کر دیا۔ہندوؤں کے چوٹی کے لیڈر وہاں نہ صرف موجودتھے بلکہ ’’رام چندر جی کی جے ‘‘کے نعرے لگا رہے تھے ۔اس کے بعد ہندومسلم فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کو چن چن کر شہید کیا گیا بلاشبہ مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں تہہ تیغ کیا گیا ، املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور مسلمانوں کے خلاف عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں جو کہ رام مندرتحریک سے جڑے ہوئے اور ہندوتوا کے کٹر حامی ہیں۔ حکومت اور انتہاپسندوں کے سامنے عدالتی نظام مجبور ہوچکاہے ۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فریقین کو بابری مسجد تنازعہ کو عدالت سے باہر حل کرنے کا مشورہ دیاہے ۔تین رکنی بنچ کے سربراہ اور چیف جسٹس انڈین سپریم کورٹ جے ایس کھیہر کا کہنا تھا کہ ایسے حساس معاملے میں بہتر ہوگا کہ فریقین آپس میں گفت و شنید کے ذریعے اس تنازعہ کو ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے خود حل کریں۔ انہوں نے تجویز دی کہ فریقین تیار ہوں تو ان کی باہمی رضامندی سے سپریم کورٹ کے کسی بھی جج کو اس معاملے میں ثالث مقرر کیا جاسکتا ہے یعنی کہ جس زمین پر ایک لمبے عرصے سے مسلمانوں کی عبادت گاہ ہو، پہلے اس عبادت گاہ کو ختم کرو ، پھر عبادت کرنے والوں کو مارو اور پھر ایک لمبے عرصے بعد عدالت عظمیٰ بیان دے کہ ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ معاملہ حل کیا جائے ۔بھارت میں ہندو ایک لمبے عرصے سے جہاں مسلمانوں کو تنگ کئے ہوئے ہیں وہیں دیگر اقلیتوں کو بھی نشانے پر رکھا ہوا ہے بھارتی حکومت بغیر کسی شک وشبہ کے ’’ہندوستان صرف ہندوؤں کا ‘‘ پر عمل پیرا ہوچکی ہے ۔
ماضی کی انہیں بھارتی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم بھارتی مسلمانوں کی جدوجہد کو دیکھتے ہیں جو وہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو وہ حق پر نظر آتے ہیں ۔جہاں عبادت گاہیں محفوظ نہ ہوں ، جہاں مال محفوظ نہ ہو، جہاں عزتیں محفوظ نہ ہوں ، جہاں مائیں اپنی بیٹیوں کے جنم پر خوشی کی بجائے ایک انجانے خوف میں مبتلا رہیں اور جہاں نامی گرامی مسلم اداکاروں کو انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑے ، جہاں گھر واپسی جیسی تحریکوں کی صورت میں غیر ہندوؤں کو ہندو بننے پر مجبور کیا جائے ۔ لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے اور جن کے بھائی کشمیر میں بھارتی مظالم سے لڑ رہے ہوں ،عدالتیں حکومتی پالیسیوں کی ببانگ دہل حمایتی ہوں وہاں اقلیتیں کیا کریں گی ؟ ذرا اس پر سوچئے گا ؟ہم بلاشبہ امن وسکون چاہتے ہیں لیکن اس امن وسکون کو کیا کہیے کہ جس میں ہماری مسلمان ماؤں ، بہنوں ،بیٹیوں اور عبادت گاہوں کی شہادتیں وبے حرمتی شامل ہو ۔بھارتیوں کی اکثریت تھوڑے سے برہمنوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہو کر اپنے ہی ملک پر یلغار کئے ہوئے ہیں ۔اقوام متحدہ و دیگر عالمی ادارے بھارتی مظالم پر لمبی تان کر سو رہے ہیں کشمیر پر اقوام متحدہ قرار دادیں پاس کررہی ہے جسے بھارت ردی کی ٹوکری میں پھینک رہا ہے ۔عالمی ادارے بھارت کے اس رویے پر چُپ کرکے مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں ۔بھارتی مسلمان مضطرب ہیں اورسوال کناں ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے میں دیگر اسلامی ملک بھارتی حکومت پر دباؤ کیوں نہیں ڈالتے کہ بھارت مسلمانوں کو بنیادی حقوق اور انصاف فراہم کرے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں