مطلب قدر

خدا کس کے ساتھ ہے۔۔۔؟ خدا اس کے ساتھ ہے جس کو اپنے حقوق کا ادراک ہے جو اپنے استحصال کو آفاقی نہیں سمجھتا جو یہ جانتا ہے کہ فطرت کیا ہے، میں انسان ہوں، سوچ سکتا ہوں، سمجھ سکتا ہوں اور بنانے والے نے مجھے کسی سے کم نہیں بنایا، سب ایک سے ہیں، خدا مجھ سے کیا چاہتا ہے جس کو اپنے زورِ بازو پہ، جس کو اپنے آپ پہ اپنے خدا پہ یقین ہے کہ وہ ایسا نظام کبھی نہیں دے سکتا جس سے انسانوں کا استحصال ہو یہ تذبذب اس وجہ سے ہے کہ جہاں ہم رہتے وہاں کوئی مذہبی نظام رائج نہیں بلکہ اس نظام کا دور دور تک مذہب سے کوئی واسطہ نہیں مگر ہمیں باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ سب مذہب کا شاخسانہ ہے ایسی ایسی باتوں میں الجھایا جاتا ہے جن کا یا تو سرے سے وجود نہیں یا اس کا معاشرے میں کوئی استعمال ہی نہیں مگر ہم الجھے ہوئے ہیں انہی بحثوں میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور وہ طبقہ جس کی وجہ سے یہ حالات ہیں معاشی و معاشرتی استحصال ہے اور وہ نام نہاد مذہبی لوگ جن کی وجہ سے مذہبی منافرت عام ہو رہی ہے وہ عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں ان کے بچے سکون کی زندگی جی رہے ہیں ان کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں اور ہم یہاں کبھی ان کے دفاع میں یا ان کے پیدا کردہ حالات کے دفاع میں مرنے والے ہو گئے ہیں سرمایہ دار جاگیر دار اور ان کے ہاتھوں بکے ہوئے چند کٹھ پتلی مذہبی ٹھیکیداروں کی حاکمیت ہے اور وہ اپنی مرضی سے استحصال کرتے ہیں، نظام خداوندی کا بھی اور اس کے ساتھ انسانوں کا بھی۔۔ تاریخ اس بات پہ شاہد ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں مکمل مذہبی حکومت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکی اور اگر تخمینہ لگایا جائے تو اس پوری تاریخ کا01 • فیصد بھی نہیں بنتا اور پوری تاریخ شاہد ہے اس بات پہ کہ جب جب بھی چاہے قلیل مدت کے لیے ہی کیوں نہ سہی معاشرتی باگ دوڑ مذہبی نظام نے سنبھالی ہے اس میں معاشرتی اور معاشی تقسیم کا قلع قمع کیا ہے اور پھر وہی ہوتا ہے جو اب ہو رہا ہے کہ جب ہم جانتے ہی نہیں اور ہماری لاعلمی سے مفاد پرست طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے اپنے تھوڑے سے مفاد کی خاطر انسانوں کے وسیع تر مفاد سے کھیل جاتے ہیں اور یہ المیہ کوئی نیا نہیں فی زمانہ یہی صورت حال رہی ہے اور ہم اپنی کم علمی و کم عقلی کی بنا پہ نظام کی حقانیت جاننے کی بجائے حالات کو سدھارنے کی کوشش کی بجائے جاننے کی بجائے اپنی حقیقت و حقانیت جاننے کی بجائے کسی پہ مدعا ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بری الذمہ ہو جائیں ہماری ذمہ داری یہ نہیں یہ ہے، یہ نہیں یہ ہے اور سرمایہ دار جاگیر دار صنعت کار اور جو بھی ایسا مفاد پرست طبقہ موجود ہے اس کا مقصد صرف یہی ہے کہ انسانیت کا استحصال اور مذہبی منافرت اور اس کی آڑ میں وہ کھلے عام موج کرتے ہیں اور اپنی نجی محفلوں میں مذہب اور انسانیت دونوں کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ۔۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب اس میں برابری کی سطح پہ آ کے سوچیں اور سمجھیں کہ ہمارے ساتھ یہ کیا کھلواڑ ہو رہا ہے اور اپنے حقوق کا ادراک ہی ہمیں منزل تک لے کے جا سکتا ہے

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply