متبادل بیانیہ کے حقیقی مالک۔۔۔۔ ایم کیوایم کا مستقبل (2)

شاگرد : یہ تو سمجھ آتا ہے کہ انتہا پسندی کا جو بیانیہ چالیس برس بزور طاقت ہماری تہذیب و ثقافت سے برسر پیکار رہا ۔ جو مصنوعی جہاد کلچر متعارف کروایا گیا اس نے ایسا کرنے والوں کی اپنی ذاتی زندگی میں کوئی نظر آنے والا انقلاب برپا نہیں کیا مگر ایک سوچ تو انکے ذہنوں میں موجود تھی۔ جسکا کہ عملی اطلاق کرنے کی کوشش کی گئی پھر آج اگر وہی لوگ اپنے چہرے کا ماسک بدل رہے ہیں ۔خود کو لبرل اور روشن خیال کہہ کر صرف مصنوعی طور پر بین الاقوامی سطح پر ایک مصنوعی شناخت کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ سب تبدیلی تو نہ ہوئی ایک کھلی منافقت جو شائد زیادہ دیر پا نہ ہو۔
استاد : اس میں قطعی طور پر دو رائے نہیں کہ جو تبدیلی کی بات کر رہے ہیں یا متبادل بیانیہ کی بات کر رہے ہیں وہ اگر اس انداز میں ان اداروں کی مدد کے مرہون منت ہیں جو اپنے چالیس سال سے پھیلائے ہوئے گند کو نہیں سمیٹتے اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے تو ایسی مصنوعی تبدیلی اپنے ابتدائی ایام ہی میں زمین بوس ہو جائیگی ۔
شاگرد : اور اس کا نقصان کیا عوام اور ہر روشن خیال جماعت کو نہیں پہنچے گا ۔
استاد : پاکستان کی سول سوسائیٹی ، روشن خیال سیاسی جماعتیں اور معتدل مزاج رکھنے والی عوامی اکثریت پاکستان کا سافٹ امیج ہیں۔ اگر انھیں کسی دو عملی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بطور چارہ استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،اپنے انتہا پسندی کی پشت پناہی کرنے والے ہاتھوں کو کاٹا نہیں جاتا صرف کچھ دیر کیلئے باندھ دیا جاتا ہے تو یقینی طور پر متبادل بیانیہ کی دم سے بندھی یہ تمام روشن خیال قوتیں ایک ایسے ہولناک تاریک غار میں جا گریں گی جو ایک مستقل اور مکمل تباہی کا راستہ روکنے کی آخری کوشش بھی ناکام بنا دے گا اس کے بعد کے منظر میں علاوہ آگ اور دھوئیں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔
شاگرد : کیا یہ ضروری نہیں کہ انتہا پسندی کے خلاف جاری آپریشن کو اس کے منظقی انجام تک پہنچایا جائے ، نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد کرتے ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ہر سہولت کار کو ہر شعبہ زندگی سے نکال باہر کیا جائے اس سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے جن مذہبی تعلیمی اداروں کو ماضی میں ااستعمال کیا جاتا رہا ہے اور جن سے آپریشن کرنے والے بخوبی واقف ہیں ان کو بند کر دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی حکومت کو متبادل روشن خیال بیانیہ کیلئے آزاد چھوڑ دیا جائے ۔
استاد : اس کیلئے نہایت ضروری ہے کہ تمام روشن خیال جمہوریت پسند جماعتیں اور سول سوسائیٹی اس طرح ایک صفحہ پر آئیں کہ انھیں عوام کی ایک غالب اکثریت کا مکمل اعتماد حاصل ہو مگر یہاں نسلی تعصب ، لسانی اور نظریاتی اختلافات کی جڑیں بہت گہری ہیں انھیں ختم کیئے بنا کسی ایک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق رائے نہایت دشوار ہے ۔ پارلیمنٹ عوام کا نمایندہ ادارہ ہے عوام کا منتخب کیا ہوا ادارہ جسکا ہر فرد پارلیمنٹ کا ترجمان ہے اگر کسی ایک بھی پارلیمنٹرین کیلئے پارلیمنٹ بے حسی کا شکار ہوتا ہے تو اسکی ساکھ متاثر ہوتی ہے جیسا کے فاروق ستار کی مثال سے پچھلی نشست میں بھی بات ہو چکی ۔
شاگرد : 22 اگست سے پہلے بھی جب ایک بار قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فاروق ستار کے گھر کا گھیراؤ کیا تھا تب پارلیمنٹ پر خاموشی چھائی رہی تھی اور صرف ایک سینٹ کے چیرمین میاں رضا ربانی نے کہا تھا کہ ایک پارلیمنٹرین کے ساتھ اس سلوک پر میرا دل رو رہا ہے ۔
استاد : میاں رضا ربانی چند دن پہلے بھی اپنی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں افسردگی کا شکار تھ۔ے تقریب میں زاہدہ حنا ، غازی صلاح الدین اور بہت سے دوسرے دانشور بھی موجود تھے دو موضوع خاص طور پر زیر بحث تھے ایک فوجی عدالتوں کو دی جانے والی توسیع اور دوسرا کراچی میں ایم کیوایم سے روا رکھا جانے والا غیر سیاسی طرز عمل۔ رضا ربانی نے دونوں ہی پر اپنے دکھ اور کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب کے سب اپنی اپنی انا کے حصار میں قید ہیں کوئی اپنی انا سے ایک قدم آگے بڑھ کر سوچنے کوتیار نہیں ۔
شاگرد : یہ اس وجہ سے تو نہیں کہ انکے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے برعکس ایم کیوایم نے میاں رضا ربانی کے حق میں ووٹ دیکر اسٹیبلشمنٹ کو کلی طورپر اپنے خلاف کر لیا جسکا اسے نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ۔
استاد : نہیں میاں رضا ربانی کی عمر کا ایک بڑا حصہ کراچی میں گزرا ہے وہ یہاں کے زمینی حقائق کے ساتھ ساتھ باطنی حکومت کے ہر رنگ و روپ سے واقف ہیں اور ایک اصول پسند سیاست دان ہیں جو کسی بھی صورت سیاسی عمل اور جمہوریت کی مخالفت میں کسی موقف کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے۔ تاہم من حیث الجماعت پی پی میں ایسے افراد کو کم ہی سنا جاتا ہے سو ایسے ضمیر کے قیدی صرف دکھ اور افسوس کا اظہار ہی کر سکتے ہیں ۔
شاگرد : مقصد انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے بنا عوامی تحفظات دور کیئے بغیر کسی متبادل بیانیہ پر ہم پاکستان کا ایک سافٹ امیج جو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں وہ ممکن نہ ہو سکے گا ۔
استاد : دیکھو جب ٹی وی کی نشریات شام پانچ بجے شروع ہوتی تھیں اور رات ساڑھے گیارہ بجے فرمان الہی کے ساتھ ختم ہو جاتی تھیں۔ ہر دوسرے دن اخبارات کے پورے پورے صفحات سینسر شپ کی وجہ سے سادہ ہوتے تھے اس وقت بھی عوام کو کلی طور پر ریاستی بیانیہ کا ہم نوا بنانا اتنا سہل نہیں تھا۔ سیربین ، بی بی سی ، ایران زاہدان اور بہت سی دیگر فریکوئنسیاں لوگوں کو ازبر تھیں وہ سچ کی جستجو میں ریڈیو کے گرد یوں جمع ہوتے تھے جیسے شیرے پر مکھیاں اور آج جب کہ خبر کو سات پردوں میں چھپا کر بھی عوام سے پوشیدہ رکھنا ناممکن ہو چکا ہے نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے استعمال نے عوامی شعور کو اتنا پختہ کر دیا ہے کہ اب آپ خود اپنی عوام کی آنکھوں میں بھی دھول نہیں جھونک سکتے تو پھر یہ توقع رکھنا کہ کوئی مصنوعی بندوبست بین الاقوامی سطح پر آپ کو سافٹ امیج بنانے میں مدد دے گا ایک نہایت احمقانہ خیال ہے ۔
شاگرد : سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی با عزت بری کر یئے گئے ان کے ساتھ بیوروکریسی کے دو گرفتار افراد بھی باعزت بری ہوگئے کیا یہ متبادل بیانیہ نہیں ہے ۔
استاد : اسے متبادل سیاسی بیانیہ کہہ سکتے ہو یہ پانامہ کیس کے حوالے سے حکومت پر زرداری کے دباؤ کی وجہ سے ممکن ہوا گو کہ حامد سعید کاظمی پر الزام غلط تھا اور بہت سے زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے انھیں ماتحت عدالت نے جو سزا سنائی تھی اس میں زیادہ عمل دخل انکے " کاظمی " ہونے کا ہی تھا اور یہ ایک غیر تحریر شدہ ریاستی بیانیہ کا شاخسانہ تھا مگر اس وقت انکی رہائی کسی روشن خیال بیانیہ کا نتیجہ نہیں بلکہ انھیں شکر ادا کرنا چاہئے کہ انکی اپیل کی شنوائی صدیقی صاحب نے نہیں کی ورنہ ممکن ہے وہ ماتحت عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر انھیں موت کی سزا سنا دیتے ۔
شاگرد : انتہا پسند تکفیری سوچ پر مبنی بیانیہ کے مکمل خاتمے اور ایک متبادل روشن خیال بیانیہ کے ساتھ مستقبل میں معتدل پاکستان کی پہچان بنانے کیلئے کیا کرنا ہوگا ۔
استاد : کراچی سے خیبر و فاٹا تک ، کوئٹہ سے جنوبی پنجاب تک جن لوگوں کو ناراض کیا ہے انھیں منایا جائے ان سے سیاسی مکالمہ کیا جائے انھیں انتظامی اور ریاسی طاقت سے کچلنے کے فسطائی طرز عمل کا خاتمہ کیا جائے۔ عوامی مینڈیٹ کا استعمال کیا جائے جنھیں دیوار سے لگا رکھا ہے انھیں آکسیجن فراہم کی جائے اور اگر دنیا کو زیبرے دکھانا مقصود ہے تو زیبرے ہی تلاش کیئے جائیں اور زیبرے ہی بحال کیئے جائیں اگر گدھوں پر لائنیں لگا کر دنیا کو زیبرے دکھانے ہیں تو دنیا زیبرے اور گدھے کا فرق بخوبی جانتی ہے ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں وہ آپ کو خچر سمجھنے میں قطعی طور پر حق بجانب ہوگی۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply