• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انسان کے حیاتیاتی اور شعوری ارتقاء کی کہانی۔۔محمد حسنین اشرف

انسان کے حیاتیاتی اور شعوری ارتقاء کی کہانی۔۔محمد حسنین اشرف

انسانی ارتقاء کی کہانی اس دن سے شروع ہوتی ہے جس دن ہمارا سولر سسٹم وجود میں آیا، دیکھنے میں ارتقاء کی کہانی نہ صرف کسی دیوانے کا خواب معلوم پڑتی بلکہ ظاہری شکل و صورت میں اس پر ہنسنے کو دل کرتا ہے لیکن جیسے جیسے انسان ارتقاء کی اس کہانی کا شواہد کی روشنی میں مطالعہ کرتا ہے اس کے لئے سیکھنے اور سمجھنے کی نئی راہیں کھلتی جاتی ہیں۔ ہماری زمین کی ساخت انتہائی عجیب و غریب ہے، ارتقاء کو سمجھنے سے قبل ضروری ہے کہ زمین کی ساخت کو سمجھا جائے، ہماری زمین کو بنیادی طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

اول: کرسٹ

دوئم: مینٹل

سوئم: باہری حصہ

چہارم: اندرونی حصہ

یہ بھی پڑھیں :  ہیگل کا تصور ارتقائی شعور اور ابجیکٹ کی حقیقت ۔۔مراد سوات

زمین کا سب سے اوپر والا حصہ جسے کرسٹ بھی کہتے ہیں یہ اصل میں بہت باریک تہہ ہے جیسے انڈے پر سفید جھلی یا سیب کا چھلکا، اسے اور مینٹل جو سخت پہاڑی مادے پر مشتمل ہے اسے لیتھوسفئیر بھی کہا جاتا ہے۔ زمین کا یہ حصہ (کرسٹ) ایک مکمل کی شیٹ کے برعکس مختلف حصوں میں بٹا یا ٹوٹا ہوا ہے۔ یہ چھلکا سات بڑی اور کئی چھوٹی پلیٹس پر مشتمل ہے جنہیں ہم ٹیکٹانک پلیٹس بھی کہتے ہیں۔ یہ پلیٹس کئی وجوہات کی بنا پر حرکت کرتی ہیں۔ ہم آتش فشاں پھٹنے اور زور دار دھماکہ ہونے کی وجہ سے زلزلہ یا دھمک محسوس کرتے ہیں اس کی وجہ یہی پلیٹس ہیں۔سمندر کے گھٹنے، آتش فشاں پھٹنے یا زلزلہ سے یہ پلیٹس حرکت کرتی ہیں لیکن یہ حرکت بہت کم اور غیر محسوس ہوتی ہے اس عمل کو کانٹینٹل ڈرفٹ یا کانٹینٹنل کریپنگ کہا جاتا ہے۔ ایلفرڈ وینر نے 1912 میں اس آئیڈیا کو پیش کیا اس سے قبل بھی کئی لوگ ایسے آئیڈیاز دےچکے تھے اور انہی کی طرح ایلفرڈ کے آئیڈیا کو بھی کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی لیکن بعد کے تجربات نے ایلفرڈ کی بات کو درست ثابت کردیا۔ ایلفرڈ کے نزدیک یورپ اور امریکہ ایک وقت میں ایک ہی خطہ خشکی کا حصہ رہے ہونگے اسے اس نے پینجی آئی لینڈ کا نام دیا۔ اور کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بڑا خطہ اراضی مختلف حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ نیچے دی گئی تصویر میں اس عمل کو دکھایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں :  نظریہِ ارتقاء کے “ارتقائی” منکرین۔۔شاداب مرتضٰی

ارتقاء کے متعلق ایک عمومی غلط فہمی جو ہمارے احباب کی گفتگو سے ہی جھلکتی ہے وہ یہ ہے شاید ارتقاء موسم بدلتے ہی واقع ہوجاتا ہے یا یہ ایکدم ہونے والی کوئی چیز ہے۔ دی بلائنڈ واچ میکر دیکھنے کے بعد میرا خیال یہ تھا کہ شاید  ارتقاء کوئی جادو کی چھڑی یا قسمت کی پڑی ہے کہ ادھر موسم بدلا تو ادھر جاندار بھی بدل گئے۔ اکثر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بندروں یا چمپینزیز نے کسی دن موسم میں بڑا بدلاؤ دیکھ کر شعوری فیصلہ کیا کہ اب چونکہ حالات وہ نہیں  رہے تو بندروں کی نسل کوشش کرے گی کہ وہ دو پاؤں پر دوڑے اور ہاتھوں سے کام لے۔ یا اچانک ایک صبح بندروں نے اٹھ کر دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ ان کے لمبے بال، دم اور دو ٹانگیں تو غائب ہےچکی ہیں۔ یا چونکہ دم اور دو ٹانگوں کی ضرورت نہیں  رہی تھی تو ان کے کم استعمال نے نئے بندروں میں اس صلاحیت کو ختم کردیا۔

ارتقاء کو سمجھنے کے لئے ہمیں کچھ مالیکولر بیالوجی کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ جس سے اندازہ ہوگا کہ اصل میں یہ جملہ کہ “بندر یا چیمپینیز انسانوں کے اجداد میں سے ہیں” اس کا کیا مطلب ہے۔ جانداروں میں ڈی این اے، اصل میں ایک بلیو پرنٹ ہے ایک نقشہ ہے یا ایک انسٹرکشن مینوول ہے۔ جس میں زندگی، زندہ رہنے وغیرہ تک کی تمام معلومات لکھی ہوتی ہے۔ انسانی ڈی این اے میں ذرا سی تبدیلی زندگی کے سارے رنگ یا تو گل کرسکتی ہیں یا بہاریں لگا دیتی ہے۔ اگر آپ نے کبھی جنیٹک بیماریوں کے متعلق پڑھا ہوتو ان کی وجہ ایسی ہی کوئی ناموافق تبدیلی ہوتی ہے۔ زیادہ دور نہ جائیے صرف اور صرف اپنے اردگرد دیکھ لیجئے، کیا وجہ ہے کہ بیٹا ماں یا باپ جیسا ہو بہو نہیں  ہوتا؟ یعنی اس کی کچھ چیزیں ماں سے مماثل ہوتی ہیں اور کچھ باپ سے، یہ اسی ڈی این اے کا کمال ہے۔ گو کہ اس مثال میں بہت سی تکنیکی خرابیاں ہیں لیکن عام انسان کے سمجھانے کو شاید یہ زیادہ جامع ہو۔ جب بھی ایک نیا سیل وجود میں آتا ہے تو ڈی این اے ان وائنڈنگ ایلیمنٹ جسے آسان زبان میں پروٹین کہا جاسکتا ہے اس تمام معلومات کو نہایت احتیاط سے کاپی کرتی ہے اور نئے سیل میں پیسٹ کردیتی ہے۔ لیکن بعض اوقات اس کاپی کرنے میں کچھ نہایت معمولی سی خامی رہ جاتی ہے جو تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔ اور یہی معمولی تبدیلی ارتقاء کا سبب بھی بنتی ہے۔ یہی تبدیلی ایگ سیلز کے ذریعے نئی نسل ااور اس سے آگے اسی طرح چلتی جاتی ہے۔ انسان بھی ان چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مخلوق ہے۔ ارتقاء کسی ایک دن کا حاصل نہیں  بلکہ قدرت کی اربوں اور کھربوں سال کی ریاضت اور محنت کا پھل ہے۔ نیچے تصویر میں ڈی این ان وائنڈنگ یا ڈی این اے ریپلیکیشن کے عمل کو دکھایا گیا ہے

آئیے اب اوپر دی گئی معلومات کو ملا کر حیاتیاتی ارتقاء کی تصویر مکمل کرتے ہیں۔ یاد رہے میرا مطمع نظر بلکل بھی ان تمام دلائل اور مدارج کا احاطہ کرنا نہیں  جو انسانی ارتقاء یا حیاتیاتی ارتقاء میں اب تک کارفرما رہے ہیں بلکہ مختصراَ ارتقاء کو بیان کرنا اور اس ارتقاء کے متعلق اہم غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے۔ زمین پر جدید انسان یا ہومو سپینز تک کی کہانی نہایت لمبی اور دقیق ہے لیکن آئیے ہم افریقہ کے جنگلات کی سیر کرتے ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ جاندار ایک خاص ماحول میں زندہ رہ سکتے ہیں اور ان کی صلاحیتیں ان کے مسکن کے موافق ہی ہوتی ہیں۔ اگر راجھستان سے کسی شخص کو انٹارکٹکا چھوڑ آیا جائے  تو وہ یقیناً  اس نئے مسکن میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے گا۔جانداروں کے مسکن جب تباہ ہوتے ہیں تو یہ جاندار یا تو نئے مسکن کی تلاش میں نکل جاتے ہیں یا پھر ان کی نسل ختم ہونے کا خدشہ ہوتا اور آخری صورت میں وہ ارتقاء پذیر ہوجاتے ہیں۔ زمین پر سے ڈائنوسارز کا خاتمہ بھی ایسے ہی مسکن تباہ ہونے کے نتیجے میں ہوا۔ افریقہ کے ہرے بھرے جنگلات جو بندروں اور چمپینزیز کے لئے نہایت موزوں مسکن تھے۔

یہ بھی پڑھیں :  نظریہ ارتقاء کے گستاخانہ نتائج۔۔فاروق الٰہی

ایک بڑے حادثے کے نتیجے میں موسم میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی یہ تبدیلی زمینی پلیٹس کے سرکنے کی وجہ سے عارضی نہ تھی بلکہ دائمی ہوگئی، انہی پلیٹس کے سرکنے کی وجہ سے انٹارکٹکا شدید سرد علاقہ بن گیا، اس تبدیلی سے افریقہ کے وہ جنگلات جو ہرے بھرے تھے وہ چٹیل میدانوں کی صورت اختیار کر گئے۔ اس موسم کی تبدیلی نے جہاں سے بہت سے جانداروں کو روئے زمین سے ختم کردیا بالکل وہیں کچھ جانداروں کے لئے مواقع بھی فراہم کیے۔ اس میں سے ایک موقع درختوں پر کودنے والے بندروں کے لئے بھی تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں  کہ کچھ ایک ماہ تک ان سخت حالات کا مقابلہ کرنے والے بندروں کو احساس ہوا کہ اب حالات بدل گئے ہیں تو کیوں نہ کوشش کی جائے اور ان حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا جائے۔ بلکہ جب بندروں کی ایک دو نسلیں آگے چلیں تو ان کے ڈی این اے میں کچھ ایسی رینڈم تبدیلیاں ہوئی جس کی وجہ سے کچھ عرصے بعد نئے پیدا ہونے والے بندر دو ٹانگوں اور دو ہاتھوں کے مالک تھے۔ پھر یہ نسل آگے بڑھی تو وہی عمل جسے اوپر مفصل بیان کیا جاچکا ہے اس کے نتیجے میں جسم سے لمبے بال ختم ہوگئے۔ اسی بہت آہستہ اور لمبے عرصے پر مشتمل عمل نے بندروں کو ہومو اریکٹس بنا دیا جو آگے چل کر ہومو سیپینز بنے۔ یہ ہے ارتقاء کی نہایت مختصر کہانی۔

بالکل اسی طرح انسانی شعوری ارتقاء کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ کسی ایک دن کا حاصل ہے ایک نہایت نامعقول اور نامناسب بات ہے۔ بالکل حیاتیاتی ارتقاء کے نقش قدم پر انسان کا شعوری ارتقاء ہوا۔ یہ شعوری ارتقاء سالہاسال کے کٹھن حالات کے اسباق ہیں۔ ارتقاء نے انسان کو صرف بہتر حالت ہی نہیں  بخشی بلکہ اسے ایک دماغ بھی دیا جو سوچنے سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسان کے شعور کے بارے میں کبھی یہ پابندی نہیں لگائی جاسکتی کہ فلاں دن انسان باشعور ہوگیا بلکہ انسانی تاریخ اور ماقبل تاریخ کی تمام ریاضتوں نے انسان کو شعور کے روشن در پر لا کھڑا کیا۔

اس کے برعکس اگر کوئی شخص یہ بات مانتا ہے کہ شعور کسی وحی، کشف یا الہام کی مانند انسان پر اتارا گیا تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے لئے دلیل اور ثبوت فراہم کرے۔ اکیلے اکیلے شکار کرنے والوں کا اکھٹے شکار کرنا، اور پھر کھیتی باڑی کا انسان کو یہ پیغام دینا کہ اب وقت آ گیا کہ انسان خاندان کی صورت اختیار کرے، پہلی انسانی تہذیب کی نوید تھی جو انسان کو اس کے شعور نے سنائی۔ پھر اسی ارتقاء نے انسان کے لسانی اور تحریری اظہار کا دروازہ بھی کھول دیا۔ جس نے شعور انسانی کو نئی نئی راہیں دکھائیں اور یہ اسی بتدریج حاصل کردہ شعور اور ارتقاء کا کمال ہے جو میں اور آپ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں۔

سر چارلس ڈارو ن نے اپنی کتاب اوریجن آپ سپیسیز کا اختتام ان خوبصورت الفاظ سے کیا ہے جو مجھے بہت متاثر کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں:

There is a grandeur in the view of life, with its several powers, having been originally breathed by the Creator into few forms or into one; and that, whilst this planet has gone cycling on according to fix law of gravity, from so simple beginning endless forms most beautiful and most wonderful have been, and are being evolved.

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply