نظریہ ارتقاء کے گستاخانہ نتائج۔۔فاروق الٰہی

کچھ عرصہ پہلے میٹرو پہ شعبہ بائیو سائنسز کے ایک محقق سے ملاقات ہوئی۔ وہ اِس وقت لاہور کی معروف یونیورسٹی سے اپنے ایم فل مقالے کیلئے ڈی این اے اور اُس کی شاخ پر کوئی تحقیقی کام سرانجام دے رہے ہیں۔ دینی موضوعات پر تبادلہ خیالات کرتے ہوئے جدید الحاد پر گفتگو ہوئی اور اِس ضمن میں نظریہ ارتقاء بھی زیر بحث آیا۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ بائیو سائنسز سے جڑے تمام شعبوں میں نظریہ ارتقاء کو بطور سائنسی حقیقت کے طور پر پڑھایا جارہا ہے لیکن درحقیقت اِس کی بنیادیں انتہائی کمزور ہیں۔ اُنہوں نے قرآن کے بعض حوالے دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ نظریہ ارتقاء پر ایمان لانا در اصل مذہب کی مخالفت اور الحاد کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔
نظریہ ارتقاء کے رد میں اُنہوں نے روایتی بات بھی دہرائی کہ دیکھو انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے، لیکن وہ اپنے وجود کو حیوان کی ارتقائی نوع قرار دینے لگتا ہے۔ بندروں، کتوں اور گدھوں کو اپنا کزن قرار دیتا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ انسانوں میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین بھی آئے ہیں۔ بھلا حیوان کے ارتقائی عمل سے ایسی ہستیاں کیسے وجود  میں آسکتیں ہیں؟ معاذ اللہ ایسا سوچنا بھی گستاخی ہے۔ انسان کی تخلیق کس قدر خوبصورت طریقے پر ہوئی ہے۔ انسان کس طرح ماں کے وجود میں پرورش پاتا ہے۔ کس طرح بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی منازل طے کرتا ہے۔ اس میں عقل والوں کیلئے اللہ نے بےشمار نشانیاں رکھی ہیں جبکہ سائنسدان ہیں کہ اشرف المخلوقات کو حیوانوں کی ہی ایک ترقی یافتہ صورت قرار دے رہے ہوتے ہیں۔
چونکہ ملاقات مختصر ہوئی اور اتفاقیہ ہی نظریہ ارتقاء زیر بحث آیا تو اس حوالے سے میں اپنی معروضات اُن کے سامنے پیش نہیں کر پایا۔ نظریہ ارتقاء کا رد کرتے ہوئے جو آخر  میں  ادبی دلیل اُنہوں نے پیش کی  یہ بالعموم پیش کی جاتی ہے۔ اس وقت میرا مقصود نظریہ ارتقاء کے رد یا دفاع میں سائنسی دلائل پیش کرنا نہیں ہے بلکہ انسانی نفسیات کے ایک پہلو کی جانب اشارہ کرنا مقصود ہے۔
انسانی نفسیات کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ کسی عمل کو روزمرہ ہوتا دیکھتا ہے تو اُس کے اندر موجود بہت سی قابل اعتراضات چیزیں اُس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ حیوانوں کے ارتقاء سے انسان کے وجود کا آنا اس لئے گستاخی  لگتا ہے کہ اس وقت جانوروں سے انسان بنتے ہمیں نظر نہیں آتے۔ ورنہ اگر حیوان سے انسان بنتے نظر آ رہے ہوتے تو ہم اُس کو بھی یقیناً خدا کی ہی ایک نشانی قرار دیتے اور اس کو کچھ اس طرح سے بیان کرتے کہ دیکھو کیسے ایک بےعقل حیوانی وجود  میں ایک عرصے کے بعد عقل کا چراغ جل اٹھتا ہے اور حضرت انسان وجود میں آجاتا ہے۔
ہمارے مسلمانوں میں ایک ایسا مسلک بھی موجود ہے جو اِس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ صالحین اور عام انسان ایک ہی طریقے پر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مسلک جنسی عمل کی تحریک سے برگزیدہ ہستیوں کی پیدائش کا منکر ہے اور اُن کی اولاد کو بھی کسی ایسے عمل کا نتیجہ قرار نہیں دیتا ۔ اُس کے ہاں بالعموم انبیاء اور اولیاء کے حوالے سے یہ غلو پایا جاتا ہے کہ اُن کی پیدائش کسی فطری طریقے پر نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ مافوق الفطری طریقے پر دنیا میں آتے ہیں۔ اس مسلک کو فطری پیدائش میں بھی بےادبی کا عنصر نظر آتا ہے۔ مرد اور عورت کے جنسی تعلق سے لے کر بچے  کے اِس دنیا میں آنے تک کو وہ ایک ایسا طریقہ خیال کر رہے ہوتے ہیں کہ اگر انبیاء و اولیاء کی پیدائش بھی ویسی مان لی جائے تو اُن کے نزدیک  گستاخی شمار ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ برگزیدہ ہستیوں کے جسم سے نکلی ہوئی فطری غلاظت کو بھی  پاکیزہ خیال کرتے ہیں۔
انسانی نفسیات کا معاملہ ہی کچھ ایسا ہے  جسے عقیدے کا درجہ دیتا ہو اس کے حق میں اسی نوعیت کے مفروضے گھڑ لیتا ہے۔ سائنسی نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کم از کم اس طرح کی ادبی نوعیت کی دلیلوں کا سہارا لینے کی بجائے سائنسی دلیلوں کو ہی بیان کیا جانا چاہیے۔ اکثر اوقات بالخصوص سوشل میڈیا پر  یہ  دیکھنے کو ملتا ہے کہ نظریہ ارتقاء کے رد و قبول میں سائنسی دلیل دینے کی بجائے ایسی باتیں کی جانے لگتی ہیں جس کی وجہ سے مناظرے کی سی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور دلیل نہ سائنسی رہتی ہے نہ منطقی۔ اس لئے ایسا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نظریہ ارتقاء کے گستاخانہ نتائج۔۔فاروق الٰہی

Leave a Reply